رزق میں کشادگی کا فارمولا/سید بدر سعید

ہمارے یہاں روزگار کمانے کے لیے چاپلوسی اور خوشامد کا سہارا لیا جاتا ہے۔ پڑھے لکھے نوجوانوں میں بھی یہ سوچ رائج ہے کہ اگر مالک یا افسر کی خوشامد کریں گے اور اسے خوش رکھیں گے تو روزگار کی پریشانی نہیں ہوگی۔ ہم کسی ایک انسان پر انحصار کرنے لگتے ہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ باس یا مالک خوش ہوگا تو رزق میں اضافہ ہوگا۔ بونس ملے گا یا کم از کم ملازمت برقرار رہے گی۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ رازق خدا ہے اور رزق کا وعدہ اللہ کا ہے۔ روزگار کے معاملے میں ہمارے کیریئر کے آغاز سے ہی زوال کا سفر شروع ہو جاتا ہے۔

اس میں دو رائے نہیں کہ فی زمانہ خوشامد، چاپلوسی، جھوٹ کو کامیابی کی علامت سمجھا جانے لگا ہے لیکن رکیے۔ ایک منٹ اپنے ارد گرد نظر ڈالیں، آپ کو ایسا ایک بھی کامیاب شخص “خوش” نہیں ملے گا۔ ایک عجیب سی بے مقصد بھاگ دوڑ، ٹینشن، پریشانی اور جھنجھلاہٹ ان کی زندگی کا حصہ بن چکی ہوگی۔ ایسے لوگ مصنوعی اور پریشان کن زندگی کا شکار ہیں۔

میں نے روزگار کمانے کا طریقہ ایک بندر والے سے سیکھا تھا۔ یہ میرے کیریئر کا آغاز تھا۔ میں بھی ہر مڈل کلاس نوجوان کی طرح بڑے خواب اور محدود وسائل کا شکار تھا۔ اس روز فٹ پاتھ پر مجھے وہ بندر نچانے والا نظر آیا۔ اس نے بندر کا بچہ گودمیں اٹھا رکھا تھا۔ میں کچھ دیر اسے دیکھتا رہا اور پھر اچانک میرے ذہن میں بجلی سی کوندی۔

بندر نچانے والے اس مداری نے مجھے کیا کہا یہ جاننے سے پہلے ایک اور راز جان لیں، مرد کی زندگی میں دو لمحے ایسے آتے ہیں جب اس پر رزق اور قسمت کا در کھلتا ہے۔ ایک نکاح اور دوسرا اولاد کی پیدائش۔ اس کا فارمولا مختصر سا ہے۔ نکاح کے ساتھ ہی آپ کی زندگی کا رخ بدلتا ہے۔ پہلے صرف آپ کی قسمت اور روزگار تھا، اب آپ سے ایک ذی روح منسلک ہے جس کا رزق اور ضروریات آپ کہ ذمہ داری ہے۔ اس کے حصہ کا رزق آپ کے ذریعےآنا ہے۔ جب آپ کسی کے رزق کا وسیلہ بنتے ہیں تو خدا آپ کے رزق کی ترسیل میں رکاوٹ دور کر دیتا ہے۔

یہی صورت حال اولاد کی ہے۔ بچہ اس قابل نہیں ہوتا کہ وہ خود کما یا کھا سکے۔ اس کا انحصار آپ پر ہے، خدا کسی بات پر آپ سے ناراض ہو سکتا ہے۔ لیکن وہ اس بچہ سے ناراض نہیں جس نے آپ کے یہاں جنم لیا ہے وہ اس بچے کو ہر صورت رزق پہنچائے گا۔ یہ رزق آپ کے ذریعے آنا ہے تو یقینا آپ اپنا حصہ اٹھا کر آگے دیں گے اس لیے آپ کا رزق کشادہ ہو جاتا ہے۔

مجھے اس روز مداری نے کہا تھا: سائیں خدا جانور کو بھوکا نہیں رکھتا، اسے تو رزق ملنا ہی ہے۔ اب یہ میرا پابند ہے تو اس کی وجہ سے مجھے بھی رزق مل جاتا ہے۔

میں اس ان پڑھ مداری کی بات سن کر چونک اٹھا تھا۔ اس روز مجھے معلوم ہوا، رزق میں تنگی ہو تو کسی اور کے رزق کی ذمہ داری اٹھا لیں۔ کسی غریب کے گھر راشن بھیجنا شروع کر دیں، کوئی جانور پالیں اور اس کی اچھی دیکھ بھال شروع کر دیں، چھت پر پرندوں کو مسلسل بلاناغہ باجرہ ڈالنے لگ جائیں، کسی بیوہ یا غریب کے بچوں کی سکول فیس کی ذمہ داری اٹھا لیں۔ غرض کوئی ایک ایسا کام پکڑ لیں جس کی بنیادی ذمہ داری اللہ کی ہو۔ آپ اس کا وسیلہ بن جائیں۔ جب تک سلسلہ چلتا رہے گا، مالک آپ کا رزق کشادہ رکھے گا۔ آپ اس کے رزق کی ترسیل کے درمیان اپنی “منجی” بچھا کر بیٹھا جائیں۔ وہ اپنی مخلوق کو اچھا کھلانا چاہتا ہے تو آپ کو اس سے بھی اچھا کھلائے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

رزق کمانے کے دو راستے ہیں ایک چاپلوسی اور خوشامد ہے جس میں آپ کا انحصار کسی دوسرے پر ہوتا ہے، دوسرا رزق کی ترسیل ہے جس میں کسی دوسرے کا انحصار آپ پر ہوتا ہے۔ آج کل پڑھے لکھے نوجوانوں نے پہلا راستہ اپنا رکھا ہے، مجھے البتہ ان پڑھ مداری کا طریقہ زیادہ بہتر لگا۔

Facebook Comments

سيد بدر سعید
سب ایڈیٹر/فیچر رائیٹر: نوائے وقت گروپ ، سکرپٹ رائیٹر ، جوائنٹ سیکرٹری: پنجاب یونین آف جرنلسٹ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply