CPEC اور باہر والے انکل

اگر آپ نوے کی دہائی میں کسی متوسط طبقے کے خاندان میں پلے بڑھے اور جوان ہوئے ہیں تو آپ میں سے اکثر لوگوں کو وہ مناظر یاد ہوں گے جب ستر یا اسی کی دہائی میں گلف، یورپ یا امریکہ جا کر سیٹل ہوجانے والے انکل پانچ یا دس سال بعد چند دنوں کی چھٹیوں پر اپنے گھر تشریف لاتے تو پورے خاندان میں جیسے ہلچل سی پھیل جاتی تھی۔ سب لوگ انہیں فون کرکے خوش آمدید کہتے اور خیریت دریافت کرتے تھے۔ پھر وقت کی کمی کے باعث انہی کے گھر پر پورے خاندان کی دعوت کا اہتمام کیا جاتا۔ جس کی سب سے خاص بات یہ تجسس ہوا کرتا تھا کہ موصوف ہر کس و ناکس کے لیے کیا تحائف لے کر آئے ہیں۔ عمومی طور پر وہ ایک بڑے بیگ کے پاس تشریف فرما ہوتے تھے جس کی زپ کھول کر وہ ہر ملاقاتی کو چند ڈبے پیش کرتے۔ پھر اگلے کئی دن تک بچے رنگین پنسلوں کی ڈبیا اپنے ہم جماعتوں کو دکھا کر معصوم سے فخر سے بتاتے تھے کہ یہ ہمارے "باہر" والے انکل لے کر آئے ہیں اور انہوں نے ہمارے ابو کو پرفیوم اور امی کو پرس بھی دیا ہے۔ وہ الگ بات کہ جلد ہی ایک طرف ہمارے ملک کی معیشت ماشاءاللہ اتنی ترقی کر گئی کہ گھر کا ہر دوسرا فرد باہر چلا گیا اور فری ٹریڈ کی بوتل سے وہ جن برآمد ہوا کہ دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک ہر منڈی پر چین ہی چین کا سایہ ہوگیا۔ یوں ہمارے معاشرے میں باہر والے انکل کا چارم خاصی حد تک کم ہو گیا۔

سبب اس یادآوری کا ایک تصویر بنی جس میں پاکستان کے تمام وزرائے اعلی وفاقی وزیر احسن اقبال کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر کھڑے تھے اور سب کے چہروں سے مسرت پھوٹ رہی تھی۔ اللہ یہ اتحاد و یگانگت اور خوشی قائم رکھے۔ بہرحال یہ تصویر بیجنگ میں لی گئی تھی جس میں سب بچے اکٹھے ہو کر اپنے ابو کے ساتھ باہر والے انکل کے گھر گئے تھے۔ اور شکایت بھی لگائی تھی کہ انکل پچھلی مرتبہ آپ جو چیزیں دے کر گئے تھے وہ ابو نے ساری کی ساری بڑے بھائی کو دے دی تھیں۔ جس پر باہر والے انکل نے سب کو پیار سے پچکارا اور بڑے بیگ کی زپ کھول کر ہر بچے کو اس کے حسب خواہش کھلونے دیئے۔ یوں یہ خاندانی قضیہ ختم کروایا اور بعد میں امپورٹڈ کیمرے سے اس ہنستے مسکراتے خاندان کی ایک تصویر بھی بنا لی کہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

گوادر کو آپریشنل کرنے اور سی پیک کے اعلان کے بعد پورے ملک میں تھرتھلی مچی ہوئی ہے کیونکہ باہر والے انکل نے اعلان کر دیا ہے کہ اب آپ کا گھر بھی ہمارا ہی گھر ہے اور بچے اتنے امیر مکین کی شمولیت پر خوشی سے پھولے نہیں سما رہے۔ کوئی انکل کی شرٹ سے لٹک کر کہہ رہا ہے کہ انکل میرے بیڈ روم میں آڈیو سسٹم لگوا دیں اور کوئی انکل کا منہ پکڑے دہائی دے رہا ہے کہ انکل مجھے دیواروں کے رنگ سے سے میچ کرتے ریشمی پردے لگوانے ہیں۔ اور انکل کمال شفقت سے مسکراتے ہوئے سب کی خواہشات پوری کر رہے ہیں۔ اباجی پرانے کھاتے کھول کر دیکھ رہے ہیں کہ کس کس دکاندار کا کتنا ادھار واپس کرنا بلکہ منہ پہ مارنا ہے۔ زندگی میں پہلی بار انہیں مالی اعتبار سے اس قدر آسودگی محسوس ہو رہی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اس بار عید پہ دادا جی کی قبر پہ مٹی اور پھولوں کی چادر بھی باہر والے انکل نے ہی چڑھائی ہے کیونکہ اگر دادا جی کا گھر اب انکل ہی کا گھر ہے تو دادا جی بھی تو انکل ہی کے ہو گئے ہیں۔ گھر میں روز روز نت نیا سامان آرہا ہے اور ساتھ کی دیوار والا خبطی ہمسایہ جل بھن کر کباب ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن عقلمند گلی والے بڑی دلچسپی سے اس آمدورفت کا جائزہ لے رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے بڑوں سے سن رکھا ہے کہ چند نسلیں پہلے بھی ایک بڑے میاں کھلونوں سے لدے پھدے اس مکان میں وارد ہوئے تھے اور ایسی چوکڑی جما کر بیٹھ گئے تھے کہ نکالے نہیں نکلتے تھے اور آخرکار خاصی لے دے اور سرپھٹول کے بعد قضیہ نمٹا تھا۔ اب دیکھتے ہیں کہ باہر والے انکل کی اس بھاری سرمایہ کاری کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔

Facebook Comments

احسان الحق
خواب دیکھتے ہیں اور اسے حقیقت میں ڈھالنے کے لیے کوشاں ہیں۔ ایسی فصل گل کے منتظر و متمنی ہیں جسے اندیشئہ زوال نہ ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply