• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ظہیر الدین بابر:بحیثیت بادشاہ زیادہ اہمیت کے حامل ہیں یا بحیثیت شاعر و ادیب؟(حصّہ اوّل)۔۔گل بخشالوی

ظہیر الدین بابر:بحیثیت بادشاہ زیادہ اہمیت کے حامل ہیں یا بحیثیت شاعر و ادیب؟(حصّہ اوّل)۔۔گل بخشالوی

سٹیفن ڈیل نے اپنی کتاب ’گارڈن آف ایٹ پیراڈائز‘ یعنی ’باغ ہشت بہشت‘ میں بابر کی نثر کو ’الہامی‘ قرار دیا ہے اور اس کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ اس قدر براہ راست ہے جس طرح آج 500 سال بعد لکھنے کی  طرزعام ہے یا جس طرح لکھنے کی آج بھی  ترغیب دی جاتی ہے۔ انھوں نے اس کے متعلق کس طرح اپنے بیٹے ہمایوں کی اصلاح کی تھی اور لکھا تھا کہ ’تمہاری تحریر میں موضوع گم ہو جاتا ہے‘ اس لیے براہ راست لکھنے کی تلقین کی تھی۔اردو کے معروف شاعر غالب نے تقریبا ً تین سو سال بعد اردو میں جو طریقہ تحریر ایجاد کیا اور جس پر انھیں فخر بھی تھا اس طرح کی صاف و سادہ نثر بابر نے ان سے پہلے اپنے جانشینوں کے لیے لکھ چھوڑی تھی۔

بابر نامہ پڑھنے سے پتا چلتا ہے کہ ان کی پہلی شادی ان کی چچا زاد بہن عائشہ سے ہوئی تھی جس سے ایک بیٹی پیدا ہوئی جو 40 دن بھی زندہ نہیں رہ سکی لیکن بابر کو ان کی اپنی بیگم سے کوئی الفت نہ تھی۔ انھوں نے لکھا ہے کہ اُ ردو بازار میں ایک لڑکا تھا۔ بابری نام جس میں ہم نامی کی بھی ایک مناسبت تھی۔ انھی دنوں مجھے اس کے ساتھ عجیب سا لگاؤ   پیدا ہو گیا
اس پری وش پہ کیا ہوا شیدا۔۔بلکہ اپنی خودی بھی کھو بیٹھا،
ان کا ایک فارسی شعر یہ ہے:
ہیچ کس چوں من خراب و عاشق و رسوا مباد۔،،ہیچ محبوب چو ت وبے رحم و بے پروا مباد

مگر حال یہ تھا کہ کبھی بابری میرے سامنے آ جاتا تو مارے شرم کے میں نگاہ بھر کر اس کی طرف نہ دیکھ سکتا تھا۔ چہ جائیکہ اس سے مل سکوں اور باتیں کر سکوں۔ اضطراب دل کی یہ کیفیت تھی کہ اس کے آنے کا شکریہ تک ادا نہ کر سکتا تھا۔ یہ تو کہاں کہ نہ آنے کا گلہ زبان پر لا سکتا تھا اور زبردستی بلانے کی مجال ہی کس کو تھی۔

بابر کی محبو ب ترین اہلیہ ماہم بیگم تھیں جن کے بطن سے ہمایوں پیدا ہوئے تھے جبکہ گلبدن بیگم اور ہندال و عسکری اور کامران دوسری بیویوں سے پیدا ہوئے تھے۔
پروفیسر نشاط منظر کہتی ہیں کہ بابر نے 21 سال تک زاہدانہ زندگی گزاری لیکن پھر انھیں ارباب نشاط کے ساتھ شراب کی محفلیں راس آنے لگیں۔ چنانچہ ان کی محفلوں میں شراب نوش خواتین کا بھی ذکر ہے اور بابر نے اس کے ذکر کو چھپانے کی کوشش نہیں کی ہے۔ وہ اپنے والد کے بارے میں بھی لکھتے ہیں کہ انھیں شراب کی عادت تھی اور معجون بھی کھانے لگے تھے جبکہ ہمایوں کے بارے میں تو مشہور ہی ہے کہ انھیں افیم کھانے کی لت تھی۔ بابر نے جب شراب سے توبہ کی تو وہ ان کی حکمت عملی تھی۔ ان کے سامنے انڈیا کا سب سے بڑا جنگجو رانا سانگا تھا جو اس سے پہلے کبھی کسی جنگ میں شکست سے دوچار نہیں ہوا تھا۔ بابر کی فوج پانی پت کی لڑائی کے بعد نصف رہ گئی تھی اور جنگ کے دوران ایک ایسا مرحلہ آیا جب بابر کو شکست سامنے نظر آ رہی تھی تو اس نے پہلے ایک شعلہ بیان تقریر کی اور پھر توبہ کی۔

بعض علما کا خیال ہے کہ بابر کی اس سچی توبہ کے سبب اللہ نے مغلوں کو ہندوستان میں تین سو سال کی سلطنت عطا کر دی۔ لیکن جامعہ ملیہ اسلامیہ میں تاریخ کے استاد پروفیسر رضوان قیصر کا کہنا ہے کہ یہ بابر کے عمل کی مذہبی توضیح تو ہو سکتی ہے لیکن اس کی تاریخی حیثیت نہیں  ہے،کیونکہ اسے کسی طرح ثابت نہیں کیا جا سکتا البتہ اتنا کہا جا سکتا ہے کہ بابر نے جنگ جیتنے کے لیے مذہبی جوش و خروش بیدار کرنے کا استعمال ضرور کیا تھا۔اس سے قبل جب بابر نے اپنے آبائی وطن فرغنہ کی بازیابی کے لیے ایران کے بادشاہ سے حمایت حاصل کی تھی اور خود کو شیعہ کہا تھا تو اس وقت کے وہاں کے ایک بڑے عالم نے بابر کو بہت برا بھلا کہا تھا اور اس کی مخالفت پر اتر آئے تھے۔ بابر نے بہت جگہ اپنے دشمن مسلم حکمرانوں کے لیے بھی ’کافر‘ کا لفظ استعمال کیا اور انھیں لعنت و ملامت کا نشانہ بنایا ہے۔بہر حال بابر نے اپنی اس توبہ کا ذکر اس طرح کیا ہے: ’

“میں نے کابل سے شراب منگوائی تھی اور بابا دوست سوجی اونٹوں کی تین قطاروں پر شراب کے مٹکے بھر کر لے آیا۔ اسی درمیان محمد شریف نجومی نے یہ بات پھیلا دی کہ اس وقت مریخ ستارہ مغرب میں ہے اور یہ بات منحوس ہے اس لیے شکست ہو گی۔ اس بات نے میری فوج کے دل ہلا دیے۔۔۔”

’جمادی الثانی کی 23ویں تاریخ تھی منگل کا دن تھا یکایک خیال آیا کہ کیوں نہ شراب سے توبہ کر لوں۔ یہ ارادہ کر کے میں نے شراب سے توبہ کر لی۔ شراب کے سب سونے چاندی کے برتنوں کو توڑ دیا۔ اور جتنی شراب اس وقت چھاؤنی میں موجود تھی سب کی سب پھنکوا دی۔ شراب کے برتنوں سے جو سونا چاندی ملا اسے فقیروں میں تقسیم کر دیا۔ میرے اس کام میں میرے ساتھی عس نے بھی ساتھ دیا۔‘

’میری توبہ کی خبر سن کر میرے ساتھی امرا میں تین اشخاص نے اسی رات توبہ کر لی۔ بابا دوست چونکہ اونٹوں کی کئی قطارو ں پر شراب کے بے شمار مٹکے لاد کر کابل سے لایا   تھا اور یہ شراب بہت تھی اس لیے اسے پھنکوانے کے بجائے اس میں نمک شامل کر دیا تاکہ سرکہ کی شکل اختیار کر لے۔ جس جگہ میں نے شراب سے توبہ کی اور شراب گڑھوں میں انڈیلی وہاں توبہ کی یادگار کے طور پر ایک پتھر نصب کرایا اور ایک عمارت تعمیر کرائی۔‘’میں نے یہ ارادہ بھی کیا تھا کہ اگر اللہ تعالی رانا سانگا پر فتح بخشیں گے تو میں اپنی سلطنت میں ہر قسم کے محصول معاف کر دوں گا۔ میں نے اس معافی کا اعلان کرنا ضروری سمجھاا اور محرروں کو حکم دیا کہ اس مضمون کے فرمان جاری کریں اور دور دور اس کی شہرت دی جائے۔

‘فوج میں دشمن کی زیادہ تعداد کی وجہ سے بددلی پھیل گئی تھی اس لیے میں نے پوری فوج کو ایک جگہ جمع کرکے تقریر کی:،جو بھی اس دنیا میں آیا ہے اسے مرنا ہے۔ زندگی خدا کے ہاتھ میں اس لیے موت سے نہیں ڈرنا چاہیے۔ مجھ سے تم لوگ اللہ کے نام پر قسم کھاؤ، کہ موت کو سامنے دیکھ کر منہ  نہیں موڑوگے اور جب تک جان باقی ہے لڑائی جاری رکھو گے۔’ میری تقریر کا بہت اثر ہوا۔ اس سے فوج میں جوش بھر گیا، لڑائی جم کر ہوئی اور آخر میری فتح ہوئی۔ یہ فتح 1527 میں ہوئی۔‘

بابر کو پانی پت کی جنگ کے بعد جو مال و دولت ہاتھ لگتے ہیں اسے وہ اپنے رشتہ داروں اور امرا ء میں دل کھول کر تقسیم کرتے ہیں۔ اس کا ذکر بابر نے بھی کیا ہے اور ان کی بیٹی گلبدن بانو نے بھی اپنی تصنیف ’ہمایوں نامہ‘ میں اس کا مفصل ذکر کیا ہے۔

پروفیسر نشاط منظر اور ڈاکٹر رحما جاوید کے مطابق بابر کی شخصیت کی خاص بات ان کا خواتین کے ساتھ تعلق تھا۔ انھوں نے بتایا کہ خواتین ان کے مشوروں میں شامل ہوتی تھیں۔ ان کی والدہ تو ان کے ساتھ تھیں ہی ،نانی بھی سمرقند سے اندجان پہنچ جاتی تھیں۔ خالاؤں، چچیوں، بہنوں اور پھوپھیوں کا انھوں نے بطور خاص اپنی سوانح میں ذکر کیا ہے۔بابر کی سوانح میں جتنی خواتین کا ذکر ہے اتنی خواتین کا نام بعد کی پوری مغلیہ سلطنت میں سننے میں نہیں آتا ہے۔ بابر اپنی دو پھوپھیوں کا تذکرہ کرتے ہیں جو مردوں کی طرح پگڑی باندھتی تھیں۔ گھوڑے پر سوار ہوتی تھیں اور تلوار لے کر چلتی تھیں۔ یوں تو تلوار چلانا اور بہادری ان میں عام تھی لیکن وہ دربار اور مجالس میں عام طور پر شرکت کرتی تھیں۔ محض شادی بیاہ تک ان کا دائرہ کار محدود نہیں تھا۔ اکبر کے زمانے میں مغلوں کا انڈینائزیشن شروع ہوا اور اسکے بعد خواتین منظر سے پس منظر میں گم ہوتی گئیں چنانچہ بعد میں ہم جب جہانگیر کی بغاوت کے معاملے میں صلح کرانے میں جنھیں پیش پیش دیکھتے ہیں وہ جہانگیر کی پھوپھیاں اور دادیاں ہیں اور ان کی اصلی ماں جن کے پیٹ سے وہ پیدا ہوئے وہ کہیں نظر نہیں آتیں۔

بابر نے لکھا: ‘فرزند من، اوّل یہ کہ مذہب کے نام پر سیاست مت کرو، کہ تم مذہبی تعصب کو اپنے دل میں ہرگز جگہ نہ دو اور لوگوں کے مذہبی جذبات اور مذہبی رسوم کا خیال رکھتے ہوئے سب لوگوں کے ساتھ پورا انصاف کرنا۔‘ سیف الدین احمد نے کہا کہ بابر کا یہی نظریہ تو آج سیکولرزم کہلاتا ہے۔ بابر نے قومی تعلقات کے نظریے میں کشیدگی نہ پیدا کرنے کی تلقین کرتے ہوئے لکھا: ’گو کشی سے بالخصوص پرہیز کرو تاکہ اس سے تمھیں لوگوں کے دل میں جگہ ملے اور اس طرح وہ احسان اور شکریہ کی زنجیر سے تمہارے مطیع ہو جائیں۔‘ بابر نے تیسری بات یہ کہی کہ ‘تمہیں کسی قوم کی عبادت گاہ مسمار نہیں کرنی  چاہیے اور ہمیشہ پورا انصاف کرنا تاکہ بادشاہ اور رعایا کے تعلقات دوستانہ ہو ں اور ملک میں امن و امان ہو۔‘چوتھی بات یہ کہی کہ ’اسلام کی اشاعت ظلم و ستم کی تلوار کے مقابلے میں لطف و احسان کی تلوار سے بہتر ہو گی۔‘ اس کے علاوہ بابر نے شیعہ سنی اختلافات کو نظر انداز کرنے کا مشورہ دیا اور ذات پات کے نام پر عوام کے اندر رسہ کشی سے گریز کرنے کو کہا نہیں تو اس سے ملک کی یکجہتی کو نقصان ہو گا اور حکمران جلد ہی اپنے اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ بابر نے یہ بھی کہا کہ ’اپنی رعایا کی مختلف خصوصیات کو سال کے مختلف موسم کی طرح سمجھو تاکہ حکومت اور عوام مختلف بیماریوں اور کمزوریوں سے بچ سکیں۔

پروفیسر نشاط منظر نے بتایا کہ حقیقت یہ ہے کہ بابر کا دل ہندوستان کی طرح کشادہ تھا اور وہ جہد مسلسل میں یقین رکھتا تھا۔ اس کی فطرت میں دلچسپی اور ہندوستان میں باغات کی تعمیر نے ایک نئے عہد کا آغاز کیا ہے جس کی معراج ہمیں جہانگیر کے باغوں اور شاہجہاں کی تعمیرات میں نظر آتی  ہے۔بابر کی زندگی میں مذہب کا بہت دخل تھا اور وہ بہت سے لوگوں کے بارے میں بیان کرنے کے دوران اس بات کا ذکر کرنا نہیں بھولتا کہ وہ نمازی تھا یا یہ کہ اس نے فلاں نماز کے وقت سفر شروع کیا اور فلاں نماز وہاں پڑھی۔اگر چہ وہ نجومیوں اور ستارہ شناسوں سے احوال دریافت کرتے تھے لیکن توہم پرستی سے دور تھے۔ چنانچہ کابل کے اپنے بیان میں بابر نے لکھا ہے کہ ’یہاں کے بزرگوں میں ایک مُلا عبدالرحمان تھے۔ یہ عالم تھے اور ہر وقت پڑھتے رہتے تھے۔ ان کا اسی حال میں انتقال ہوا۔۔۔ لوگوں کا بیان ہے کہ غزنی میں ایک مزار ہے اگر اس پر درود پڑھو تو وہ ہلنے لگتا ہے۔ میں نے اس کو جا کر دیکھا تو قبر ہلتی ہوئی معلوم ہوئی۔ معلوم کیا تو پتا چلا کہ وہاں کے مجاوروں کی چالاکی ہے۔ قبر کے اوپر ایک جال سا بنایا ہے جب وہ جال پر چلتے ہیں تو وہ ہلتی ہے۔ اور اس کے ہلنے سے قبر بھی ہلتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ میں نے اس جال کو اکھڑوا دیا اور گنبد بنوا دیا۔‘بابرنامہ میں اس قسم کے دوسرے واقعات بھی ملتے ہیں لیکن بابر کی موت اپنے آپ میں ایک بہت روحانی واقعہ ہے۔

گلبدن بانو نے اسے تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے کہ کس طرح ہمایوں کی حالت خراب ہوتی جا رہی تھی تو بابر نے ان کی چارپائی کے گرد چکر کاٹے اور نذر مانی۔ وہ لکھتی ہیں کہ ہمارے یہاں ایسا ہوتا تھا لیکن بابا جانم نے تو اپنی جان کے بدلے ہمایوں کی جان مانگ لی تھی چنانچہ یہ ہوا کہ ہمایوں اچھے ہوتے گئے اور بابر علیل اور اسی حالت میں 26 دسمبر 1530 کو ایک عظیم فاتح نے دنیا کو الوداع کہا اور اپنے پیچھے بے شمار سوالات چھوڑ گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply