• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • سماجی ہم آہنگی اور مذہبی رواداری پر قراقرم یونیورسٹی میں ورک شاپ

سماجی ہم آہنگی اور مذہبی رواداری پر قراقرم یونیورسٹی میں ورک شاپ

قراقرام انٹرنیشنل یونیورسٹی گلگت میں ۷ اور ۸ ستمبر ۲۰۱۶ءکو ”سماجی ہم آہنگی، مذہبی رواداری اور ہماری اجتماعی ذمہ داریاں“ کے عنوان پر اقبال مرکز برائے تحقیق ومکالمہ (بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد) اور قراقرم یونیورسٹی کے زیر اہتمام دو روزہ ورک شاپ کا انعقاد کیا گیا جس میں سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بنچ کے رکن جناب ڈاکٹر خالد مسعود، پشاور یونیورسٹی کے ڈین فیکلٹی آف اسلامک اسٹڈیز ڈاکٹر معراج الاسلام ضیائ، اقبال مرکز برائے تحقیق ومکالمہ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر حسن الامین، ائیر یونیورسٹی اسلام آباد کے استاذ جناب ندیم عباس، پیس اینڈ ایجوکیشن فاونڈیشن اسلام آباد کے رکن ڈاکٹر محمد حسین اور معروف اینکر پرسن سبوخ سید کے ساتھ ساتھ راقم الحروف کو بھی اظہار خیال کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔ ورک شاپ کی آخری نشست میں گلگت بلتستان کے وزیر اعلیٰ جناب حفیظ الحسن اور کور کمانڈر میجر جنرل عاصم منیر نے بھی شرکت کی، جبکہ قراقرم یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد آصف خان کے علاوہ مختلف شعبوں کے سربراہان، اساتذہ اور طلبہ وطالبات بھی بڑی دلچسپی اور انہماک سے دو روزہ ورک شاپ میں شریک رہے۔
راقم الحروف نے ورک شاپ کی ایک نشست میں ”مذہبی فرقہ واریت اور ہماری اجتماعی ذمہ داریاں“ کے عنوان پر جو گفتگو کی، اس کے اہم نکات حسب ذیل ہیں:
– اجتماعیت، اسلام کی بتائی ہوئی معاشرتی اقدار میں سے ایک بہت بنیادی قدر ہے۔ یہ ایک روحانی قدر بھی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کو انسانوں اور خاص طور پر مسلمانوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے نفرت، حسد اور بغض کے جذبات ہرگز پسند نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ ایک معاشرتی اور تہذیبی ضرورت بھی ہے، کیونکہ جو قومیں باہمی افتراق کا شکار ہو جائیں، ان کی توانائیاں خود کو کمزور کرنے میں صرف ہونے لگتی ہیں اور رفتہ رفتہ دشمن ان پر حاوی ہونے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
– اسلام میں اجتماعیت کا مفہوم یہ نہیں کہ مسلمانوں میں باہم اختلاف رائے نہ ہو، خاص طور پر یہ کہ مذہب کو سمجھنے یا اس پر عمل کرنے میں سب مسلمان ایک ہی انداز کے پابند ہوں۔ اجتماعیت کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان اختلاف رائے رکھتے ہوئے بھی باہم متحد رہیں اور اختلاف رائے کو نفسانی اسباب یا غلو کے زیر اثر باہمی افتراق کا ذریعہ نہ بنا لیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست دین سیکھنے والی جماعت، صحابہ کرام نے اپنے اجتماعی طرز عمل سے واضح کیا ہے کہ دین میں اختلاف رائے اور فرقہ واریت کے مابین کیا فرق ہوتا ہے۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے امیر المومنین عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں، حج کے موقع پر ان کے، ظہر اور عصر کی چار رکعتیں ادا کرنے پر سخت تنقید کی (کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما اس موقع پر دو رکعتیں ادا کیا کرتے تھے)، لیکن جب نماز کا وقت ہوا تو انھی کی اقتدا میں چار رکعتیں ادا کر لیں اور سوال کیے جانے پر فرمایا کہ (اختلاف کی بنیاد پر) مسلمانوں میں گروہ بندی پیدا کرنا بہت بری بات ہے۔
– دو چیزیں اختلاف رائے کو فرقہ واریت میں بدل دیتی ہیں۔ ایک، اپنی رائے کو حتمی اور فیصلہ کن سمجھنا اور مخالف نقطہ نظر کے لیے گنجائش تسلیم نہ کرنا۔ دوسری، مسلمانوں کو اپنی رائے کے گرد جمع کرنے اور دوسرے نقطہ ہائے نظر سے دور کرنے کے لیے گروہ بندی اور باہمی منافرت کو فروغ دینا۔ صحابہ کے دور میں اختلاف رائے موجود تھا اور بہت سے مذہبی معاملات کے فہم اور تعبیر میں شدید اختلاف پایا جاتا تھا، لیکن صحابہ نے اپنے نقطہ نظر کو حتمی قرار دیتے ہوئے مخالف نقطہ نظر کی کلی نفی کرنے کا نیز اس بنیاد پر عام لوگوں کو گروہوں میں تقسیم کرنے اور ان میں باہمی منافرت پھیلانے کا رویہ اختیار نہیں کیا۔ یہی اختلاف اور فرقہ واریت میں حد فاصل ہے۔ فرقہ پرست ذہن اپنی پیش کردہ مذہبی تعبیر کو حتمی اور فیصلہ کن سمجھتا ہے اور عام لوگوں کو اپنے ساتھ وابستہ کرنے کے لیے انھیں دوسرے نقطہ ہائے نظر کے لوگوں سے دور کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اس مقصد کے لیے مذہبی فتوے بازی کو بطور ہتھیار استعمال کرتا ہے۔
– فرقہ واریت کا تعلق صرف مذہبی اختلاف سے نہیں، ہر نوعیت کے اختلاف سے ہے۔ اگر مذہب کے علاوہ سیاسی، علاقائی اور نسلی اختلاف بھی ایسا رنگ اختیار کر لے کہ مختلف گروہ ایک دوسرے کی رائے کو برداشت نہ کر سکیں اور ان کی توانائیاں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے صرف ہونے لگیں تو بلاشبہ یہ بھی فرقہ واریت ہے۔ اس لیے اس موضوع کا تجزیہ کرتے ہوئے اسے صرف مذہبی گروہ بندی تک محدود نہیں رکھنا چاہیے، بلکہ فرقہ بندی کے تمام مظاہر کو زیر بحث لانا چاہیے، کیونکہ جس طرح مذہبی فرقہ واریت امت کی وحدت اور اجتماعیت کو مجروح کرتی ہے، بالکل اسی طرح سیاسی، نسلی اور فکری اختلافات اگر گروہ بندی اور حزبیت کی شکل اختیار کر لیں تو وہ بھی مسلمانوں کی اجتماعی قوت کو پارہ پارہ کر دینے کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔
– فرقہ واریت پورے معاشرے کا مسئلہ ہے، اس لیے اس کی ذمہ داری صرف اس طبقے پر نہیں ڈالی جا سکتی جو مذہبی ”قیادت“ کے منصب پر فائز ہے، اس لیے کہ کسی بھی رویے اور طرز فکر کو جب تک معاشرے کی طرف سے تائید اور حمایت نہ ملے، وہ جڑ نہیں پکڑ سکتا۔ فرقہ وایت کے سدباب کے لیے کردار ادا کرنا معاشرے کے تمام اہم طبقات کی ذمہ داری ہے۔ اس ضمن میں مذہبی راہ نماں کے ساتھ ساتھ سیاسی قیادت، ارباب اقتدار اور سب سے بڑھ کر سول سوسائٹی کو بھی اپنا بھرپور ادا کرنا ہوگا اور عوام الناس کے فکر وشعور کی سطح کو اس طرح بلند کرنا ہوگا کہ وہ کسی فرقہ وارانہ بیانیے سے متاثر ہو کر اسے اس کا دست وبازو بننے پر آمادہ نہ ہوں۔
– معاشرتی طبقات اگر درج ذیل چند نکات کے حوالے سے یکسو ہو جائیں اور ان سے متصادم کسی بھی مذہبی تعبیر یا بیانیے کی حوصلہ شکنی کی فضا پیدا ہو جائے تو فرقہ واریت کو بہت کم عرصے میں جڑ سے اکھاڑا جا سکتا ہے:
۱۔ مسلمانوں کے مابین مذہبی اختلاف بظاہر کتنا ہی سنگین ہو ، اس کی بنیاد پر تکفیر کا کوئی جواز نہیں۔ چنانچہ ہر ایسی مذہبی تعبیر یا بیانیہ جو تعبیری اختلاف کی وجہ سے کسی گروہ کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دینے پر زور دیتا ہو، اپنے ظاہر ہی کے لحاظ سے قابل رد ہے۔
۲۔ ہر مذہبی گروہ اپنے موقف کی تعبیر کا خود ہی حق رکھتا ہے، اس لیے کسی بھی گروہ کی زبان سے دوسرے گروہ کے موقف کی تعبیر قابل قبول نہیں۔
۳۔ تنقید اور اختلاف میں شائستگی کا دامن چھوڑنے اور اخلاقی حدود سے تجاوز کرنے پر ماحول کے ذمہ دار حضرات کو اپنی سماجی حیثیت اور دائرئہ اختیار کے مطابق اپنا رد عمل ظاہر کرنا چاہیے اور یہ واضح کرنا چاہیے کہ اشتعال انگیزی اور تحقیر واستہزا کا اسلوب قابل قبول نہیں۔
۴۔ مختلف گروہوں کے مابین ہر سطح پر سماجی میل جول اور مکالمے کا ماحول تسلسل کے ساتھ قائم رکھا جائے، کیونکہ غلط فہمیاں اور دوریاں پیدا ہونے کا ایک بہت بنیادی سبب یہی ہوتا ہے کہ مختلف خیال کے لوگ آپس میں ملنا جلنا چھوڑ دیں۔
بحیثیت مجموعی یہ ورک شاپ اپنے موضوع پر طلبہ وطالبات کی ذہن سازی کے حوالے سے بہت مفید اور کامیاب رہی، تاہم ورک شاپ کی آخری نشست میں گلگت بلتستان کے کور کمانڈر میجر جنرل عاصم منیر نے، اپنی گفتگو میں جہاں گلگت میں قیام امن اور خاص طور پر ایک نہایت پرامن ماحول میں انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے گلگت کی فوجی اور سول انتظامیہ کی مشترکہ کاوشوں کا ذکر کیا، وہاں بعض ایسی باتیں بھی کہیں جو پوری ورک شاپ کے مقصد اور مزاج کے بالکل برعکس تھیں۔ مثلاً انھوں نے سی پیک کے منصوبے کے معاشی واقتصادی فوائد بیان کرنے کے بعد ”حرف آخر“ یہ فرمایا کہ جو لوگ اس منصوبے کے حوالے سے سوالات اٹھا رہے ہیں اور ذہنوں میں شکوک وشبہات پیدا کر رہے ہیں، وہ آپ کے دشمن ہیں، اس لیے جب بھی کوئی شخص ایسی بات کرے تو ”آپ اس کا منہ توڑ دیجیے، بلکہ بہتر ہے کہ اس کا سر توڑ دیجیے۔“ اسی طرح مولویوں کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ ان سے اپنے مذہب کو واپس چھیننے کی ضرورت ہے۔ ہماری زندگی کے تین ہی اہم مواقع ہوتے ہیں، یعنی پیدا ہونا، شادی اور مرنا اور ہم نے یہ تینوں مولوی کے حوالے کیے ہوئے ہیں۔ آپ اذان دینے، نکاح اور جنازہ پڑھانے کا کام خود کر سکتے ہیں، کسی مولوی کی ضرورت نہیں۔ یہ انداز اظہار ورک شاپ کے بنیادی پیغام کے لحاظ سے تو محل نظر تھا ہی، اس پہلو سے بھی قابل اعتراض تھا کہ یہ احساسات وتاثرات بہرحال جنرل صاحب کے ذاتی احساسات تھے، جبکہ ورک شاپ میں وہ اپنے ادارے کی نمائندگی کرتے ہوئے وردی میں اور پورے فوجی پروٹوکول کے ساتھ تشریف لائے تھے۔ ان کے ذاتی خیالات کچھ بھی ہو سکتے ہیں، لیکن اپنی منصبی حیثیت میں گفتگو کرتے ہوئے انھیں کسی بھی موضوع پر اپنی بات کو اسی حد تک محدود رکھنا چاہیے تھا جو ان کے ادارے کا طے شدہ اور علانیہ موقف ہے۔

Facebook Comments

عمار خان ناصر
مدیر ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply