کینسر (90) ۔ سرخ ملکہ/وہاراامباکر

اگست 2000 میں اکتالیس سالہ پولیس مین جیری مے فیلڈ کو سی ایم ایل کی تشخیص ہوئی۔ ان کا علاج گلیوک سے کیا گیا۔ اگلے چھ ماہ میں ان کی علامات اور بلڈ کاونٹ نارمل ہو چکی تھی۔ وہ نارمل زندگی گزار رہے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

لیکن یہ طویل عرصہ نہیں رہا۔ 2003 میں دوا نے اثر کرنا ختم کر دیا۔ اس کی ڈوز بڑھائی گئی لیکن اکتوبر تک معلوم ہو گیا تھا کہ ریسپانس نہیں آ رہا۔ کینسر اس ٹارگٹڈ تھراپی کے خلاف مدافعت حاصل کر چکا تھا۔
سی ایم ایل کے زیادہ تر کیس ایسے ہیں جن میں کامیابی ہوتی ہے۔ سوائے ایک دوا کے، کچھ بھی اور دینے کی ضرورت نہیں پیش آتی۔ لیکن کبھی کبھار مریض کا لیوکیمیا گلیوک سے ریسپانڈ کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ اور لیوکیمیا کی یہ شکل بڑھنے لگتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹارگٹڈ تھراپی کی دنیا میں داخل ہو جانے کے بعد ٹارگٹڈ تھراپی سے آگے کی دنیا کا سامنا تھا۔ آخر ایک کینسر کا خلیہ اس ڈرگ کے خلاف مزاحمت کیسے حاصل کر سکتا ہے جو براہِ راست اس کی اونکوجین کو نشانہ بناتی ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنرل تھراپی میں کینسر کے خلیہ کے مزاحمت حاصل کرنے کے کئی مکینزم معلوم تھے۔ کچھ خلیات مالیکیولر پمپ فعال کر دیتے تھے۔ نارمل حالات میں یہ پمپ موجود ہیں جن کا کام خلیہ کے اندر سے فاضل یا زہریلے مواد کو باہر خارج کرنا ہے۔ کینسر کے خلیات ان پمپ کی مدد سے کیموتھراپی کی دوا کو باہر پھینک دیتے تھے۔ اور کیموتھراپی کو بے اثر کر دیتے تھے۔
کئی دوسرے خلیات ایسے پروٹین فعال کر دیتے تھے جو ڈرگ کو ناکارہ بنا دیتی تھیں۔ کئی کینسر جسم کی ایسی جگہوں کی طرف منتقل ہو جاتے تھے جہاں ادویات رسائی نہیں حاصل کر سکتی تھیں۔ (جیسا کہ لمفوبلاسٹک لیوکیمیا کا دماغ میں جا کر گھر کرنا)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محققين نے دریافت کیا کہ خلیات نے گلیوک کے خلاف مزاحمت اس سے بھی زیادہ ہوشیار طریقے سے حاصل کی تھی۔ ان میں ہونے والی میوٹیشن نے پروٹین کا سٹرکچر تبدیل کر دیا تھا۔ یہ پروٹٰن لیوکیمیا زدہ خلیات کو بڑھانے کا کام تو ویسا ہی کرتی تھی لیکن ڈرگ کے چپکنے کی صلاحیت سے فرار پا لیتی تھی۔
گلیوک اس پروٹین کے بیچ کے خلا میں ایسے جا گھستا تھا جیسا دل میں تیر پیوست ہوتا ہے لیکن نئی پروٹین کی تبدیل شدہ شکل میںیہ خلا موجود نہ تھی اور دوا غیرموثر ہو گئی تھی۔
مے فیلڈ کے لیوکیمیا میں پروٹین کی تبدیلی نے کینسر کو گلیوک کے نشانے سے مکمل طور پر محفوظ کر لیا تھا۔ ٹارگٹڈ تھراپی سے بچنے کے لئے ٹارگٹ تبدیل کر لیا گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ مشاہدہ بتاتا تھا کہ گلیوک ریززٹنس پر قابو پانے کے لئے دوسری جنریشن ڈرگ کو حملہ بالکل ہی اور طریقے سے کرنا ہو گا۔ گلیوک کی ڈوز بڑھانے سے کوئی فائدہ نہیں اور نہ ہی گلیوک جیسا کوئی اور مالیکیول ڈھونڈنا کام آئے گا۔ اس کینسر کی کوئی اور کمزوری دیکھنا پڑے گی۔
برسٹل مائیرز کی ٹیم کے ساتھ کام کرتے ہوئے 2005 میں سائیرز نے ایک اور کائنیز انہبٹر تخلیق کیا۔ یہ نئی دوا ڈاساٹنب تھی۔ یہ پروٹین کی سطح پر ایک اور دراڑ کو استعمال کرتی تھی۔ جب ڈاساٹینب کا ٹیسٹ ایسے مریضوں پر کیا گیا جن کا کینسر گلیوک سے مدافعت حاصل کر چکا تھا تو اثرات زبردست تھے۔ ماے فیلڈ کا واپس آ جانے والا لیوکیمیا 2005 میں واپس جا چکا تھا۔ بلڈ کاونٹ نارمل ہو چکی تھی۔ ہڈی کے گودے سے لیوکیمیا کے خلیے غائب ہو چکے تھے۔ مے فیلڈ دوبارہ صحتیاب ہو چکے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹارگٹڈ تھراپی بھی چوہے اور بلی کا کھیل ہو سکتا ہے۔ کینسر ساکن بیماری نہیں۔ جب سی ایم ایل کینسر کے خلیات نے گلیوک کو ٹھوکر مار کر پرے کر دیا تو ایک اور مالیکیولر ویری انٹ نے اس کو کنٹرول کیا۔ اور جب دوسری جنریشن کی ڈرگ کام نہ کرے؟ ہمیں اس سے آگے کچھ بنانا پڑے گا۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو جنگ کا رخ تبدیل ہو جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوس کیرل کی کہانی میں سرخ ملکہ ایلس کو بتاتی ہے کہ اس کے پیروں تلے دنیا حرکت میں ہے اور اسے بھاگتا رہنا پڑے گا تا کہ وہ اپنی جگہ پر رہ سکے۔ کینسر کے ساتھ ہماری ہماری صورتحال کچھ ایسے ہی ہے۔ ہمیں کھڑا رہنے کے لئے بھاگتے رہنا پڑے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گلیوک کی دریافت کی اگلی دہائی میں چوبیس نوول ادویات ہیں جو ٹارگٹڈ تھراپی کے لئے استعمال ہو رہی ہیں۔ درجنوں مزید پر کام ہو رہا ہے۔ پھیپھڑے، بڑی آنت، پروسٹیٹ، چھاتی کے کینسر، سارکوما، لمفوما اور لیوکیمیا کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ان میں سے کچھ براہِ راست اونکوجین کو غیرفعال کرتی ہیں۔ کچھ ان کے فعال کئے گئے پاتھ وے کو حدف بناتی ہیں۔ ایواسٹن ٹیومر انجیوسس (خون کی سپلائی لینے کی صلاحیت) پر حملہ آور ہوتی ہے۔ بورٹیزومب اور ولکاڈ پروٹین کے فضلہ خارج کرنے کے مکینزم پر۔
ملٹی پل مائیلومو کے لئے تین نئی ادویات ہیں جو فعال پاتھ وے کو بند کرتی ہیں۔ ملٹی پل مائیلوما کا علاج اب جس طرح سے کیا جاتا ہے، اس میں سٹینڈرڈ کیموتھراپی کے ساتھ ان کا اضافہ کیا جاتا ہے۔ اگر ٹیومر واپس آئے تو دوا بدل دی جاتی ہے۔
کوئی ایک دوا یا علاج مائیلوما کو مکمل طور پر ختم نہیں کرتا۔ یہ ابھی بھی جان لیوا ہے لیکن نئی تھراپی کی مدد سے اب اس کے مریضوں کے بچنے کی شرح بہت بلند ہو چکی ہے۔ 1971 میں اس بیماری کی تشخیص کے دو سال کے اندر نصف مریض وفات پا چکے ہوتے تھے۔ اب یہ عرصہ بڑھ کر پانچ سال ہو چکا ہے اور بڑھ رہا ہے۔
ملٹی پل مائیلوما کے ایک مریض نے 2005 میں مجھ سے پوچھا کہ کیا میں اپنی بیٹی کو سکول مکمل کرتا دیکھ سکوں گا۔ چند ماہ بعد اس کی بیٹی سکول سے فارغ ہو رہی تھی۔ 2009 میں اس نے اپنی بیٹی کی کالج سے گریجویشن میں شرکت کی۔ وہ اس وقت وہیل چئیر پر تھا۔ وہیل چئیر پر ہونے کا کوئی بھی تعلق اس کے کینسر سے نہیں تھا۔ اس سے چند روز پہلے اپنے بیٹے کے ساتھ بیس بال کھیلتے ہوئے گر کر ٹانگ پر چوٹ لگی تھی۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply