خاتون سے دست درازی۔۔مرزا مدثر نواز

وہ ایک جیولرز شاپ تھی جس میں بے پناہ رش تھا‘ خریدار اپنے من پسند زیورات کی جانچ کر رہے تھے اور دکاندار بڑے اطمینان سے گاہکوں کو نمٹا رہا تھا۔ دکان کے باہر اسلحہ سے لیس کوئی محافظ موجود تھا نہ ہی کوئی کیمرہ نظر آ رہا تھا۔ میں نے حیران ہو کر دکاندار سے پوچھا کہ آپ نے کوئی محافظ رکھا ہے نہ کیمرہ نظر آ رہا ہے‘ اس کی کیا وجہ ہے؟ اس نے مجھ سے پوچھا کہ میں کہاں سے ہوں؟ میں نے بتایا تو اس نے مسکرا کر جواب دیا‘ محترم یہ پاکستان نہیں بلکہ سعودی عرب ہے‘ یہاں کسی کی ہمت نہیں کہ کوئی چیز چوری کرے یا گن پوائنٹ پر پوری دکان کا صفایا کر دے۔ مقدس شہروں میں قطاروار متعدد جیولرز شاپس نظر آتی ہیں لیکن کسی ایک شاپ کے باہر اسلحہ سے لیس محافظ دکھائی نہیں دیتا۔

خالق کائنات نے کم و بیش اٹھارہ ہزار مخلوقات میں سے باقی حیوانوں سے الگ کر کے ایک حیوان حضرت انسان کو اشرف المخلوقات کا لقب دیا اور اسے عقل و خرد والی عظیم نعمت سے نوازا‘ اچھائی یا برائی کا راستہ چننے کا اختیار دیا اور ساتھ میں برائی سے بچنے اور بھلائی کا راستہ اختیار کرنے کے متعلق واضح ہدایات بھی جاری کر دیں‘ اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے برائی کے راستے پر چلنے والوں کو اپنے عذاب و ڈر جبکہ بھلائی کے راستے راستے پر چلنے والوں کو خوشخبری و اپنی خوشنودی کا پیغام پہنچایا۔حیوان اپنی شہوانی خواہشات کی تکمیل میں کسی قاعدے کا پابند نہیں ہوتا‘ ماں‘ بہن‘ بیٹی کی تمیز سے آشنا نہیں‘ جب جی چاہا‘ بنا کسی تمیز و رشتے کے شہوانی خواہش پوری کر لی۔

جنگل کے قانون کے تحت طاقتور‘ کمزور پر حاوی ہوتا ہے اور ہر قسم کے محاسبے سے مبراء ہوتا ہے۔یہ باتیں صرف جنگل یا حیوانات کی حد تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ جب سے یہ دنیا وجود میں آئی ہے اور جب تک باقی رہے گی‘ اس میں زندہ رہنے والے‘ جنگل کا قانون اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس والے محاوروں کی عملی اشکال دیکھتے‘ جھیلتے اور سنتے رہیں گے۔آپ جدید ترین ٹیکنالوجی‘ معیشت کی مضبوطی یا دوسرے عناصر کی بدولت ملکوں‘ شہروں‘ قصبوں‘ محلوں میں طاقتور‘ مضبوط یا بااثر ہیں تو آپ شتر بے مہارہیں‘ دوسرے ملکوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں‘ کروڑوں انسانوں کی موت کا سبب بن جائیں‘ جھوٹ کی بنیاد پر دوسرے ملکوں کے باسیوں کو جمہوریت اور بنیادی انسانی حقوق دلانے کی خاطر ان پر چڑھ دوڑیں‘ منتخب جمہوری حکومتوں کو گھر بھیج دیں اور جمہوری نمائندوں کو غدار قرار دے کر پھانسی کے تختے پر لٹکا دیں‘ ملکی آئین و قوانین کو پیروں تلے روند دیں اور خود کو ہر قسم کے قانون کو بالاتر سمجھیں‘ علاقے میں لوگوں کی زمینوں پر قبضے کریں‘ کمزوروں کی عزت و جان و مال سے کھیلیں‘ آپ کو کوئی پوچھنے والا نہیں‘ کوئی دہشت گردی کا لیبل نہیں لگائے گا‘ ہر مطالبہ منظور کیا جائے گا‘ تاریخ میں قوم و ملت کے خادم و وفادار و محسن لکھے جائیں گے‘ تھانے و کچہری آپ کے گھر کی لونڈی کا کردار نبھائیں گے اور ہر قسم کی گرفت سے آزاد رہیں گے۔

ایسے کون سے عوامل ہیں جن کی بدولت ایک انسانی معاشرے میں انسانیت کا غلبہ برقرار رہے اور حیوانیت مغلوب و دبی رہے؟

۱۔ سخت ترین ملکی قوانین کی عملی شکل میں موجودگی: ہر جرم کرنے والے کے دل میں یہ احساس و ڈر ہو کہ ایک نہ ایک دن وہ قانون کی گرفت میں ضرور آئے گا اور اپنے کئے کی سزا بھگتے گا۔ یورپی و ترقی یافتہ ممالک میں ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر اوقات تین دہائیوں یا زیادہ کے بعد بھی قاتل کی نشاندہی ہوتی ہے اور زندہ ہونے کی صورت میں اسے سزا کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔عرب‘ امریکہ‘ یا دوسرے یورپی ممالک میں اپنی زندگی کا بیشتر حصہ گزارنے والے جب پاکستان آتے ہیں تو کسی بھی طرح سے یہ تاثر نہیں ملتا کہ یہ لوگ وہاں ٹریفک و دوسرے قوانین کی پابندی کرتے ہوں گے‘ وجہ واضح ہے کہ یہاں قوانین کی عملی شکل میں موجودگی کا نہ ہونا ہے۔

۲۔اخلاقی تربیت: یہ وہ اخلاقی تربیت ہے جس کا پرچار سیکولر و کمیونسٹ طبقہ کرتا ہے‘ صرف اور صرف انسانیت کی بھلائی۔ نئی نسل کی ابتدائی طور پر سکول میں ہی یہ تربیت کی جائے اور انہیں بار بار تلقین کی جائے کہ آپ دنیا میں اکیلے نہیں ہیں بلکہ اردگرد آپ جیسے ہی دوسرے انسان ہیں جن کے ساتھ آپ نے عزت و احترام والا معاملہ کرنا ہے‘ کسی سے دست درازی نہیں کرنی‘ بالجبر کسی کی چیز پر دسترس حاصل نہیں کرنی‘ غصہ آئے تو کیسے اس سے نمٹنا ہے‘ دوسروں کے سکھ کا باعث بنیں نہ کہ دکھ کا‘ روڈ پر لائن و لین و ٹریفک سگنل کی ہر حال میں پابندی کرنی ہے‘ کسی بھی عوامی مقام پر لائن کی پابندی کرنی ہے‘ کوڑا کرکٹ گاڑی کا شیشہ نیچے کر کے اور بنا کسی شرمندگی کے روڈ کے عین وسط میں نہیں پھینکنا بلکہ کوڑا دان میں پھینکنا ہے‘ جہاں کہیں بھی گندگی نظر آئے کوشش کریں کہ اسے کوڑا دان میں پھینک دیں اور اسے اپنی توہین نہیں بلکہ ذمہ داری خیال کریں‘ وغیرہ وغیرہ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

۳۔آخرت کا ڈر: ایک اور سوچ یا ایمان جو انسان کو کسی بھی قسم کے صغیرہ و کبیرہ گناہ یا غیر قانونی عمل سے روکتی ہے‘ وہ مرنے کے بعد جی اٹھنا اور اس کے بعد جزا و سزا ہے۔ اگر انسان مکافات عمل کو سچ جانے کہ آج جو کچھ میں برا کرنے جا رہا ہوں‘ اس کا نتیجہ کل اس جہان میں مجھے بھگتنا پڑسکتا ہے یا پھر اس کی سزا مجھے آخرت میں ملے گی‘ تو یہ سوچ بھی اسے گناہ کرنے سے باز رکھے گی۔ اس کے لیے بھی نسل کی مذہبی و اخلاقی تربیت اور مذہب سے ان کا لگاؤ ہونا بہت ضروری ہے۔ ایک زمانے میں بچے کی تین درسگاہیں ہوا کرتی تھیں‘ مسجد‘ سکول اور سب سے اہم‘ گھر۔ مسجد میں درس و تدریس کی محافل میں بچوں کی بہت بڑی تعداد شرکت کرتی تھی اور محلہ کے فلاحی کاموں میں بھی ان کا حصہ ہوتا تھا۔سکول میں تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت پر بہت زور دیا جاتا تھااور برے کاموں سے بچنے کی بار بار تلقین کی جاتی تھی لیکن جب سے اچھے گریڈ اور پوزیشن لینے کی دوڑ شروع ہوئی ہے‘ استاد تربیت کی بجائے صرف کتاب تک محدود کر دیا گیا ہے جس کا نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے۔ بچے کی پہلی درسگاہ ماں کی گود ہے جو اسے ایک اچھا انسان بناتی ہے لیکن بدقسمتی سے یہ درسگاہ بھی آج سمارٹ فون کی بھول بھلیوں میں کھو چکی ہے۔ بہر حال سب سے مؤثر طریقہ پہلا ہی ہے۔
14 اگست 2021 کو مینار پاکستان کے سائے تلے خاتون سے دست درازی کے واقعہ نے بحیثیت قوم ایک دفعہ پھر ہمارے سر شرم سے جھکا دیئے ہیں اور ہماری اخلاقی تربیت پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ آپ کسی کے انفرادی فعل سے اختلاف کر سکتے ہیں‘ اس پر تعمیری و مثبت تنقید کرتے ہوئے اپنی رائے کا اظہار کر سکتے ہیں‘ کوئی براکام کر رہا ہے تو ایک دائرے میں رہتے ہوئے بزور طاقت اسے روک سکتے ہیں لیکن کسی کے ساتھ ایسا سلوک کیسے کر سکتے ہیں‘ وہ بھی ایک عورت کے ساتھ۔ ایک بے ہنگم ہجوم کویہ سب کرنے کا اختیار آخر کس نے دیا ہے‘ ریاست‘ معاشرے‘ مذہب نے؟کیا ہم عورت کی عزت و مقام کو بھول چکے ہیں؟ ہم تو اس مذہب کے ماننے والے ہیں جس نے عورت کو اس کا اصل مقام دیا‘ اس ہستیﷺ کے عاشق و پیروکار ہیں جو اپنے آخری خطبہ حج میں عورتوں کے حقوق اور ان کے ساتھ نیک برتاؤ کا حکم دیتے ہیں‘ خاتون کی آمد پر کھڑے ہو جایا کرتے تھے اور اپنی چادر مبارک بچھا دیا کرتے تھے۔ جس کے ساتھ آپ یہ قابل مذمت سلوک کر رہے تھے‘ آخر وہ بھی تو حوا وقوم و کسی کی بیٹی‘ شہزادی‘ بہن ہے۔ ہجوم کے ہاتھوں ایسے سلوک وہیں ہوتے ہیں جہاں قانون کو لوگ جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں اور اپنے دلوں میں اس کا کوئی خوف محسوس نہیں کرتے‘ جہاں اخلاقی قدریں مسلسل پستی کی طرف گامزن ہوتی ہیں۔

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
پی ٹی سی ایل میں اسسٹنٹ مینجر۔ ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply