• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ریاست کو مذہبی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے؟۔۔صائمہ جعفری

ریاست کو مذہبی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے؟۔۔صائمہ جعفری

جنوبی ایشیاء میں مذہبی شناخت کتنی اہم ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ برصغیر پاک و ہند کا بٹوارہ ہی مذہبی بنیادوں پر طے پایا اور تقسیم کے وقت انہی مذہبی بنیادوں پر ہونے والے فسادات میں کتنے ہی مسلمان، ہندو اور سکھ لقمہ اجل بن گئے۔

قیام پاکستان کے بعد مذہب کو ریاست کا معمار قرار دیا گیا، حالانکہ یہ بات اب واضح ہے کہ قائد اعظم، نہرو اور گاندھی کے ذہنوں میں ریاست کا ایک سیکولر خاکہ تھا نہ کہ مذہبی۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سیکولرازم آخر ہے کیا؟
دراصل سیکولرازم ایک ایسا ریاستی نظام ہے جس کی بنیاد سائنس و عقلیت پر ہوتی ہے نہ کہ مذہب پر، کسی بھی ترقی یافتہ اور روشن خیال معاشرے میں سیکولرازم ایک کلیدی حیثیت رکھتا ہے، کیونکہ یہ نظریہ شخصی آزادی، عقل اور دلیل کی بنیاد پر معاشرے اور ریاست کا نظام چلانے کی ترغیب دیتا ہے۔

ہمارے ہاں عمومی طور پر سیکولرازم کو اخلاقی اقدار کے منافی قرار دیا جاتا ہے، جس کی وجہ محض اس نظریے سے لاعلمی ہے، یہ نظریہ نہ تو اخلاقی اقدار کے منافی ہے اور نہ ہی مذہبی تعلیمات کے، بلکہ یہ نظریہ ہر نظریے اور مذہب کا احترام کرتے ہوئے معاشرے میں مذہبی رواداری اور بین المذاہب ہم آہنگی پیدا کرنے کی ترغیب دیتا اور فکری آزادی پہ یقین رکھتا ہے۔

ہم جیسے تیسری دنیا کے ممالک جہاں زبان بندی دستور ہے اور سوال پوچھنا جرم عظیم قرار پاتا ہے، وہاں سیکولرازم کو منفی طور پہ پیش کیا جاتا ہے کہ لوگوں کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو مفلوج کردیا جائے۔

سیکولرازم کے پیچھے جو روشن خیالی کارفرما ہے اس کی تاریخ بہت پرانی ہے۔

یونان وہ پہلا ملک تھا جہاں مختلف بت پوجے جاتے تھے لیکن ریاستی نظام سیکولرازم کی بنیاد پر قائم تھا، یونان کے بعد روم میں مذہبی پروہتوں کے خلاف بڑے پیمانے پر عوامی بغاوت ہوئی جس کے نتیجے میں ریاستی امور میں سے مذہبی پروہتوں کی اجاداری کا خاتمہ بتدریج مکمل ہوا اور بالآخر ایک سیکولر حکومت کی بنیاد رکھی گئی۔

یہ ایک تاریخی امر ہے کہ مذہبی پیشواؤں کو اقتدار سے ایک خاص رغبت رہی ہے، عیسائیت کے ساتھ ہی کلیسا کی حکمرانی کا دور شروع ہوا جو کہ بازنطینی اور مغربی ریاستوں تک پھیلتا چلا گیا، صلیبی جنگوں کی بھی ایک بڑی وجہ ریاستی امور میں کلیسا کی مداخلت تھی۔

صلیبی جنگوں کی وجہ سے اٹلی صنعت و تجارت کا مرکز مشہور ہوگیا جو کہ مذہبی سرگرمیوں کا مرکز تھا اور پھر یہیں سے سیکولر خیالات کا آغاز ہوا، تیرہویں صدی عیسوی کے آس پاس سیکولر ازم کی ابتداء اٹلی سے ہی ہوئی اور پھر اس نے بتدریج پورے یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

یورپ میں سیکولر درسگاہوں کا قیام اور چودہویں صدی میں قومی ریاستوں یعنی National States کا وجود میں آنا کلیسا کے زوال کا سبب بنا۔

مغرب میں سیاست اور مذہب کو جدا کرنے میں کئی دیگر عوامل کا بھی کردار رہا، جیسا کہ ہنری ہشتم کا کلیسا سے ٹکراؤ، مارٹن لوتھر کنگ کے انقلابی نظریات اور یورپ میں پوپ کے خلاف بغاوت۔

یہ وہ دور تھا جب دنیا تیزی سے بدل رہی تھی، امریکہ کی دریافت نے بھی سیکولر سوچ کو نئی راہ دکھائی اور یوں سترہویں صدی کو روشن خیالی کے عروج کا دور کہا جا سکتا ہے۔

اٹھارویں صدی میں صنعتی انقلاب نے روشن خیالی کو مزید جلا بخشی، روسو، والنٹیئر ، کانت کے خیالات و افکار نے عوام کے ذہنوں میں انقلاب برپا کردیا، امریکہ اور فرانس میں انقلابی تحریکوں نے زور پکڑا، یوں کہا جاسکتا ہے کہ عوامی انقلابی جدوجہد اور سیکولرازم کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔

امریکہ کی تحریک آزادی کے پس منظر میں تھامس جیفرسن اور جیمس میڈیسن کے انقلابی اور روشن خیالات و نظریات ہی تھے جنہوں نے امریکہ کو دنیا کا پہلا باضابطہ سیکولر آئین دیا جو 1989 میں منظور کیا گیا۔

امریکی آئین کی سب سے بڑی کامیابی وہ پہلی آئینی ترمیم ہے جس کے تحت ریاست مذہب کے قیام یا آزادی کے معاملات میں کوئی مداخلت نہیں کرے گی نہ ہی ان پہ پابندی کا کوئی قانون پاس کرے گی، یوں امریکہ نے ریاست اور مذہب کو ایک دوسرے سے بالکل الگ کردیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

آج پاکستان کے پڑھے لکھے باشعور طبقے سے یہ آوازیں سنائی دیتی ہیں کہ ریاست کو مذہبی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے اور اس خواہش کے پیچھے کوئی غیر مذہبی ریاست بنانے کا کوئی خفیہ ایجنڈا نہیں بلکہ صرف یہ مطالبہ ہے کہ ریاست میں تمام مذاہب کے پیروکاروں کو آزادی سے اپنے مذہبی عقائد پہ عمل پیرا ہونے کا حق حاصل ہو اور وہ بلا خوف و خطر کے اپنی زندگی اپنے عقائد کے مطابق گزاریں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply