ہماری سوچ ہی ہماری قسمت بناتی ہے۔۔عاصمہ حسن

ہم بحیثیت انسان عمومی طور پر بہت ناشکرے ہوتے ہیں، ـ زندگی میں کچھ بھی حاصل کر لیں مطمئن یا خوش نہیں ہوتے اور نہ ہی اللہ تعالی کا شکر ادا کرتے ہیں۔    ایک چیز حاصل ہو گئی تو فوراً دوسرے کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں ـ

زندگی بذات خود اتنی مشکل نہیں ہوتی جتنی ہم اسے بنا لیتے ہیں ـ اس میں ہماری سوچ اور خواہشات کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے ـ اگر ہماری سوچ مثبت ہے تو ہم بڑے سے بڑے امتحان سے سرخرو ہو کر نکل آتے ہیں لیکن اگر اس کے برعکس ہماری سوچ منفی ہے ہماری خواہشات لامحدود ہیں تو ہم مسائل اور مایوسیوں میں گِھرتے چلے جاتے ہیں ـ اللہ رب ا لکریم کی عطا کردہ نعمتوں کی ناشکری پر اتر آتے ہیں،اپنا موازنہ دوسروں سے کرتے ہیں تبھی تو مسائل  اور بے سکونی کا شکار ہوتے ہیں۔

کچھ دن پہلے کی بات ہے کہ ایک شخص جو کچھ چیزیں بیچ رہا تھا قریب آیا اور کہا کہ میری مدد کریں اور یہ چیزیں خرید لیں اب نہ تو وہ سامان جس کو وہ بیچنے کی کوشش کر رہا تھا اس قابل تھا کہ خریدا جائے کیونکہ سامان کی حالت کافی خراب تھی اور نہ ہی وہ چیزیں ضرورت کی تھیں ـ جب مناسب الفاظ میں انکار کیا تاکہ اس کا دل نہ ٹوٹے تو وہ صاحب بولے کہ ہم شاید اللہ کی صحیح عبادت نہیں کرتے اس کا صحیح سے نام نہیں لیتے جس طرح آپ لوگ اللہ کی عبادت کرتے ہیں ،یہی وجہ ہے کہ اللہ نے ہمیں اس حالت میں رکھا ہوا ہے اور آپ لوگوں کو نوازا ہوا ہے ـ وہ تو کہہ کر آگے نکل گیا لیکن مجھے سوچنے پر مجبور کر گیا اور مجھے اس کی اس بات پر حیرت ہوئی کہ اللہ تعالی نے یہ وعدہ کیا ہے کہ تم محنت کرو اور اپنے کام سے ‘ کاروبار سے انصاف کرو میں تم کو اس کا اجر دوں گا ـ لیکن اس شخص کی سوچ ہی منفی تھی اس کو اپنا ناقص سامان نظر نہیں آیا ،اس کو اپنے بیچنے کا طریقہ جو غلط تھا نظر نہیں آیا اس نے گلہ  کرنا مناسب سمجھا اپنی عقل اور سوچ کے مطابق ہی اس نے بات کی۔ ـ حالانکہ وہ سوچ سکتاتھاکہ کیسےوہ اپنےسامان کوبہتراندازمیں بیچ سکتا ہے ‘ کیسے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر اپنے حالات بدل سکتا ہے ـیہ جو ہماری سوچ ہوتی ہے نا یہی طے کرتی ہے کہ ہم کس سمت کا مسافر بنیں گے ـ،ہمارا عمل اور مضبوط کردار ہی ہمیں طوفانوں سے لڑنے کا حوصلہ عطا کرتا ہے ـ مصائب کا شکار ہو کر اس طرح رونے دھونے اور قسمت کو کوسنے کی بجائے خود پر وقت لگانا زیادہ مناسب ہے جس کا ہمیں کوئی فائدہ تو ہو ـ۔

اگر ہم اپنی سوچ کو بدل لیں ‘ اپنی صلاحیتوں پر کام کریں تو اپنی منزل کو باآسانی پا سکتے ہیں ـ کامیاب لوگ جو ہمیں اپنے اردگرد نظر آتے ہیں وہ راتوں  رات کامیابی حاصل نہیں کر لیتے نہ ہی جادو کی چھڑی ہلا کر منزل تک پہنچ جاتے ہیں ـ۔
ان کی کامیابی کے پیچھے ان کی مثبت سوچ، درست سمت کا تعین، مناسب لائحہ عمل، دن رات کی محنت اور سالہاسال کی مسلسل جدوجہد کارفرما ہوتی ہے جو ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کو ان کی منزل کے قریب لے جاتی ہے ـ اس سفر میں کئی بار ٹھوکر کھا کر گرتے بھی ہیں لیکن مایوس ہونے اور دوسروں کو مورد الزام ٹھہرانے کی بجائے سوچتے ہیں ‘ دیکھتے ہیں کہ کہاں ان سے غلطی سرزد ہوئی ہے۔ کیسے وہ مسائل کو اپنے لئے مواقع میں تبدیل کر سکتے ہیں ـ پھر وہ حالات کے مطابق منصوبہ بندی کرتے ہیں جہاں ان کو کمی نظر آتی ہے، اس پر کام کرتے ہیں تاکہ کوئی کوتاہی نہ رہ جائے۔ ـ اب ضروری نہیں کہ نتائج ہماری توقع کے مطابق آئیں ، کیونکہ اکثر ویسا نہیں ہوتاجیساہم سوچتےہیں ـ اتنی محنت اورتگ ودوکےبعد اگر ناکامی کا سامنا کرنا پڑے تب بھی ہمت و حوصلہ نہیں ہارنا چاہیے بلکہ نئے عزم کے ساتھ دوبارہ اٹھ کر ہمت و حوصلے اور نئی  سوچ کے ساتھ پیش قدمی کرنی چاہیے۔ ـ

زندگی اور اس کے کاروبار ہماری سوچ کے مطابق نہیں چلتے بلکہ ہمیں ان کے مطابق جینا پڑتا ہے ـ آج کے دور میں جہاں بہت زیادہ مقابلہ ہے وہاں ہم عمومی صلاحیتوں یا روایتی سوچ کے ساتھ کامیاب نہیں ہو سکتے اب ٹیکنالوجی کا دور ہے اور کامیاب وہی ہوتا ہے جو خود کو وقت کے ساتھ تبدیل کرتا ہے اپنی صلاحیتوں اور قابلیت کو پہچاننے کے بعد ان میں مہارت حاصل کرتا ہے ـ اپنے اندر جدت لے کر آتا ہے خود پر سرمایہ کاری کرتا ہے پھر ہی وہ اس دنیا میں مقابلہ کرنے کے قابل ہوتا ہے ـ۔

اس سارے عمل میں سب سے اہم پہلو اپنی صلاحیتوں کو جاننا ہے تاکہ محنت صحیح سمت میں ہو ،اگر میں چاہوں کہ گرافک ڈیزائینر بن جاؤں تو ایسا ممکن ہی نہیں جب تک مجھ میں تخلیقی صلاحیت موجود نہیں ہو گی ـ میرے کام میں جدت نہیں ہو گی ـ اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہم سب انسان ایک دوسرے سے مختلف ہیں ‘ ہماری صلاحیتیں مختلف ہیں ہم وہ کام نہیں کر سکتے جودوسرے کر رہے ہیں کیوں کہ مجھ میں وہ قابلیت ‘اور صلاحیت ہے ہی نہیں لیکن جو صلاحیت و قابلیت مجھ میں ہے وہ کسی اور میں نہیں ہے ـ اس لئے خود کو پہچاننا ضروری ہے۔

ہم اپنی قسمت خود بناتے ہیں اللہ تعالی نے ہمیں صلاحیتوں سے نوازا ہے عقل عطا کی ہے وسائل محدود ہونا کوئی عزر نہیں ہوتا ـ اگر لگن ہو محنت کرنی آتی ہو تو سب ممکن ہو جاتا ہے ـ
ناشکری کرنے کی بجائے اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کا شکر ادا کیا جائے اور ان نعمتوں یعنی ہاتھ’ پاؤں ‘ صحت و تندرستی’ عقل’ سوچ و سمجھ کو صحیح سمت میں استعمال کیا جائے ـ خود کا دوسروں سے موازنہ نہ کیا جائے اور نہ ہی دل میں حسد کو جگہ دی جائے،یادرکھیں مایوسی کفر ہے اور محنت میں عظمت ہے۔ ـ
بقول ظفر علی خان کہ :
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

دوسرے لوگوں کی کامیابی پر تنقید یا لعن طعن کرنے کی بجائے ہمیں ان سے سیکھنا چاہیے ـ ہمیں معلوم کرنا چاہیے کہ ان لوگوں نے کتنی قربانیوں کے بعد موجودہ اعلی مقام حاصل کیا ہے ـ اگر ہم گہرائی میں جائیں تو ہمیں معلوم ہو گاکہ ان کی کامیابی کے پس پردہ ان کی دن رات کی محنت اور کاوشیں ہیں جن کی بدولت وہ آگے بڑھے اور اپنا لوہا منوایا۔ ـ

حسد کر کے ہم خود اپنے آپ کو مشکل میں ڈال دیتے ہیں ـ ہمارے اندر احساس کمتری کا جذبہ غالب آجاتا ہےجس کی وجہ سے ہمیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ـ ہمارے حق میں یہی بہتر ہے کہ ہم اپنے دوستوں’ رشتہ داروں اور ساتھیوں کی کامیابی سے خوش ہوں اور اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے کامیابی کے سفر پر گامزن ہوں ـ اس طرح کے رویے سے دوسرے لوگ بھی ہماری کامیابی اور خوشی میں شریک ہوں گے اور یہ سلسلہ آگے چلتا رہے گا ـ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

زندگی زندہ دلی کا نام ہے لہذا ناکامیوں پردل برداشتہ ہونا’ پریشان ہونا ‘ جلنا اور کڑھنا چھوڑ دیں اور اپنی توانائیوں کو صحیح سمت میں لگاتے ہوئے پرعزم ہو کر منزل کی طرف پیش قدمی کریں ـ یاد رہے کہ اس سفر میں طوفانوں کا سامنا بھی کرنا پڑے گا لیکن آپ کی سوچ’ ثابت قدمی اور آہنی قوت ارادی آپ کا سفر نہ صرف آسان بنائے گی بلکہ منزل تک بھی پہنچا دے گی ـ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply