• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کورونا کے ماحول پر مثبت اثرات، ماحول کو لاحق مسائل اور ممکنہ دیرپا حل۔۔ذوالقرنین ہندل

کورونا کے ماحول پر مثبت اثرات، ماحول کو لاحق مسائل اور ممکنہ دیرپا حل۔۔ذوالقرنین ہندل

قدرت نے ایکو سسٹم جیسا ایک متوازن نظام دیا ہے۔ جس نے بہت سی بے جان اشیاء کے ساتھ جانداروں کو بھی آپس میں جوڑا ہوا ہے۔جدت کی بلندیوں کو چھوتا انسان قدرت کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ قدرت کا اپنا ہی نظام ہے،جو اپنے وقت اور رفتار پر گامزن ہے۔ تلخ حقیقت ہے کہ دنیا میں جنگوں اور وباؤں سے زیادہ لوگ ماحول سے متاثر ہورہے ہیں اور زیادہ تر وباؤں کی وجہ بھی ماحول ہی ہے۔ ہر سال ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے دنیا بھر میں 9-10ملین لوگ جان کی بازی ہار رہے ہیں۔عالمی صحت کے ادارے کے مطابق غیر صحت بخش ماحول میں رہنے یا کام کرنے کے نتیجے میں 2012میں 12.6ملین جب کہ 2015میں 9ملین لوگ ہلاک ہوئے۔

جہاں دنیا ابھی تک کورونا کی ہولناکیوں سے پریشان ہے،وہیں چند لوگ کورونا سے ماحول پر مثبت اثرات کے باعث مطمئن بھی ہیں۔ ایک بڑے عرصے بعد شاید فضا خوشگوار ہوئی ہے۔جانور،چرند پرند،سمیت پودوں کو بھی تفریح کا وقت میسر آیا  ہے۔حالیہ لاک ڈاؤن  کی بدولت فضائی لحاظ سے آلودہ شہروں میں خاصی مثبت پیشرفت ہوئی ہے۔وہی   لاہور جہاں ماضی میں ہوا کے معیار کا شمارہ 300پوائنٹس کی سطح کو بھی پار کر جاتا تھا،آج 74 پوائنٹس جیسی کم سطح پر آچکا ہے۔ہوا کے معیار کے شمارے کے مطابق51-100 پوائنٹس معتدل اور ماحول دوست ہے۔بھارت کا شہر دہلی تین دنوں میں 144سے کم ہوکر54 پوائنٹس پر پہنچ چکا ہے۔یورپ سمیت،چائنہ اور دیگر ممالک کے شہروں میں لوگ برسوں بعد نیلے فلک کی حقیقی خوبصورتی کو دیکھ رہے ہیں۔ہوا کے معیار کے ماہر محقق ’فی لیو‘ کے مطابق اس نے اتنے بڑے پیمانے پر کمی پہلی بار دیکھی ہے۔دو ہفتوں کی بندش کی بدولت چین میں تین سال بعد بڑی سطح پرسو ملین ٹن تک کاربن کے اخراج میں کمی واقع ہوئی ہے۔سائنسدانوں کے مطابق چین میں 25فیصد تک کاربن گیسوں جب کہ40فیصد تک نائٹروجن گیسوں میں کمی واقع ہوئی ہے۔اسٹینفرڈ یونیورسٹی کے محقق ’مارشل برک‘ کے مطابق چین میں دو ماہ میں ہونی والی بندش کی بدولت فضائی آلودگی میں کمی کے باعث پانچ سال سے کم عمر چار ہزار بچے جب کہ ستر سال سے زائدالعمر تہتر ہزاربزرگوں کی جانیں بچی ہیں۔نیو یارک میں سائنسدانوں کی تحقیق کے مطابق حیرت انگیز طور پر  کاربن مونو آکسائیڈ کی فضا میں مقدار  50فیصد جب کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کی5-10فیصد کم ہوئی ہے۔’ڈی ڈبلیو نیوز‘ کے مطابق جرمنی میں گزشتہ سال کی نسبت40فیصد گرین ہاؤس گیسوں میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔عالمی ادارہ برائے موسمی تحقیق کے محقق’گلین پیٹر‘ کے مطابق 2020میں دنیا بھر سے کاربن ڈائی آکسائیڈ میں 0.3-1.2فیصد کمی واقع ہو سکتی ہے۔نیچر ہیرالڈ میں شائع شدہ ایک مقالے کے مطابق حالیہ بندش کے باعث اوزون کی تہہ صحت یابی کی طرف گامزن ہے۔

مگر افسوس کہ  ماحول پر اثر انداز ہونے والے یہ مثبت نتائج دیرپا نہیں۔دنیا کورونا کے خاتمے کے بعد اپنے معاشی نقصان کے ازالے کے لئے تیزی سے بڑی سطح پر صنعتی سرگرمیاں انجام دے گی،جس سے ماحول دوبارہ منفی تبدیلیوں پر گامزن ہو جائے گا۔چین میں کورونا کی روک تھام کے بعد صنعتی معاشی سرگرمیوں کا آغاز شروع ہوچکا ہے۔چین دنیا میں (30فیصد) سب سے زیادہ آلودگی پھیلانے کے باعث سرفہرست ہے۔دوسرے نمبر پر امریکہ(15فیصد)،تیسرے پربھارت(7فیصد)،چوتھے پرروس(5فیصد)جب کہ پانچویں نمبر پر جاپان(4فیصد) ہے۔دنیا میں ہونے والے کوئلے کا49فیصد استعمال چین کرتا ہے۔نومبر2018سی این این کی رپورٹ کے مطابق صدر ٹرمپ نے ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے اپنے ملک کے سائنسدانوں کی تحقیق پر مبنی رپورٹ کو مسترد کر دیا تھا۔ مارچ 2020میں اسی ادارے کی خبر کے مطابق ٹرمپ نے آٹو موبائل کی کارکردگی کے معیار کو بھی ختم کرنے کا عندیہ دیا ہے۔

دنیا بھر میں سب سے زیادہ قاتل فضائی آلودگی ہے۔جس سے ہر سال 7ملین لوگ،سانس،دل،کینسر اور مختلف بیماریوں کی نظر ہوجاتے ہیں۔ عالمی صحت کا ادارہ کہتا ہے کہ،97فیصدنچلے اور متوسط آمدنی والے ممالک میں ایک لاکھ سے زائد آبادی والے شہروں میں ہوا کا معیار عالمی صحت کے معیار کے مطابق نہیں۔جب کہ عالمی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان بھر میں ہر سال فضائی آلودگی کی وجہ سے بائیس ہزار نا بالغ بچے اور اٹھائیس ہزارکے قریب سانس کی بیماریوں سے اموات واقع ہو رہی ہیں۔جب کہ کل ڈیڑھ لاکھ کے لگ بھگ سالا نہ اموات فضائی آلودگی کی وجہ سے ہوتی ہیں۔فضائی آلودگی کا باعث گاڑیوں اورکارخانوں سے اٹھنے والا دھواں،فضا میں پھیلتی زہریلی و مہلک گیسیں،دھول اور دیگرکیمیائی مادے ہیں۔نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ(NO2)، سلفر ڈائی آکسائیڈ(SO2)اور کاربن ڈائی آکسائیڈ(CO2) جیسی گیسیں مختلف قسم کے حیاتیاتی ایندھن کے استعمال سے پھیلتی ہیں، جیسا کہ قدرتی گیس،پٹرولیم،اور کوئلہ وغیرہ۔نائٹروجن اور سلفر گیسیں پانی سے ردعمل میں تیزاب بنا کر تیزابی بارشوں کا بھی باعث بنتی ہیں۔جب کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ ماحول میں درجہ حرارت کو بڑھا کر’گلوبل وارمنگ‘میں کردار ادا کرتی ہے۔جب کہ کاربن مونو آکسائیڈ(CO) گاڑیوں کی نامکمل اور نامناسب کارکردگی کی بدولت پیدا ہوتی ہے اور یہ ماحول میں تبدیلیوں پر اثر انداز ہونے والی گرین ہاؤس گیسوں پر اثر کرتی ہے۔’دنیا بھر میں 7فیصد گرین ہاؤس گیسوں کی وجہ ہوائی ٹرانسپورٹ ہے‘۔ کان کنی (Mining)کے دوران ہونے والی کھدائی سے پھیلنے والی دھول، بکھرتے کیمیائی مادے اور گیسیں بھی فضائی آلودگی کا سبب بنتی ہیں۔

”نیچر کمیونیکشن نامی جریدے کے مطابق کیریبیائی خطے میں موجود مونگے کے چٹان مکمل طور پر تباہ ہونے میں پندرہ برس سے بھی کم عرصہ لگ سکتا ہے۔ان کی تباہی کی بڑی وجہ پھیلتی تزابیت اور آلودگی ہے“۔
زمین70فیصد پانی پر مشتمل ہے۔ایسے میں پانی کا آلودہ ہونا پوری دنیا کے لئے انتہائی خطرناک ہے۔’دی لانسٹ نامی جریدے میں شائع مطالعے کے مطابق2015میں پانی کی آلودگی سے قرب1.8ملین لوگ جان کی بازی ہار گئے‘۔آلودہ پانی پینے اور پانی کی کمی سے قریب ہر سال چار لاکھ پچاسی ہزار اموا ت اسہال(Diarrhea) کے سبب ہو رہی ہیں۔پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق ہر سال ترپن ہزاربچے اسہال سے مر جاتے ہیں۔ٹائمز آف انڈیا کے مطابق بھارت میں ہر دن 7لوگ گندے پانی کا شکار ہو رہے ہیں۔بیجا فیکٹریوں اور کھیتوں میں استعمال ہونے والے کیمیائی مادے،کوڑا کرکٹ،تیل اور دیگر مہلک فضلوں سمیت ’پلاسٹک‘ کا پانی میں حل ہونا اورتیزابی بارشیں وغیرہ پانی کی آلودگی کا سبب ہیں۔پانی کی آلودگی سے جنم لیتی بیماریوں میں ہیضہ، اسہال، پیچس،ٹائیفائیڈ،ہیپاٹائیٹس اور کینسر وغیرہ ہیں۔پانی کی آلودگی انسانوں کے ساتھ دیگر مخلوقات سمیت سمندری حیات کے لئے بھی خطرہ ہے۔

کوڑے کرکٹ کی جگہ جگہ موجودگی،لینڈ فلز،جنگلات کی کٹائی اور اس سے ہونے والا زمینی کٹاؤ،صنعت،زراعت اور کان کنی وغیرہ زمینی آلودگی کا سبب بنتے ہیں۔لینڈ فلز سے پیدا ہونے والی گرین ہاؤس گیس (Methane) جو ’گلوبل وارمنگ‘ کا سبب بنتی ہے۔مٹی میں موجود نقصان دہ مادے انسانی صحت سمیت،جلد کی بیماریوں اور کینسر کا باعث بنتے ہیں۔
”نیچر کمیونیکیشن نامی جریدے میں شائع تحقیق کے مطابق ایمزون کے بارانی جنگلات 49برس کے اندر ختم ہو سکتے ہیں،جس کی بڑی وجہ جنگلات کی کٹائی ہے“۔جنگلات کا کٹاؤ زمین کی زرخیزی کو کم کرنے کےساتھ ماحول اور موسم پر اثر انداز ہوتا ہے۔

”گلوبل چینج بائیولوجی نامی جریدے کے مطابق براعظم انٹارکٹیکا میں واقع کیسی ریسرچ سینٹر میں جنوری کے مختلف دنوں میں درجہ حرارت نوٹ کیا گیا۔جو کہ حیرت انگیز طور پر کم سے کم بھی صفر ڈگری سے زیادہ تھا۔ اور زیادہ سے زیادہ 9.2تھا جب کہ ماضی میں زیادہ درجہ حرارت6.2 ریکارڈ کیا گیا تھا۔تحقیق میں شامل سائنسدانوں کے مطابق اس برف نما براعظم پر ماحولیاتی تبدیلیاں عالمی سطح پر بھی اثر انداز ہو سکتی ہیں۔دنیا کا سمندری نظام یہاں سے منسلک ہونے کی بنا پر بہت سے خشک خطے ڈوب جانے کا اندیشہ ہے۔ اس براعظم پر ایکو سسٹم کے تبدیل ہو جانے کے خطرات بھی موجود ہیں“۔سینیٹ انسانی حقوق کی کمیٹی کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث ہر سال پاکستان میں ایک لاکھ اٹھائیس ہزار اموات واقع ہوتی ہیں۔جون 2015کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں گرمی کی لہر سے دو ہزار کے قریب لوگ پانی کی کمی(Dehydration) کی وجہ سے مر گئے۔عالمی صحت کے ادارے کے مطابق 2030-2050تک موسمی تبدیلیوں کے باعث ہر سال اضافی اڑھائی لاکھ لوگوں کے مختلف بیماریوں کے باعث مرنے کے خدشات موجود ہیں۔جب کہ پانچ ملین لوگ موسمیاتی تبدیلیوں سے پیش آنے والے حادثات کی نظر ہو سکتے ہیں۔موسمی تبدیلیاں جہاں قدرتی آفات کا سبب بنتی ہیں وہیں اس سے’گلوبل وارمنگ‘ میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔

ہماری فوری ترجیحات کورونا سے مقابلہ ہے۔مگر کورونا سے مقابلے کے بعدہم اپنی معاشی سرگرمیاں تو ترک نہیں کر سکتے اور ماحول کے مسئلے کو سنجیدہ نہ لینا بھی خطرے سے خالی نہیں۔ایسے میں دنیا کو ایسے مسائل کو پرکھنا ہوگا جو ماحول پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔اور ان کے ایسے حل نکالنا ہوں گے کہ لوگ ماحول اور بھوک دونوں سے نہ مریں۔ہم بہت سے بروقت اقدامات کی بدولت ماحول کو بہتری کی راہ پر گامزن کر سکتے ہیں۔ ہم ’لاک ڈاؤن‘ کے اس دورانیے میں اپنے باغیچوں میں درخت لگا کر ہی آغاز کرسکتے ہیں۔ہمیں زرعی رجحان کو فروغ دینا چاہئے تا کہ سرسبز دنیا فضا میں موجود زہریلی گیسوں کو علیحدہ کر سکے۔ہمیں توانائی کے حصول کے لئے حیاتیاتی ایندھن(Fossil Fuels) کے استعمال کی بجائے قابل تجدید توانائی(Renewable Energy) کے وسائل کو استعمال میں لانا چاہیے، جو ماحول دوست ہونے کے ساتھ بہت کارآمد بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔ وکی پیڈیا پر موجود2014 کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں (41فیصد) توانائی کوئلے،قدرتی گیس سے(22فیصد)،جوہری سے(22فیصد)،پانی سے(16فیصد)،دیگر تیل کے ذرائع سے (4فیصد) جب کہ شمسی، ہوا، جیوتھرمل،بائیو ماس وغیرہ سے (6فیصد) ہے۔ جو ماحول دشمن ایندھن کے زیادہ استعمال کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہمیں فیکٹریوں، کارخانوں سمیت گاڑیوں اور دیگر مشینوں میں توانائی کے مؤثر آلات کو استعمال کرنا چاہیے۔ہمیں بڑی سطح پر بجلی گھروں، گاڑیوں اور فیکٹریوں سے نکلنے والے دھوئیں، گیسوں،کیمیائی مادوں سمیت دیگر مہلک اور ماحول دشمن اخراج کو روکنے کے لئے آلات نصب کرنا چاہئیں، جیسے چمنیوں سے نکلنے والے دھوئیں میں زہریلی گیسوں کو نکالنے کے لئے(Catalytic Converter)استعمال ہوتے ہیں۔صنعتوں اور گاڑیوں کے ماحول دوست معیار کو یقینی بنانے کے لئے بڑے پیمانے پرمعائنوں کو یقینی بنانا چاہیے۔دھول جو کے گرین ہاؤس گیسوں میں اضافہ کر رہی ہے، تعمیراتی شعبوں میں اس پر قابو پانے کے لئے عملی اقدامات ہونے چاہئیں۔زرعی فصلوں کے باقیات کو جلانے پر پابندی عائد کرنی چاہیے۔جنگلوں اور جھاڑی دار علاقوں میں آگ کو روکنا چاہیے۔جنگلات کے کٹاؤ پر سخت پابندی پر عملدرآمد کروانا چاہیے۔جانوروں کے فضلے کو سنبھالنے یا استعمال کرنے کا بھی ماحول دوست مؤثر نظام ہونا چاہیے۔نائٹروجن کھادوں سمیت دیگر زرعی ادویات کے استعمال کو کم اور بہتر بنانا چاہیے۔اینٹوں کے بھٹوں سے اٹھنے والے دھوئیں کو ماحول کے معیار کے مطابق ڈھالنے کے لئے اقدامات کرنا چاہئیں۔کھانا پکانے کے لئے ماحول دوست تندور(Oven) متعارف کرا سکتے ہیں۔صنعتوں پر بہتر توانائی کے ذرائع اور مؤثر کارکردگی کے حصول کو نافذ کرسکتے ہیں۔حیاتیاتی ایندھن کی بجائے ماحول دوست برقی گاڑیوں و مشینوں کے استعمال کو فروغ دے سکتے ہیں۔’پبلک ٹرانسپورٹ‘ کو بہتر بنائیں تا کہ لوگوں کا رجحان اس طرف بڑھے اور گاڑیوں کا استعمال کم ہو۔گھریلو کچرے کو جلانے پر پابندی عائد کرنی چاہیے۔ٹھوس فضلے کے نظام کو بہتر اور مؤثر بناکر فضلے میں موجود مہلک چیزوں کو علیحدہ کر کے دیگر اشیاء کو’ری سائیکل‘ کرنے کا مؤثر اور ماحول دوست طریقہ اپنانا چاہیے۔سیلابی علاقوں کے بچاؤ کے لئے بہتر انتظامات کر کے انسانوں سمیت دیگر جانوروں اور فصلوں کو بچایا جا سکتا ہے،بلکہ پانی کوذخیرہ کرکے پانی کی قلت سے بھی بچا سکتا ہے۔گندے پانی کی صفائی کو یقینی بنانے کے لئے نظام مرتب کرسکتے ہیں۔کوئلے اور گیس کے ذخائر کی کان کنی کی کارکردگی کو بہتر اور ماحول دوست بناسکتے ہیں۔تیل اور گیس کی ترسیل کے دوران معطلی اور لیکج  کو بہتر بناکر ماحول کے ساتھ قدرتی اثاثوں کی حفاظت بھی کی جا سکتی ہے۔’ریفریجرینٹ‘ سیالوں کوتبدیل کر کے گرین ہاؤس گیسوں کو کم کیا جا سکتا ہے۔جیساکہ ’کیگالی ترمیم‘ کے تحت ہائیڈروفلوروکاربن کے استعمال کو مکمل ختم کرنا ہے۔اسی طرح دیگر بہت سی قسم کی آلودگیاں ہیں،جو ہرسال لاکھوں لوگوں کو متاثر کر رہی ہیں۔جیسے شور کی آلودگی،اور بڑھتی آبادی کے باعث پھیلنے والی آلودگی،جوہری آلودگی،روشنی کی آلودگی ودیگر کی روک تھام وقت کی اہم ضرورت ہے۔ہمیں اس وقت سے ڈرنا چاہے،جب دنیا زرخیز اور سرسبز و شاداب رقبوں سے محروم ہو جائے گی۔

Facebook Comments

ذوالقرنین ہندل
چوہدری ذوالقرنین ہندل گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں،مکینیکل انجینیئر، اور وائس آف سوسائٹی کے سی ای او ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply