مزدک/انور مختار(2،آخری حصّہ)

مشتاق علی شان صاحب “مکالمہ بلاگ” پر ایک آرٹیکل میں مزدک کے بارے میں لکھتے ہیں کہ
یہ 528ءعیسوی کا کوئی دن ہے ۔ایران کے ساسانی فرماں رواں قباد کا دربار لگا ہوا ہے اور شہنشاہِ معظم تخت پر جلوہ افروز ہے ۔ایک طرف شاہ کا جانشین نوشیرواں ہے جو دو سال بعد اسی تخت پر متمکن ہو گا اور ظلم و بربریت کی داستانوں میں مزید اضافہ کرتے ہوئے تاریخ میں ’’نوشیرواں عادل‘‘ کہلانے کا حق دار ٹھہرے گا ۔ دوسری جانب اس عہد کے جاگیردارانہ نظام کی نمائندگی کرنے والے امرائے دربار ہیں جن کی مسرت چھپائے نہیں چھپ رہی کہ آج کا دن ان کے لیے ایک بڑی مصیبت سے نجات کا دن ہے ۔ ان سب کے مقابل ایک طرف زرتشتی علماء ،آٹھ آتش کدوں کے مہان پجاری اور مسیحیوں کا لاٹ پادری بازانیس ہیں تو دوسری جانب اس عہد کا ایک دانا ،مفکر اور عظیم مساعی پسند اپنے رفقا کے ساتھ کھڑا ہے ۔ اس انقلابی پر اتہام واردہے کہ وہ کفر اور الحاد کا نمائندہ ہے ، اس کی تعلیمات نے ایرانی سماج کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیاہے اور غریب و مفلس انسان جن کی کوئی حیثیت اور وقعت نہیں آج بغاوت پر اتر آئے ہیں سو آج مناظرے میں اس کا فیصلہ ہو گا کہ کو ن راستی پر اور کون گمراہ ہے۔ انقلابی کے جرائم کی ایک طویل فہرست ہے وہ کہتا ہے کہ خدا نے دھرتی پر زندگی کے وسائل اس لیے پیدا کیے ہیں کہ سب انسان اس سے برابر مستفید ہوں اور کسی کو کسی سے زیادہ حصہ نہ ملے ۔ وہ انسانوں میں پیدا ہونے والی تقسیم کو طاقت ور لوگوں کے جبر اور تشدد کا نتیجہ قرار دیتا ہے جس کی بنیاد دوسروں کا حصہ چھین کر اپنی خواہشات کی تکمیل کرنا ہے ۔وہ سماج میں غیر منصفانہ تقسیم اور ظلم و بربریت کے لیے اس امر کو لازمی قرار دیتا ہے کہ امیروں کی دولت چھین کر غریبوں میں تقسیم کر دی جائے تاکہ شروع میں انسانوں کے درمیان جو مساوات تھی اسے دوبارہ قائم کر دیا جائے۔

ایران کے الم نصیب محنت کار اور دہقان جوق در جوق اس کی انجمن میں شامل ہو تے ہیں یہاں تک کہ شاہ قباد بھی اس کی تعلیمات سے متاثر ہوکر اس کی عزت افزائی کرتا ہے مگر جاگیر داروں کے نمائندے امراء اور زرتشتی عالم اس شخص کی تعلیمات کو اپنے لیے پیامِ مرگ سمجھتے ہیں شاہی دربار سے لیکر معبدوں تک میں سازشوں کے تانے بانے بُنے جاتے ہیں قباد عارضی طور پر تخت و تاج سے محروم کر دیا جاتا ہے اور دوبارہ اس شرط پر واپس آتا ہے کہ اس ’’فتنے‘‘ کا سر کچلا جا سکے ۔سو یہ دربار اسی لیے آراستہ کیا گیا ہے جس میں امراء اور پجاریوں کا چہیتا اور قباد کا جانشین نوشیرواں پیش پیش ہے۔فیصلہ تو پہلے ہی ہو چکا ہے سو اسے قابلِ گردن زدنی قرار دیتے ہوئے ساتھیوں سمیت زندہ دفن کر دیا جاتا ہے۔ قباد،نوشیرواں، امرائے دربار ، جاگیروں کے مالک اور ان کی ہر ناانصافی اور لوٹ کھسوٹ کومذہبی جواز فراہم کرنے والے زرتشتی علماء فاتح ٹھہرتے ہیں ۔ایران کا یہ جلیل القدر انقلابی اور دانائے روزگار جسے ہم” مزدک” کے نام سے جانتے ہیں، دھرتی پر انسانوں کے ایک جیسے اختیار اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کی پاداش میں زینتِ دار بنایا گیا ۔ اپنا تخت و تاج بچانے والے قباد نے اگر جاگیر داروں اور پجاریوں کے طبقاتی مفادات کے حضور مزدک اور اس کے رفقاء کا ذبیحہ پیش کیاتو اس کے جانشین اور انصاف کے قاتل حکمران ’’نوشیرواں عادل‘‘نے اس کے ہزاروں پیرؤں کو تہہ تیغ کرنے اور اس کی تعلیمات پر مشتمل کتابوں اور تحریروں کو آتش کدوں میں روشن ’’مقدس آگ‘‘ کی نذر کرنے میں زرا بھی تساہل نہیں برتا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ سب ایران میں کوئی پہلی بار نہیں ہو ا بلکہ اس سے کوئی 252ءسال قبل اسی ایران میں شاہ بہرام نے بھی اس عہد کے ایک انقلابی مانی کے خلاف اسی طرح کا منظرے کا اہتمام کیا تھا ور پھر اس کی کھال کھینچوائی تھی اوراس کا سر قلم کر کے فصیلِ شہر پر لٹکا دیا تھا ۔ سو قباد اور نوشیرواں کے بعد کے ایرانی حکمران ہوں یا عرب ۔۔سب نے اس آزمودہ نسخے کو خوب آزمایا ۔انہوں نے ’’مزدک‘‘ اور ’’مزدکیت‘‘ کے لفظوں کو کفر اور گم راہی کے ہم معنی بنادیا اور ہر اس انقلابی اور تحریک کو یہی کہہ کر مطعون کیا گیا جو ان کے طبقاتی مفادات کے خلاف سینہ سپر تھا ۔ظلمات کی قوتوں نے اپنے تئیں مزدک اور اس کی تعلیمات کو نہ صرف نیست و نابود کر دیا بلکہ تاریخ سے اس کا نام تک کھرچ ڈالا مگر تمام تر جبر واستبداد کے باوجود مزدک زندہ وپائندہ رہا اور اس کی تعلیمات کا سرخ سورج تاریکیوں پر خندہ زن رہا ۔مزدک کا شمار نوعِ انسانی کے ان محسنوں میں ہوتا ہے جنہوں نے دنیا کے مختلف حصوں میں مساوات کا پرچم بلند کیا اور اپنے اپنے عہد کے حالات و تقاضوں کے مطابق اس کے لیے جدوجہد کی ۔آج 15صدیوں بعد جب ہم مزدک کی تحریک اور تعلیمات( جس حد تک بھی دستیاب ہیں)کا جائزہ لیتے ہیں تو اس میں ہمیں بہت سی چیزیں عجیب بلکہ کافی حد تک مابعد الطبعیاتی رنگ کی حامل لگتی ہیں،مگر مزدک کے نظریات کو جانچنے اور اس کا تجزیہ کرنے کے لیے اس کی کوئی تحریر موجود نہیں ہے جس کی بنیاد پر اس کی بنیادوں کا پتہ چلایا جا سکے ۔اس کے جو بھی افکار ہم تک پہنچے ان کا مآخذ اس کے بدترین مخالفین کی تحریریں ہی ہیں۔کہا جاتا ہے کہ آٹھویں صدی عیسوی میں مقنع نے مزدک کی کتاب’’مزدک نامگ‘‘ کا عربی زبان میں ترجمہ کیا تھا مگر یہ بھی دستیاب نہیں ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply