1950ء سے لیکر 1990ء تک کے سال پاکستان فلم انڈسٹری کے سنہری سال تھے ۔اِن سالوں میں لوگوں کی بڑی تعداد سینما گھروں کا رخ کیا کرتی تھی اور فلمیں بھی کھڑکی توڑ کمائی کیا کرتی تھیں۔ انہی سالوں میں پاکستان کو ایسے فلمی ستارے ملے جنہوں نے بعد میں دہائیوں تک پاکستانیوں کے دِلوں پر راج کیا۔ فلمی ستاروں کے ساتھ ساتھ کچھ فلمیں بھی ایسی ہِٹ ہوئیں کہ جنہوں نے بعد میں پاکستانی فلم اندسٹری کا چہرہ بدل کر رکھ دیا اور اِن فلموں نے پاکستانی معاشرے پر بھی بہت گہرا اثر چھوڑا۔ انہی فلموں میں سے ایک فلم 1979ء میں ریلیز ہونے والی “مولا جٹ” تھی۔
یہ فلم چونکہ پنجابی زبان میں تھی تو پنجابیوں نے اسے خوب سراہا ،یوں یہ فلم اپنے وقت کی سپر ہٹ ثابت ہوئی ۔مار دھاڑ ، دشمنی اور بڑھکوں پر مبنی اِس فلم نے بعد میں بننے والی پنجابی فلموں کیلئے ایک سٹینڈرڈ سیٹ کردیا۔ چونکہ ہم لکیر کے فقیر ہیں، اس لیے بعد میں آنیوالی پنجابی فلمیں بھی اسی ڈگر پر چل نکلیں۔ان پنجابی فلموں میں استعمال کی جانے والی زبان بھی انتہائی نا مناسب ہوا کرتی تھی۔ اوئے۔۔تُو۔۔سے ڈائیلاگ شروع ہوا کرتے تھے اور بڑھکوں پر ختم ہوا کرتے تھے۔ مار دھاڑ ، غیر ضروری بڑھکیں اور فضول قسم کی دشمنیاں بعد میں پنجابی فلموں کا موضوع بن کر رہ گئیں ، محبت و درس اور کانوں میں رس گھولنے والی موسیقی کی جگہ بے ہودہ اور ذو معنی شاعری نے لے لی۔ یوں لوگوں نے پنجابی فلموں کا بائیکاٹ کرنا شروع کردیااور چند مخصوص لوگوں یا برادریوں کے سوا سبھی نے پنجابی فلمیں دیکھنا بند کردیں۔
جہاں ایسی فلمیں فلم اندسٹری کی بربادی کا باعث بنیں، وہی یہ فلمیں معاشرے میں بہت منفی اثر چھوڑ کر گئیں۔چونکہ یہ فلمیں لمبے عرصے تک سینماؤں کی زینت بنتی رہین، اس لیے انہی فلموں کی وجہ سے لوگوں نے پنجابی زبان کو آہستہ آہستہ ایک بدتمیز اور بد تہذیب زبان سمجھنا شروع کردیا۔ رہی سہی کسر پنجابی تھیٹر نے پوری کردی ۔ تھیٹر میں بھی بے ہودہ جگتیں اور ذومعنی جملے پنجابی زبان میں بولے جاتے تھے تو آہستہ آہستہ یہ بات لوگوں نے اپنے دل میں بٹھالی کہ بس پنجابی زبان میں اوئے،تُو، بڑھکوں اور جگتوں کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔
پہلے پہل آہستہ آہستہ پنجابی زبان تعلیمی اداروں خصوصاً پرائیویٹ اسکولوں اور کالجز میں بولنا بند ہوئی، اور پھر اداروں ، دفتروں ، بنکوں اور پرائیویٹ فرمز میں اِس پر اَن دیکھی پابندی عائد کردی گئی۔ آج حالت یہ ہے کہ پرائیویٹ تو ایک طرف سرکاری اسکولوں اور کالجز میں بھی آپ کو پنجابی بولنے والے شاذو نادر ہی ملیں گے۔ اگر آپ کہیں کالج ، یونیورسٹی یا کسی ادارے میں پنجابی بول دیں تو آپ کو یوں عجیب نظروں سے دیکھا جائے گا کہ جیسے آپ اجڈ، بیوقوف یا اَن پڑھ ہوں۔ آپ کو پنجابی بول کر خود سے ہی شرم محسوس ہونے لگ جائے گی۔
جب ہم لوگ اسکول میں تھے تب پنجابی زبان نصاب کا حصہ ہوا کرتی تھی۔ ہم خود پنجابی پڑھتے بھی رہے، لکھتے بھی رہے اور پنجابی کے امتحان بھی دیتے رہے مگر اب تو پنجابی زبان نصاب کا حصہ بھی نہیں رہی ہے۔ بھارت میں صرف 2.5 فیصد لوگ پنجابی بولتے ہیں اِس کے باوجود بھارتی پنجاب کی صوبائی اسمبلی کی ساری کارروائی پنجابی زبان میں ہوتی ہے، ممبران پنجابی میں اسمبلی میں بحث کرتے ہیں، پنجابی میں قانون پاس کیے جاتے ہیں اور اسپیکر بھی اسمبلی میں پنجابی ہی بولتا ہے ۔ بھارتی پنجاب کے فلم ساز، اداکار، موسیقار اور ماڈل تک پنجابی میں انٹرویوز دیتے ہیں۔ نیوز چینل پنجابی زبان میں ہے۔
مگر پاکستان کا حال آپ کے سامنے ہے ۔ ہمارےہاں کوئی ماڈل ، سنگر یا داکار کسی انٹرویو میں پنجابی بولنے کا سوچ تک نہیں سکتا۔ ہماری پنجاب اسمبلی میں کوئی بل پنجابی زبان میں پیش نہیں ہوسکتا، ہمارا اسپیکر پنجابی زبان میں اسمبلی کی کارروائی نہیں چلا سکتا۔ ہمارے نیشنل لیول کے کتنے نیوز چینل ہیں جو پنجابی زبان میں پروگرام نشر کرتے ہیں۔
دنیا میں کروڑوں لوگ مختلف ممالک میں پنجابی بولتے ہیں جن میں پاکستان اور انڈیا کے علاوہ امریکہ ، آسٹریلیا ، برطانیہ اور کینیڈا تک شامل ہیں ۔ کینیڈا کا قومی ترانہ انگلش کے ساتھ ساتھ پنجابی زبان میں بھی پڑھا جاتا ہے۔ اور ہمارا حال یہ ہے کہ ہم پنجابی زبان کو علاقائی زبان سے زیادہ کا درجہ دینے کو تیار نہیں ہیں۔ اب تو گھروں میں سے بھی پنجابی زبان کو چلتا کیا جارہا ہے۔ ماں باپ خاص اہتمام کرتے ہیں کہ اُن کے بچے پنجابی زبان نہ بول پائیں اور اگر کوئی بچہ پنجابی میں بات کرے تو اُسے باقاعدہ ڈانٹ کر اِس عمل سے روکا جاتا ہے۔ سوائے گھر کے چند بڑوں کے اب کوئی پنجابی نہیں بو لتا۔
کوئی بھی زبان صرف زبان نہیں ہوتی بلکہ اُس کے ساتھ ایک پورا کلچر جڑا ہوتا ہے، لوگوں کے جذبات اُ س زبان اور کلچر میں رچے بسے ہوتے ہیں۔ کسی بھی زبان کے ساتھ صدیوں کا علم اور ادب تحریر کیا ہوا محفوظ ہوتا ہےجو کہ اُس کے کلچر کو بیان کرتا ہے۔ ہم میں سے کسی نے بھی عوام کو یہ سمجھانے کی کوشش نہیں کی پنجابی صرف جگتوں یا بڑھکوں کی زبان نہیں ہے بلکہ پنجابی زبان میں جو صدیوں سے ادب تحریر کیا گیا ہے ویسا ادب بہت کم زبانوں میں ہی تخلیق کیا گیا ہے۔ آج کون ہے جو لوگوں کو سمجھائے کہ بُلھے شاہ اور وارث شاہ کون تھے،امریتا پریتم نے 1947ء کی ہجرت کو پنجابی زبان میں کس خوبصورتی سے بیان کیاتھا، شاہ حسین کون تھا، سُلطان باہو اور خواجہ غلام فرید کیسے کیسے موتی تھے جو لڑھیوں میں پروکر چلے گئے کہ جنہیں آج سمجھنے والوں کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے۔اب کون ہے جو وارث شاہ کی لکھی گئی ہیر میں قاضی اور ہیر کے مکالمے پڑھتا ہے۔ اگر پنجابی زبان ختم ہوئی تو ایک پورا عہد ہے جو ختم ہوجائے گا۔
آج تو حالت یہ ہے کہ 1951ء میں 55 فیصد لوگ پاکستان میں پنجابی بولتے تھے جوکہ آج کم ہوکر 38 فیصد رہ گئے ہیں ۔ آئندہ سالوں میں تعداد مزید کم ہو جائے گی اور شاید کچھ سالوں بعد پنجابی بولنے والے افراد کو ڈھونڈنا مشکل ہوجائے گا۔کاش کوئی حکومتی ادارہ اِس موضوع پر بھی توجہ دیں ورنہ آج کل تو مختلف اداروں میں عام سننے کو ملتا ہے کہ یہاں پنجابی بولنا منع ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں