• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کالے لوگوں کی غلامی کی ابتداء اور مسلمان حبشی غلام۔۔عبدالغفار

کالے لوگوں کی غلامی کی ابتداء اور مسلمان حبشی غلام۔۔عبدالغفار

1492ء میں کولمبس کے  اٹلانٹک اوشن(بحر اوقیانوس) کے گرد سمندری سفر کے ساتھ جب یورپی نو آبادیات کے  نئی دنیا کا دور شروع ہوا، تو امریکہ جو اس وقت یورپ ہی کی ایک کالونی تھی، کے لئے مزدوروں کی اشد ضرورت پیدا ہوئی۔ سن 1500ء کے ابتدائی عشروں میں بڑی سطح پر لاکھوں کی تعداد میں امریکہ کے مقامی لوگوں کو یورپ کی  متعارف کردہ بیماریوں سے ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اس لئے یورپی کولونسٹ نے ایک بہتر حل کی تلاش میں جنوب کی طرف بر اعظم افریقہ اور اس کے کالے باشندوں کی طرف غلام مزدوروں کے لئے قہر آلود نظریں دوڑائیں ۔

انسانی تاریخ کے اس اندوہناک مقصد کی تکمیل کے لئے یورپ کے غلاموں کی تجارت کرنے والے تاجر سینکڑوں کی تعداد میں کالے غلام خریدنے کے لئے افریقہ پہنچے۔ انہوں نے مقامی افریقی بادشاہوں کے ساتھ معاہدے کیے، جن کے مطابق وہ اپنے ہی افریقی لوگوں کو جنگوں میں پکڑ کر ہتھیار کے بدلے ان کو بیچ دینے کے پابند ہونگے، اور وہی ہتھیار مزید کالے لوگوں کو پکڑنے کے لئے استعمال کیے جائیں گے۔ اس تباہ کن چکر نے علاقائی سیاست اور  مغربی اور وسطی افریقہ کی بہت بڑی آبادی کو تباہ کر کے رکھ دیا، جن کے لوگوں کو زور زبردستی انتہائی غیر انسانی حالتوں میں  بحر اوقیانوس سے ہوتے ہوئے نیو ورلڈ میں غلام مزدوروں کے طور پر لایا گیا۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ 1500عیسوی میں افریقہ کے بہت سے  حبشی خِطوں نے اسلام قبول کیا تھا اور امریکہ لے جائے گئے غلاموں کی ایک بہت بڑی تعداد ان حبشی مسلمانوں پر مشتمل تھی۔ ایک اندازے کے مطابق غلاموں کی تجارت کی آڑ میں بیس ملین غلاموں میں سے چھ ملین مسلمان تھے۔ امریکہ میں یورپی کولونسٹ کے سامنے ان غلاموں کی زندگی انتہائی ذلت آمیز اور محکومانہ تھی۔ غلاموں کے ساتھ سلوک کرنے کے لئے کوئی باضابطہ قانون نہ تھا، لہٰذا غلاموں کے مالکان کو کھلی چھوٹ دے دی گئی تھی کہ وہ جیسا چاہے ان کے ساتھ ویسا سلوک کرے، چاہے مارے، گالی گلوچ کرے یا یہاں تک کہ ان کو قتل کردیں، ان غلاموں کے بارے میں مالک سے پوچھنے والا کوئی نہ تھا۔

ان غلاموں سے انتہائی سخت اور بہت زیادہ کام لیا جاتا تھا۔ مالک کی توقعات پر اگر کوئی غلام تھوڑا سا بھی پورا نہ اترتا، تو اس کو کوڑے رسید کرنا ایک عام سزا تھی۔ ان کو مکمل ننگا کرکے کام کرنے اور رہنے پر مجبور کیا جاتا یہاں تک کہ عورتوں کو بھی ایک رومال تک نہ دیتے تاکہ خود کو ڈھانپ سکے۔

اگرچہ سب غلاموں کو مالکان انتہائی اذیت دیتے، مسلمان غلام تو مزید اذیت سے دوچار کیے جاتے۔ حج کرنا تو دور ان کو پانچ وقت کی نماز پڑھنے کے لئے وقت درکار نہ تھا۔ اسلام سیکھنے کا کوئی راستہ نہ تھا۔ جن مسلمان غلاموں نے پہلے سے قرآن حفظ کیا تھا وہ قرآن دہرانے کے کچھ حد تک قابل تھے، اور اپنے دوسرے مسلمان غلام بھائیوں کو تھوڑا بہت سکھاتے، اور کوئی ادارے نہ ہونے کے باعث اسلامی روایات کی بقا  مشکل تھی۔ اس لئے جب نسلیں سولہویں صدی سے انیسویں صدی تک پہنچیں ، تو اسلامی تعلیمات دھیرے دھیرے مسلم غلاموں اور ان کے بچوں میں کم ہوتی گئی۔ یورپ سے قرآن کے نسخے منگوانے کے لئے ان کو مزید اضافی کام کرنا پڑتا، جس کی وجہ سے اسلامی تعلیم مزید زبوں حالی کا شکار ہوئی ۔

سن 1800ء میں ریو ڈی جنیرو، برازیل سے قرآن منگوانے کا مسلمان غلاموں کی طرف سے اتنی  ڈیمانڈ تھی  کہ ایک بک سیلر سال میں قرآن مجید کے صرف سو نسخے غلاموں کو بیچنے کے لئے درآمد کرتا، جن کی ادائیگی کے لئے غلاموں کو سالوں تک اضافی کام کرنا پڑتا۔

ان مشکلات کے پیش نظر 1800 عیسوی کے وسط میں امریکہ میں تقریباً کوئی ایسا مسلمان نہ رہا جو اسلام کی تعلیمات کو پوری طرح سمجھ سکتا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

گوروں کا ماننا تھا کہ کالے لوگ نسلی اعتبار سے ان سے کمتر ہیں، لہٰذا ان کو غلامی جیسے ایک ادارے کی ضرورت ہے جہاں ان کو نظم و ضبط سکھایا جا سکے۔
چہار صدیوں تک اذیتیں اور صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد اور بہت سی بغاوتیں اور اپنی غلامی سے نجات پانے کے لئے بہت سی جنگیں لڑنے کے بعد، آخر کار 1863ء میں کالے لوگ غلامی سے چھٹکارا پانے میں کامیاب تو ہوئے، لیکن اب تک اپنی بقاء اور گوروں کے  معاشرے میں مساوی حقوق حاصل کرنے کی جنگ میں برسر پیکار ہیں۔ جن کو اب تک کہیں نہ کہیں نسل پرستی کا نشانہ ضرور بنایا جاتا ہے۔

Facebook Comments

Abdul Ghaffar
پیشہ کے اعتبار سے خاکسار ایک کیمکل انجنیئر ہے اور تعلق خیبر پختونخوا کے شہر نوشہرہ سے ہے ۔ بچپن ہی سے لکھنے پڑھنے کا شوقین تھا اور ایک اچھا رائیٹر بننا چاہا۔ آج کل مختلف ویب سائٹ کے لئے آرٹیکل لکھتا ہوں ۔تاکہ معاشرے کی بہتری میں اپنی طرف سے کچھ حصہ ڈال سکوں۔ شکریہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply