جب آنکھ کھلی تو دیکھا کہ وہ لوگ بخت سے اپنی جنگ جیتنے کے آخری مرحلے میں تھے۔ فتح کے جشن منانے والوں میں سے تھے نہیں۔ عجیب خاموش فتح گر تھے۔ اپنی فتح کی منادی اور علم وقت پر چھوڑ دیے جو آج بلند ہو رہے ہیں۔
ہم انٹینے کی ڈی سے ٹی وی سکرین پر لکیریں ختم کرنے سے لے کر فورجی کے سگنلز تک اور کیسیٹ اور وی سی آر فلم کی ریل سے یوٹیوب اور نیٹ فلیکس پر پہنچنے والی نسل ہیں۔ ہم اس ارتقاء کے عینی شاہد ہیں۔ مگر ہم سے اوپر جو ریڈیو اور گرامو فون والے تھے دراصل تو ایک انقلاب ان آنکھوں نے دیکھا ہے۔
والد صاحب کے ریڈیو پر سنے گئے لتاجی کے گانے آج یوٹیوب پر چلتے ہیں تو ساتھ ایک چٹکی سی بجنے لگتی ہے۔ تعبیر کے منظر خوابناک ہونے لگتے ہیں۔ آج اینڈرائیڈ میں آنکھ کھولنے والے بچے یہ سحر انگیز تجربہ کرنے سے قاصر ہیں۔ کیونکہ وہ نہیں جانتے کہ ٹیپ کا ریورس فارورڈ خراب ہونے پر پیانو کی پینسل سے کیسیٹ کو کیسے گھمایا جاتا ہے۔ انگلی کی ایک جنبش سے ویڈیو بدلنے والی نسل واقعی نہیں جانتی کہ وی سی آر پر فلم دیکھنے والے کمپیوٹر سی ڈی پر منتقل ہوتے ہوئے خود کو کتنا جدید سمجھتے تھے۔
بچپن میں ایک کیسیٹ ہوا کرتی تھی اس میں غالباً پروفیسر صاحب یا ساغر صاحب مرحوم (دونوں چچا صاحبان) کی آواز میں ایک غزل کا شعر ترنم سے پڑھا گیا تھا۔۔۔۔۔۔
کسی کی آنکھ جو پُر نم نہیں ہے
نہ یہ سمجھو کہ اُس کو غم نہیں ہے
یہ واقعی ہم سے اوپر کے ریڈیو ولے فتح گروں کا فلسفہِ حیات تھا۔ جنکے غم اور چشمِ پُرنم کے درمیان غیرت نے ضبط کا ایک بند باندھ رکھاتھا۔ ان سروں پر واقعی غیرت نے تاجِ سرِ دار کی دستاریں رکھیں۔ مگر خدا کے طے کردہ اصول کے تحت۔ وقت۔۔۔جی ہاں اپنے وقت پر۔
غربت احساس پیدا کرتی ہے۔ احساس سے اخلاص جنم لیتا ہے۔ اخلاص درد جگاتا ہے۔ درد سوز میں ڈھلتا ہے ۔ اورسوز کے بنا نہ کوئی عبادت نہ ہی ریاضت۔۔۔
یہ سوز صادقین کے دل میں جگے تو تصویر سے پہلے رنگ تصور میں اپنی شاہکار پینٹنگ پر ثبت ہو چکے ہوتے ہیں۔ تان سین کے دل میں گونجے تو گلے سے پہلے دھڑکنیں سات سروں کی مالا جپنے لگتی ہیں۔ روڈین کے من میں انگڑائی لے تو اسکے مجسموں میں گویا لہو بن کر دوڑنے لگے۔ یہ سوز غالب و میر کے دل میں ابھرے تو اردو کی آنکھیں غزال ہو جائیں۔
مگر میرے پچھلوں کا یہ سوز معیشت کی بیڑیوں میں قید رہا۔ کہیں ریلوے اسٹیشنوں پر سامنے آتے حرام کے دستر خوان سے ہاتھ کھینچتا ، کہیں سکولوں سے کالجوں تک علم بانٹتا ، کہیں سرزمینِ حجاز پر خون پسینہ بہاتا ، کہیں سرکاری دفتر بند ہونے پر ایک دم آسمان سے زمین پر گر کر بھی شکست خوردہ نہ ہوتا تو کہیں فولاد کو اپنے تن کی مٹی سے جوڑتا رہا۔
پروفیسر انکل جی نے کہا ! ایک ناول بناؤ ان کرداروں پر ، کوئی شک نہیں ہر کردار اپنے تئیں ایک الگ ناول ہے جفا و وفا کی ایک علیحدہ داستان۔ دشتِ افلاس کے راہ نوردوں نے کیسے اپنے من میں بستے سچے موتی ہماری گندم کے دانوں میں ملا دیے۔ جو ہمارے پاس ہے وہ آیا کیسے اس پر ایک ناول لکھوں گا ضرور۔ کیسے ان کے ہاتھوں کے سفید کاغذ ہمارے ہاتھوں کے تصویر والے رنگ برنگے کاغذوں میں بدلے۔ ایک کہانی میرے من میں ہے ۔ اب لکھوں کہ تب لکھوں۔ خدا وقت میں برکت دے۔
سوز کا ساز سے ملنا موسیقی ہے۔ پچھلوں میں کسی کے سوز میں شک نہیں مگر یہ سوز ، ساز کے سنگ نہیں ملا۔ اگلوں میں مگر ایک ہے جس کا درد سازگار ہوا، سوز ساز سے یوں ملا کہ ہوا میں سر بکھرنے لگے۔
شادیوں پر اکٹھے ہو کر گیت گانا ہمارا من پسند مشغلہ رہا ہے۔ وہاں یہ بچہ سا آیا کرتا تو شفقت علی خان کا “کھماج” یوں گاتا کہ سماں باندھ دیتا۔ دو ایک جگہوں پر اٹھان میں اپنی انوویشن لاتا تو دل کو اس پہ پیار بھی آتا رشک بھی۔
یہ منیب قریشی ہے میرا پھپھو زاد بھائی ۔ ایک ستارہ جو اپنے افق کے کہیں آس پاس ہے۔ انگریزی کے کہے “star in making” سے کچھ آگے پہنچ گیا۔ اس سے آگے آخری پڑاؤ ہے The destination۔ خدا کرے۔
سائنس خدا کو مانے نہ مانے خدا سائنس کو مانتا ہے اور میرے جیسے ادنی خدا کی اس اعلی ظرفی پر خدا کو اور بھی مانتے ہیں کہ خدا سائنس کا خالق ہے اپنی اس تخلیق تک پہنچتے اشرف مخلوقات پر اپنے مانے جانے کی قدغن نہیں لگاتا۔ اسی لیے ملائیت کا بیان کردہ خدا کبھی اپنی طرف مائل نہ کر سکا۔ بھلا ہو سائنس کا کہ جس نے ہمیں اپنے سوز کے اظہار کے لیے جدید وسائل مہیا کیے۔
بتایا ناں کہ وہ کیسیٹ کے متروک ہوتے عہد کا آخری چشم و چراغ ہے۔ انٹینے کی ڈی کے ذریعے چینل سیٹ کرتا آج یوٹیوب پر اپنا چینل بنا چکا۔ موسیقی کے افق پر اپنے مستقبل کے قطبی ستارے کے قریب پہنچ چکا۔
نظامِ مملکت اگر موزوں ہوتا تو شاید اسکی جدوجہد اتنی طویل نہ ہوتی۔ مگر اسکی جستجو پچھلوں سے طویل بحرحال نہیں۔ بہترین آواز ، سریلا انداز ، موسیقی کی سمجھ بوجھ اور باکمال گائیکی والا یہ جوان خدا کرے ملکی سطح پر اب پہچانا جائے اور اسے اپنے فن کے جوہر دکھانے کا بھرپور موقع ملے۔ جتنا خوب صورت وہ گاتا ہے مجھے یقین ہے کہ سنگیت میں متنوع تجربات کے ذریعے خود کو یکسانیت سے بچانے کی کوشش کرے گا۔

جینیات کی سائینس کو خدا کا سب سے بڑا آرٹ سمجھتا ہوں۔ اسکی جینیات کی راہیں دونوں اطراف سے ایک منزل پر یکجا ہوتی ہیں اس لیے اسکا اس سوز کو امر کر دینا ضروری ہے۔ کیونکہ اس سوز کو اپنی منزل پر پہنچنا ہی ہے انشاللہ۔ منیب قریشی بیسٹ آف لک۔۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں