نیویارک ٹائمز میں سال 2016 کا سب سے زیادہ پڑھا جانے والا آرٹیکل “why you will marry the wrong person” میں فلسفی ایلن-ڈی-بوٹن نے جدید دنیا میں شادی اور اس سے متعلق مسائل پر قابلِ تعریف تبصرہ کیا ہے۔ ایلن شادی کی تاریخ کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے تین ادوار میں تقسیم کرتے ہیں۔ جدیدیت سے قبل عموماً شادیاں مذہبی فرقہ، ذات خاندان، جائیداد وغیرہ کو قابلِ غور رکھ کر کی جاتی تھیں (پاکستان میں آج بھی یہی طریقہ کار ہے)، اسے ‘معقول شادی’ (reasonable marriages) کا نام دیا گیا ہے جو یقیناً عقل کا ماتم ہے۔ کئی صدیوں تک چلنے والی جبرا اور تکلیف دہ خاندانی شادیوں کا متبادل اٹھارویں صدی کے اواخر میں ‘رومانیت’ کی شکل میں آیا۔ دو لوگ ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، ایک دوسرے کے ساتھ اچھا محسوس کرتے ہیں، اپنے ‘دل’ کی سنتے ہیں اور شادی کر نے کا فیصلہ کر لیتے ہیں کیونکہ ‘پیار’ تو دل سے ہوتا ہے ‘دماغ’ سے نہیں! تاریخ دان رومانیت کو صدیوں چلنے والی شادیوں سے ملنے والے صدمے (trauma) کا ردعمل بتاتے ہیں۔ ان ‘دل’ سے کی جانے والی شادیوں کے انجام مغرب میں طلاق کی بڑھتی شرح اور ہمارے ارد گرد محبت کی شادی کے بعد اپنی پسند پر افسوس کرنے والے جوڑوں کو دیکھ کر بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ اصولاً اپنے من پسند انسان کو ہمسفر بنانے کے بعد مسائل کو حل ہوجانا چاہیے لیکن عموماً نتائج ہماری توجہ کے برعکس ہوتے ہیں۔ لوگ اپنے گرد و نواح میں غیر فعال اور ٹاکسک رشتوں کو دیکھ کر شادی کو کوستے ہیں، ازدواجی زندگی پر طنز و مزاح سے بھرپور چٹکلے بنائے جاتے ہیں اور شادی نہ کرنے کی تلقین بھی کی جاتی ہے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ مسئلہ کیا واقعی میں ازدواجی رشتے میں ہے یا پھر اس سوشل کانٹریکٹ کو لے کر ہماری سوچ اور اپروچ میں ہے؟
خود-آگاہی( self-awareness):
عموماً روشن خیال حضرات ‘جنسی گھٹن’ کو اپنی تحاریر میں غیر فعال شادیوں کی وجہ قرار دیتے ہیں، یہ وجہ شاید کسی حد تک درست بھی ہے لیکن محض جنسی گھٹن کو ٹاکسک رشتوں کی وجہ بتانا موزوں نہیں۔ سائیکالوجسٹ کہتے ہیں بچپن میں اپنے ارد گرد کے رشتوں کے باہمی تعامل اور والدین کی ایموشنل اسٹیٹ کو مثال رکھ کر بچے اپنا ایموشنل میپ (نقشہ) تشکیل دیتے ہیں اور بالغ ہوکر اس ایموشنل میپ پر چلتے ہوئے غیر شعوری طور پر ان رویوں اور لوگوں کی جانب مبذول ہوتے ہیں جو بچپن میں اپنے والدین کے رویوں سے میل کھاتے معلوم ہوتے ہیں۔ جسے ہم ‘متوجہ’ (attract) ہونا کہتے ہیں سائیکالوجسٹ اسے ‘واقفیت’ (familiarity) کا نام دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر ماں/باپ جذباتی طور پر ‘غیر دستیاب’ یا ‘قربت سے اجتناب’ برتتے ہیں، بہت ممکن ہے اس طرز کے رویے کے زیر اثر رہنے والا بچہ بالغ ہوکر ‘غیر دستیاب’ اور ‘لاپرواہ’ لوگوں کی جانب متوجہ ہوگا کیونکہ اسکا ذہن خوشی، محبت اور رشتوں کو اسی رویے پر پرکھنے کا عادی ہوتا ہے۔ اب چاہے کتنی ہی جنسی آزادی دے دی جائے وہ بچہ بالغ ہوکر ایموشنلی غیر فعال لوگوں کی جانب بھاگتا رہے گا، نارمل اور ایموشنلی فعال لوگوں میں اسے کشش محسوس نہیں ہوگی وہ کبھی خود کو ان سے کنیکٹ نہیں کر پائے گا، وہ فطرتاً خود میں موجود خلا کو پُر کرنے کی کوشش کرنا چاہتا ہے لیکن وہ اس ‘واقفیت’ والے جال سے نکل نہیں پاتا جس سے اسکی ذہنی تکلیف میں مزید اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ ایسے کئی اَن گنت نفسیاتی رویے ہم روز مرہ کی زندگی اور رشتوں میں فالو کرتے رہتے ہیں جس پر نہ کبھی ہم نے غور کرنے کی زحمت کی ہوتی ہے، نہ ہمارے والدین اور دوست۔
ہمارے ذہن میں موجود اس چکر ویو کو سمجھنے اور توڑنے کے لیے سب سے ضروری جزو “خود-آگاہی” ہے۔ خود-آگاہی یعنی اپنے نفسیاتی رویوں کو سمجھنے اور پھر انہیں اپنی بہتری کے لیے بدلنے کا عمل۔ بچپن کے پڑھے ہوئے تکلیف دہ پاٹ ساری زندگی ساتھ لے کر چلنا ضروری نہیں۔ اگر آپ اپنے رویے، گمان، خیال اور احساسات کے پیٹرن سے واقف نہیں ہیں تو دوسروں کو سمجھنے اور ان سے اچھے ریلیشن شپز بنانے کی پوزیشن میں کبھی نہیں آسکتے۔
شادی- ایک انسٹی ٹیوشن:
نفسی معیشت دان (behavioral economist) ڈین ایریلے کی ریسرچ کے مطابق انسانوں کی روز مرہ زندگی کے فیصلے ‘غیر معقول’ ہوتے ہیں۔ ہمارے بہت اہم فیصلوں کے عقب میں بھی ‘احساسات’ ہوتے ہیں، منطق نہیں۔ شادی کی مثال ایک انتظامی ادارے کی ہے اور انتظامی ادارہ محض احساس سے نہیں بلکہ پلا ننگ سے چلتا ہے، جہاں ملازمین ایماندار ہوں، اپنی ذمہ داریوں سے واقف ہوں۔ اگر افراد کے درمیان حقیقت پسندانہ، معیاری اور اچھی کمیونیکیشن نہ ہو تو ادارہ کمزور پڑنے لگتا ہے۔ بیشک احساس بھی ازدواجی زندگی کا ایک جز و ہے، کسی بھی ریلیشن شپ کی شروعات میں ہمیں خوشی کا احساس ہوتا ہے مگر احساسات کی سب سے بڑی پرابلم یہ ہے کہ یہ بدلتے وقت کے ساتھ بدل جاتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں/ہمیں لگتا ہے کہ رشتوں کے اوائلی دنوں کی خوشی ہمیشہ قائم رہے، لیکن یہ ہماری کم علمی ہے۔ ازدواجی یا کوئی بھی رشتہ ہو، کچھ عرصے میں خوشی کی سطح نارملٹی کی طرف آنے لگتی ہے۔ اب آشکار ہوتا ہے رومانچ، جوش وجذبہ سکّے کا ایک رخ تھا، دوسرا رخ ‘بوریت’ اور رشتوں کی ذمہ داریاں ہیں۔ ذمہ داریاں اور یکسانیت ‘بوریت’ کو جنم دیتے ہیں، اس احساس کو تاریخ دان اور فلسفی یووال نوح ہراری احساسات کی فہرست میں بہت تکلیف دہ اور مشکل احساس بتاتے ہیں۔ جن لوگوں کا تھرل، ایکسائٹمنٹ اور فوری تسکین (instant gratification) کی طرف رجحان زیادہ ہو ،انہیں بوریت کو ہینڈل کرنے میں بہت مشکلات کا سامنا ہوتا ہے، یہ وہ افراد ہوتے ہیں جن کے لیے شادی گلے کا کانٹا ہوتی ہے۔ فطرت کی ستم ظرفی یہ ہے کہ بوریت کا سامنا کیے بغیر کچھ بھی دلچسپ اور فائدہ مند حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔ بور ہو کر پڑھنے والا طالب علم فوری تسکین کو رد کرکے مستقبل میں اچھے نتائج پر غور کرتا ہے۔ ریلیشن شپ کو بہتر بنانے کے لیے فوری تسکین (instant gratification) سے کنارہ کشی ضروری ہے۔ تکلیف، بے چینی، ناکامی، انتظار، بوریت جیسے تجربے سے گزرے بغیر اپنی ذہنی نشو ونما کرنا ممکن نہیں۔ مشہور زمانہ پریکٹس ‘میڈیٹیشن’ (meditation) کیا ہے— خود کو جان بوجھ کر بوریت کے تجربے سے گزارنا تاکہ ذہنی نشو ونما ہوسکے۔
شادی کی تیسری قسم: نفسیات کی شادی:
جدید سائنس، نالج اور انفارمیشن کے اس دور نے انسانی زندگی اور اس کی سوشل لائف کی پیچیدگیوں کو سمجھنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ نفسیات اور رویوں سے منسوب سائنسی علوم نے انسانوں سے متعلق روایتی اور فرضی خرافات کو بے نقاب کیا ہے۔ محض رسم و رواج، ذات نسل، مالی تفصیلات، پیار محبت، جنسی جنون وغیرہ کی انفارمیشن کی بناء پر ہونے والے رشتوں کا انجام کئی نسلوں نے بھگتا ہے۔ یہ سطحی (لیکن ضروری) ہوم ورک ازدواجیت جیسے چیلنجنگ کانٹریکٹ کو چلانے کے لیے ناکافی ہے۔ وہ رشتہ جس میں اپنے اور دوسروں کے جذبات، احساسات، نفسیات کو پختگی اور خود-آگاہی کے ذریعے سے جانچا اور پرکھا جائے، اسے ایلن-ڈی-بوٹن ‘نفسیات کی شادی’ کہتے ہیں۔ ہم سب نامکمل اور عیب دار انسان ہیں۔ پرفیکشن فقط ہمارے ذہن کا فطور ہے، اسکا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ ازدواجی ہی نہیں بلکہ کسی بھی اچھے رشتے کی بنیاد رکھنے کے لیے عدم تحفظ اور ضرب پذیری (vulnerability) پر بات کرنا بہت ضروری ہے۔ شاید بہتر ہو اگر ہم اپنی خوبیوں اور کامیابیوں کی ڈھارس بٹھانے کے ساتھ اپنی کمزوریوں اور زندگی کی اذیتوں کو بھی زیر بحث لائیں۔ “جنسیات کے ساتھ اگر نفسیات کا مطالعہ بھی کر لیا جائے تو مسائل کسی حد تک کم تکلیف دہ ہوسکتے ہیں۔”
شادی ایک ایجوکیشنل ٹاسک ہے، اس ایجوکیشن کی ذمہ داری ہماری ثقافت، اسٹیٹ اور معاشرے کے ذمے ہے۔ افسوس کہ ہمارے معاشرے میں شادی شدہ اچھے رول ماڈلز کا فقدان ہے۔ ازدواجی کانٹریکٹ پر حامی بھرنے سے پہلے اس کو سمجھنا بہت ضروری ہے کیونکہ ٹاکسک ریلیشن شپز آنے والی نسلوں کے لیے عذاب بن جاتے ہیں۔ ماڈرن انسانوں کے لیے ازدواجی رشتہ فقط جنسی عمل یا نسل بڑھانے کا ذریعہ نہیں ہے بلکہ یہ رفاقت (companionship) ہے جس میں ہم آہنگی (compatibility) ‘اولین شرط’ نہیں بلکہ اس رشتے کا ‘حاصل’ ہے۔ اس میں بوریت، اکتاہٹ اور یکسانیت ہے لیکن اصلاح ذات کے بیش بہا مواقع بھی ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں