عشقیہ داستانیں اور ہماری اجتماعی غیرت ۔رانا اورنگزیب

محبت اور نفرت دو فطری جذبے ہیں اور ہر ذی روح میں بدرجہ اتم موجزن رہتے ہیں۔دونوں جذبے بہت ہی طاقتور ہیں۔محبت میں بھی انسان ہر حد پھلانگ جاتا ہے اور نفرت میں بھی انسان جان سے گزر جاتا ہے۔محبت رب کا ودیعت کردہ تحفہ ہے جو دلوں میں اگتا اور پروان چڑھتا ہے۔دنیا میں سب سے زیادہ اور سب سے بڑی محبت ایک ماں کی اپنے بچوں کے لئے ہوتی ہے۔بچوں کی  محبت ممولے کو شہباز سے لڑا سکتی ہے چڑیا کو سانپ سے۔ماں کی محبت کی ہزاروں مثالیں بیان کی جا سکتی ہیں اور سنائی ، سمجھائی  جا سکتی ہیں۔اولاد کی محبت جانوروں، چرند، پرند حتیٰ کہ درندوں میں بھی اتنی ہی شدت سے پائی  جاسکتی ہے جتنی کہ انسانوں میں۔انسان کو اشرف المخلوقات ہونے کے ناطے بچوں کے علاوہ بھی محبت الفت اور پیار کی صفت ملی ہے۔جس میں بہن بھائیوں کی محبت، دوست احباب کی محبت، میاں بیوی کی محبت ،بطور مسلمان ہمیں اللہ خالق کائنات کی طرف سے محبت کا درس دیا گیا ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے
فَأَلَّفَ بَیْنَ قُلُوبِکُمْ۔آل عمران:103
”اس اللہ نے تمہارے دلوں میں محبت ڈال دی”
اس کی تاکیدنبی مکرم محمدﷺ نے بھی ان الفاظ میں فرمائی۔
تَہَادُوْا تَحَابُّوا۔مؤطأ :1413
”آپس میں تحفے تحائف دو اور محبت کرو۔
مگر عرف عام میں بس ایک ہی محبت معروف ہے وہ ہے لڑکی اور لڑکے کی محبت کہ جس کو محبت کہنا محبت لفظ اور جذبے دونوں کی توہین ہے۔یہ محبت نہیں ہوس ہے۔اور ہوس کو محبت کا نام دے کر اپنا اپنا الو سیدھا کرنے والے کبھی محب اور محبوب نہیں ہو سکتے نہ ہی اس محبت کا ہمیں رب کی طرف سے حکم ملا۔
 
دنیا سائنس پڑھتی رہی ہم عشق کی داستانیں گھڑتے رہے۔ہماری تہذیب وثقافت میں کہیں دور دور بھی عشق و عاشقی کا گزر نہ تھا۔زندگی کے معاملات میں سے ایک اہم مسئلہ” محبت ”کی طرز نوعیت ہے جسے ہم عرف عام میں پیار یا Loveکے نام سے یاد کرتے ہیں ۔ عموماً جب ہم پیار ،محبت یا Loveکا ذکر کرتے ہیں تو ان پڑھ جاہل بلکہ کچھ متوسط طبقہ کے پڑھے لکھے لوگ بھی اسے ایک دنیاوی اور عام معاشرتی عمل سمجھتے ہیں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ روز مرہ کے میڈیا (الیکڑونک اور پرنٹ میڈیا )سے متاثر ہوتے ہیں ۔وہ یہ تصور کرتے ہیں کہ اس بے حیائی یعنی پیارکا تعلق اسلام سے نہیں ہو سکتا بلاشبہ وہ اپنے مو قف میں ایک غیر قصداً غلطی کے ساتھ درست ہیں ۔
غلطی یہ ہے کہ ہے وہ بھی دیکھا دیکھی اس بے راہ روی کو پیار اور محبت کے نام سے موسوم کرتے ہیں ۔جس کا قطعی طور پرحقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ کیونکہ محبت ایک فطر ی عمل ہے اور اسلام فطرت کا ترجمان ہے ،اس لحاظ سے محبت کا اسلام سے گہرا تعلق ہے ۔جہاں اسلام دوسر ے اعمال کا حکم دیتا ہے اور ہمیں چار وناچار ان اعمال پر کاربند رہنا پڑتا ہے ۔اسی طرح اسلام فطرت کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمیں محبت کا حکم بھی دیتاہے جو اللہ نے ہمارے دلوں میں القا ء کی ہے لہٰذا یہ فطری عمل ہونے کے ساتھ اسلام کا مطالبہ بھی ہے ۔
علاوہ ازیں اسلام ہمیں محبت کرنے اور اس کو ترقی دینے کے ایسے مواقع بھی فراہم کرتا ہے جن پر عمل پیرا ہو کر آپس میں محبت بڑھتی ہے ۔جیسے اخوت ،بھائی چارہ ،ایثار وقربانی۔ اب ایک ایسا حکم جو اسلام نے دیا ہوجس کے نتائج بھی خوش کن ہوں اور اس کے ذریعے راحت ،سکون اور نرمی کی فضا قائم ہو ،کیا اس کی وجہ سے بے حیا ئی پھیل سکتی ہے ؟
بالکل نہیں ! تو ہمیں اس فحاشی کو محبت کا نا م دینے سے گریز کرنا چاہیے ۔کیونکہ اگر ہم ایسا کرتے ہیں (یعنی اس عمل کو محبت یا پیا ر کا نام دیتے ہیں )تو اس کی وجہ سے اسلام کے دامن پر بے حیا ئی پھیلانے کا دھبہ لگتا ہے جبکہ قرآن تو کہتا ہے ۔
إِنَّ اللَّہَ لَا یَأْمُرُ بِالْفَحْشَاء ِ۔الاعراف :28
”بلاشبہ اللہ تعالیٰ فحاشی کا حکم نہیں دیتے”
“اور فحاشی کا حکم دینا شیطان کا کام ہے “۔ البقرہ:169النور:21
اب ہم اس بات کی طرف آتے ہیں کہ ایسا کس نے اور کیوں کیا ؟تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ تما م کہانی دشمنانِ اسلام نے اسلام کو بدنام کرنے کے لیے رچائی ہے اور نوجوان نسل کی نفسیات کو سمجھتے ہوئے ایسے ذرائع استعمال کیے جن کی مدد سے ان کے ذہنوں  میں محبت نام ہی اس چیز کا رکھ دیا جس میں لڑکی اور لڑکا ہو اور بس !باقی جو کچھ ہے وہ دائرہ ء  محبت سے خارج ہے ۔یہ سب کچھ ایسے ہی نہیں ہو رہا بلکہ اس سارے عمل کے پیچھے ایک خاص مقصد ہے جس کوتفریح کے نام پر محبت کی آڑ میں خاص منصوبے کے تحت سر انجام دیا جارہا ہے ۔
اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ آج سے پندرہ بیس برس پہلے ریلیز ہونے والی فلمیں، ڈرامے اور پرگراموں کے علاوہ اخباروں میں آنے والے فلم ایکٹرز وغیرہ کی تصویریں کس حد تک قابل اعترا ض تھیں اور آج ان کی کیا حالت ہے؟ آپ بازاروں ،اخباروں یا سینما گھروں میں دیکھ سکتے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے اس گھناؤنے مقصد کی تکمیل کے لیے مذہب کا سہارا لینے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ اس بے حیائی  کو عام لوگوں کے ساتھ ساتھ کم علم مذہبی لوگوں کی حمایت بھی حاصل ہوجائے ۔
مثال کے طور پر یہ ڈائیلاگ ”محبت عبادت ،محبت ہے پوجا” محبت اور عشق: عام طور پر ان الفاظ کے معنوں اور استعمال میں فرق نہیں کیا جاتا جو مناسب نہیں ہے کیونکہ عشق اور محبت دونوں عربی زبان کے لفظ ہیں اور الگ الگ معنی رکھتے ہی ن۔”المنجد:654,449″
محبت ایک پاکیزہ جذبہ ہے جو انسان کے خیا لات کو پاکیزگی بخشنے کے علاوہ اس کے اندر احساس پیدا کر کے مہذب اور شائستہ بناتی ہے۔ جبکہ عشق میں حد سے زیادہ زیادتی اور بے حیائی کا میلان پایا جاتا ہے۔اسی لیے عشق کو انگریزی زبان میں (Sexual Love)بھی کہا جاتا ہے۔ اس بات کی تصدیق ایک شاعر یوں کرتا ہے:
ہم نے کیا کیا نہ کیا تیرے عشق میں محبوب
صبرایوب کیا گریہ یعقوب کیا۔
​ کیا اس شعر میں انبیاء کی توہیں کا پہلو نہیں جھلکتا؟ ایسے شعروں کے بارے میں ہی اللہ کے نبی ﷺنے فرمایا کہ:
” انسان کے پیٹ کا پیپ سے بھرجانا شعر کے بھر جانے سے بہتر ہے”تفسیر ابن کثیر
دونوں لفظ (عشق اور محبت )عر بی میں مستعمل ہونے کے باوجود محبت اور پیار کے لیے قرآن وحدیث میں صرف محبت لفظ استعمال ہوا ہے کیونکہ عشق میں جنونی حد تک محبت کی زیادتی پائی جاتی ہے بے شک وہ فسق کی بجائے پارسائی میں بھی ہوسکتی ہے لیکن کسی معاملے میں بھی حد سے گزرناجائز نہیں حتی کہ اللہ کی عبادت میں بھی توازن اور اعتدال کا حکم ہے۔
مسلمانوں کی تاریخ میں کہیں بھی لیلیٰ مجنوں ،ہیر رانجھا، سسی پنوں ،سوہنی مہیوال جیسے کردار نہیں      ملتے۔بلکہ اسلام نے تو کہیں بھی لڑکی اور لڑکے کے معاشقوں کی حوصلہ افزائی نہیں کی۔اسلام دین فطرت ہے۔اور فطرت یہ ہے کہ ہر انسان کی عزت محفوظ رہے۔ہر انسان گناہوں سے محفوظ رہے اسلام جس نے اکیلی عورت کو سفر کرنے سے منع کردیا۔بہن بھائی  کو تنہائی میں ایک کمرے میں سونے سے روک دیا۔نکاح کرنے کے لۓ عورت کی رضامندی لازم کردی۔عورت کو پردہ کرنے کا حکم دے دیا۔بھلا وہاں ان عشقیہ داستانوں کا گزر کیسے ممکن تھا۔
مگر پھر اسلام کے متوازی تصوف کی اصطلاح متعارف کروائی  گئی۔عشق وعاشقی کو تصوف کے ریشمی غلاف میں لپیٹ کے مسلمانوں میں تقسیم کیا گیا۔عبادت میں خشوع وخضوع کی جگہ عشق مجازی کو لایا گیا۔پرہیزگار متقی اور اہل علم لوگوں کو مطعون کیا گیا۔اسلام کی روح کے منافی ظاہری وباطنی علوم کا پرچار کیا گیا۔اللہ جو رب العالمین ہے جو خالق ہے جس نے اپنے کلام میں کہیں بھی عشق کا لفظ استعمال نہیں کیا اس کو عشق کا محور ومرکز بنا کے اس تک پہنچنے کے لئے بہت سی بے سروپا باتیں پھیلائی  گئیں  اور ان کو شدت سے اسلام کے بنیادی ارکان کےمقابل استوار کیا گیا۔؎
کتنے ہی درویشوں کے قصے ملتے ہیں کہ وہ لڑکوں کے عشق میں مبتلا ہوۓ۔اپنی ذاتی لذت وہوس کو تصوف کے پردوں میں پورا کرتے رہے اور عوام کو گمراہ کرنے کے لئے نت نئے افسانے تراشتے رہے۔پھر کہیں شیریں وفرہاد کے قصے بنے گئے تو کہیں ہیر رانجھا کو ولایت کے اونچے درجے دیتے پھرے۔ایک باپ کی عزت کی دھجیاں بکھیرتی بیٹی کے انتہائی گھٹیا عمل کو گا گا کے مقبول عام کی سند عطا کی گئی۔ مجھے آج تک یہ بات سمجھ نہیں آئی  کہ سیدے کھیڑے کی منکوحہ ہیر کا رانجھے کے ساتھ بھاگنا کس معاشرے کی کون سی قدر کے مطابق درست تھا۔اور شادی شدہ سوہنی کا مہیوال کے ساتھ معاشقہ دنیا کے کس مذہب یا معاشرے کی اخلاقی اقدار کے مطابق درست مان لیا گیا۔فرہاد نے پہاڑیوں کو کاٹ کے جو نہر بنائی  وہ عوام الناس کے لیے کون سے فوائد لیے ہوۓ تھی، قیس یعنی مجنوں کی خاک نوردی سے مسلم معاشرے نے کون سی ترقی کی معراج پائی ؟
تصوف کے علمبردار جتنے بھی لوگ گزرے ہیں ان کا ایک عمل جو معاشرے یا ملک وقوم کے اجتماعی مفاد میں ہو؟ ہمارے قوال ہوں یا گلوکار سب نے ایک ہی درس دیا کہ عورت کو پیار کرو اور گھر سے بھگا کے شادی کرو یہی ترقی کا راز ہے۔اس کے بعد فلم اور ٹی وی کا دور آیا تو آج تک کوئی  ایک ڈرامہ کوئی  ایک فلم ایسی دکھا دیں جس میں لڑکی اور لڑکے کا عشق نہ ہو اور اس عشق کی مخالفت اس کے گھر والے نہ کر رہے ہوں ،باپ سے بغاوت کرکے شادی کرنا ہی تقریباً  نوے فیصد ڈراموں اور فلموں کا سبق ہے۔
ہمارے ادیب جاسوسی ادب لکھیں یا معاشرتی مگر اس میں ایک خوابوں کی شہزادی ضرور ہوتی ہے۔اس کے باپ کو ہمیشہ اولاد کی خوشیوں کا دشمن ثابت کیا جاتا ہے اور فلم ہو یا ڈرامہ کہانی ہو یا ناول ہرجگہ کہانی کا اختتام پیار کی جیت اور والدین کی شکست پر ہوتا ہے۔اب تو ہمارے تعلیمی اداروں میں ثقافت کے نام پر نامور اساتذہ کی نگرانی میں نوجوان نسل کو پیار کرنا سکھایا جاتا ہے ناچ گانا گھر سے بھاگنا شادی سے پہلے جنسی تعلق اور طلاق کے بعد ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کو ایسے دکھایا جا رہا ہے جیسے یہ کوئی  برائی  نہ ہو بلکہ ایک بہت ہی اعلیٰ پاۓ کا کارنامہ ہو۔
ہم نے عشق اور محبت کو اسلام کا لازمی جزو بنا کے پیش کیا۔اپنی جوان ہوتی نسل کو صرف درس عاشقی دیا۔تعلیم کے نام پر ہم نے بیہودہ پروگرام دکھاۓ، دنیا نے سائنس وٹیکنالوجی کو موضوع بحث بنایا اپنے بچوں کو کارٹون ڈرامے فلمیں سائنس فکشن پر مبنی دکھائیں اپنے ٹی وی پروگراموں کے ذریعے نت نئی ٹیکنالوجی متعارف کروائی ۔اور ہم نے ہیر رانجھا سسی پنوں پڑھاۓ سکھاۓ ،ان کی قدرومنزلت ذہنوں میں راسخ کرنے کے لئے ان کے مزار ،دربار بناۓ۔ساری دنیا میں معاشرے کے لیے کارآمد انسان تیار ہوتے رہے ہم نے ملنگ پیدا کرنے والے کارخانوں کا جال بچھایا۔یورپ یونیورسٹی پر یونیورسٹی بناتا رہا ہم نے دربار ومزار سجاۓ۔ ہم نے ہر گلی ہر گھر میں رانجھے تیار کیے، مہیوال بناۓ، ہیر اور سسیاں تیار کرتے رہے۔
ہم نے اپنی نئی نسل کو زندگی کا ماحصل بس ایک سمجھایا کہ اپنی مرضی کا لڑکا دیکھو ،لڑکی تلاش کرو ،اس کے پیچھے گھومتے پھرو۔آپس میں پیار کی پینگھیں بڑھاؤ اور جب گھر والے انکار کردیں تو گھر سے بھاگ کے شادی کرلو یا خودکشی کرلو ،یہی پیار کی معراج ہے۔ذرا سوچیے کہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کی تربیت کن خطوط پر کر رہے ہیں کیا عاشق بھی کبھی معاشرے کے لئے کارآمد انسان رہے ہیں یا بن سکتے ہیں۔لمحہ فکریہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کا سنجیدہ اور درد دل رکھنے والا طبقہ بھی اس کے خلاف آواز اٹھاتے ہوۓ گھبراہٹ کا شکار ہے۔نہ کہیں سے نجی سکولوں کی سرگرمیوں اور بدمعاشیوں کے خلاف آواز بلند ہو رہی ہے۔نہ ہی میڈیا کی اخلاقی انحطاط پذیری پر کوئی  آواز اٹھتی ہے۔
آخر کب تک ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے کسی مسیحا کی آمد کا انتظار کرتے رہیں گے اور آخر قوم کی آنکھیں کھولنے کے لئے کتنے نوجوانوں کو خودکشی کرنی پڑے گی؟؟معاشرے کو رسوم ورواج کو معاشرتی اونچ نیچ کو اور ذات پات کے جھگڑوں کو مطعون کرنے سے کچھ فائدا نہیں ہونے والا ۔اپنی ترجیحات کا از سر نو جائزہ لینا ضروری ہے۔ہم اپنے بچوں  کو کیا تعلیم دے رہے ہیں ہمارا میڈیا ہمارے بچوں کو کیا سکھا رہا ہے، کیا واقعی من حیث القوم ہمیں ہمارا میڈیا درست سمت میں لے جارہا ہے یا اب تک کا ہمارا سفر محض ایک بے سمت حرکت تھی؟!
سوچیے گا ضرور!

Facebook Comments

رانا اورنگزیب
اک عام آدمی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply