علامہ طباطبائی اور علما کی توہین کا مسئلہ/حمزہ ابراہیم

بعض لوگ علما پر تنقید کو توہین قرار دیتے ہیں اور اپنے ذہن کو بند رکھنے کی کوشش میں غصے میں آ جاتے ہیں۔ صحیح روش یہ ہے کہ تنقید کرنے والے کی بات کو ٹھنڈے دماغ سے سمجھنا چاہیے اور اس کی غلطی کی نشاندہی کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگر اس کی بات درست ہو تو اسے مان لینا چاہیے۔ ورنہ اختلاف رائے کے حق پر اتفاق کر لینا چاہیے۔

علامہ طباطبائی نے علما پر بہت شدید تنقید کی ہے۔ ممکن ہے کچھ لوگ اسے فرانس سے آنے والے ہنری کاربن کی صحبت کا اثر سمجھیں۔ فرانس سے 1979ء میں ایک جہاز بھی آیا تھا۔ لیکن اس کی بنیاد پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ جدید دور میں ایران سے صوفیت کا پھیلاؤ مغرب کی سازش ہے۔ ممکن ہے بعض لوگ علامہ کی تنقید کو ان کے احساسِ کمتری کا اظہار سمجھیں جو مُلاصدرا کی فکر سے ان کو ملا ہو، یا مسلمانوں کو احساسِ کمتری میں مبتلا کرنے کی سازش سمجھیں۔ یہ روش درست نہیں۔ سازش کی عینک سے ہر بات کو دیکھنا کند ذہنی کی علامت ہوتا ہے، جو علمی جواب نہیں دے سکتے وہ الزامات کا سہارا لیا کرتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ مُلا صدرا کا ذہن مغرب زدہ اور فرسودہ یونانی فلسفے کا اسیر تھا لیکن علامہ طباطبائی کی شخصیت بہت پیچیدہ ہے۔ ان کے بارے کوئی رائے بنانے سے پہلے اردو میں ترجمہ شدہ کتاب ”سیر و سلوک“ کو کسی بلند پایہ اور متخصص ماہرِ نفسیات کے پاس لے جانا چاہیے۔

مُلا صدرا کی مغرب زدگی

مُلا صدرا اپنی کتاب مفاتیح الغیب میں مغربی مفکرین کی خدمت میں تو سلامِ عقیدت پیش کرتے ہیں [1] لیکن اسفار اربعہ میں علما کے بارے میں بہت سخت الفاظ لکھتے ہیں:

”یہ لوگ فی الحقیقت صرف بدعت و گمراہی کے علمبردار ہیں، جہال اور کمینوں کے پیشوا ہیں۔ ان کی ساری شرارتیں محض اربابِ دین و تقویٰ کے ساتھ مخصوص ہیں اور علماکو ہی نقصان اور ضرر پہنچاتے ہیں۔ ان کو سب سے زیادہ عداوت حکما کے اس گروہ سے ہے جو ایمان والے ہیں اور فلاسفہ کی جماعت میں جو ربانی ہیں۔ یہ جھگڑے والوں کا وہ طائفہ ہے جو معقولات کے اندر گھسنا چاہتے ہیں حالانکہ ابھی تک انہوں نے محسوسات ہی کا علم حاصل نہیں کیا۔ یہ براہین و قیاسات کو استعمال کرنا چاہتے ہیں حالانکہ ابھی ریاضیات کو بھی انہوں نے درست نہیں کیا ہے۔ یہ الہٰیات پر گفتگو کرنے کیلئے آمادہ ہو جاتے ہیں حالانکہ ابھی یہ طبیعیات کے مسائل سے بھی ناواقف ہیں۔“ [2]

زمانے کا ستم یہ ہے کہ خود مُلا صدرا کی طبیعیات (Science) باطل ثابت ہو چکی ہے۔ علامہ طباطبائی کو تو اس بات کی سمجھ نہ تھی کیونکہ وہ کبھی سکول بھی نہیں گئے، لیکن باقی افراد کو سوچنا چاہیے کہ اب الٰہیات کے بارے مُلا صدرا کے خیالات کی کیا وقعت رہ گئی ہو گی؟

فلوطین کے زندان میں

ایران کی دانشگاہ باقر العلوم کے استاد ڈاکٹر محمد مہدی گرجیان نے ثابت کیا ہے کہ مُلاصدرا نے خود ہی بہت سے فکری اصول اثولوجیا سے اٹھانے کا اقرار کیا ہے۔ [3] مثلاً: تجلی اور فیض و ظہور کا نظریہ کہ جس کے مطابق ممکنات حق کی تجلی کے آئینے ہیں اور حق ظہورِ واحد رکھتا ہے جو کہ واجب الوجود کا تعینات کے قالب میں نزول ہونا ہے (اسفار اربعہ، ج 2، ص 357)، حرکتِ جوہری (اسفار اربعہ، ج 3، ص 111)، عالمِ عقل کی صفات اور عالمِ اعلیٰ کا زندہ اور تام ہونا (اسفار اربعہ، ج 3، ص 340)، اتحادِ عقل و عاقل و معقول (اسفار اربعہ، ج 3، ص 427)، رابطۂ صَنم و مُثل (اسفار اربعہ، ج 6، ص 277)، ہر شے کی صفات کا عقل میں پایا جانا (اسفار اربعہ، ج 6، ص 281)، قاعدۂ بسیط الحقیقۃ کل الاشیاء (اسفار اربعہ، ج 7، ص 33)، دنیا کا ہیولا اور صورت سے ترکیب پانا (اسفار اربعہ، ج 7، ص 147)، قاعدۂ امکانِ اشرف (اسفار اربعہ، ج 7، ص 244)، قاعدۂ امکانِ اخس (اسفار اربعہ، ج 7، ص 258)، قاعدۂ الواحد لا یصدر منہ الا الواحد (اسفار اربعہ، ج 7، ص 273)، واحد سے چیزوں کا صادر ہونا (اسفار اربعہ، ج 6، ص 278؛ ج 7، ص 272)، وغیرہ وغیرہ۔

مُلا صدرا کی توحید بسیط الحقیقۃ کو کل الاشیاء سمجھنا ہے۔ یہ عقلاً محال ہے کیونکہ اجتماعِ نقیضین ہے۔ روشنی بھی اپنے ذرات کا مجموعہ ہوتی ہے، اس لئے ان کا کُل ہوتی ہے۔ اس میں شدت و ضعف اسی وجہ سے ہوتا ہے کہ وہ بسیط نہیں ہوتی۔ مُلا صدرا نے وحدت الوجود کا یہ عقیدہ فلوطین اور ابنِ عربی سے لیا ہے۔ ایران میں دسویں صدی ہجری میں قائم ہونے والی صفوی سلطنت ایک صوفی سلسلے کے گدی نشین نے قائم کی تھی۔ مُلا صدرا کا تعلق اشراف کے خاندان سے تھا اور دربار کی سوچ کی طرف ان کا جھکاؤ قابلِ فہم ہے۔

متقدمین کے بارے علامہ طباطبائی کی رائے

علامہ طباطبائی مُلا صدرا کی توحید کو درست سمجھتے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے ہر کسی کو رائے رکھنے کا حق ہے، غلطی کرنے کا بھی حق ہے۔ ہم سب غیر معصوم ہیں، لہٰذا تکثر اچھی چیز ہے۔ اسی سے علم ترقی کرتا ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ وہ پہلے ایک ہزار سال کے علماپر یہ الزام لگاتے ہیں کہ ان کا عقیدۂ توحید ٹھیک نہیں تھا۔ تفسیر المیزان میں علامہ موصوف فرماتے ہیں:

وأما أہل الکلام من الباحثین فاحتجاجاتہم علی التوحید لا تعطی أزید من الوحدۃ العددیۃ أیضا فی عین أن ہذہ الحجج مأخوذۃ من الکتاب العزیز عامۃ؛ فہذا ما یتحصل من کلمات أہل البحث فی ہذہ المسألۃ.

ترجمہ: ”جہاں تک متکلمین کی بات ہے تو ان کے توحید کے بارے دلائل ایسے ہیں کہ اگرچہ عموماً وہ قرآن سے اخذ شدہ دلائل ہیں لیکن ان سے عددی وحدت سے بڑھ کر کچھ حاصل نہیں ہوتا ہے۔ یہی اس مسئلے میں اہلِ بحث کے کلام کا حاصل ہے۔“

فالذی بینہ القرآن الکریم من معنی التوحید أول خطوۃ خطیت فی تعلیم ہذہ الحقیقۃ من المعرفۃ، غیر أن أہل التفسیر والمتعاطین لعلوم القرآن من الصحابۃ والتابعین ثم الذین یلونہم أہملوا ہذا البحث الشریف، فہذہ جوامع الحدیث وکتب التفسیر المأثورۃ منہم لا تری فیہا أثرا من ہذہ الحقیقۃ لا ببیان شارح، ولا بسلوک استدلالی.

ترجمہ: ”لہٰذا توحید کے معنی کے بیان میں جو کچھ قرآنِ کریم میں آیا ہے وہ معرفت کی اس حقیقت کی تعلیم میں پہلا قدم ہے۔ لیکن مفسرین اور قرآن کے معارف کی وضاحت کی کوشش کرنے والے، چاہے معصومین ؑ کے اصحاب ہوں یا تابعین ہوں یا ان کے بعد آنے والے لوگ ہوں، سب نے اس بحث کو مہمل رکھا ہے۔ تفاسیر اور حدیثوں کے مجموؤں میں، نہ شارح کے بیان میں اور نہ ہی استدلال میں اس حقیقت کے بیان کا کوئی اثر دکھائی دیتا ہے۔“

ولم نجد ما یکشف عنہا غطاءہا إلا ما ورد فی کلام الإمام علی بن أبی طالب علیہ أفضل السلام خاصۃ، فإن کلامہ ہو الفاتح لبابہا، والرافع لسترہا وحجابہا علی أہدی سبیل وأوضح طریق من البرہان، ثم ما وقع فی کلام الفلاسفۃ الإسلامیین بعد الألف الہجری، وقد صرحوا بأنہم إنما استفادوہ من کلامہ علیہ السلام. [4]

ترجمہ: ”ہم نے اس سے پردہ اٹھانے والی کوئی بات نہیں دیکھی سوائے اس کے کہ جو امام علی ابن ابی طالب ؑ کے کلام میں آیا ہے۔ بے شک ان کا کلام اس دروازے کا تالا کھولتا ہے اور اس چھپے راز سے پردہ اٹھاتا ہے۔ انہوں نے واضح انداز میں روشن دلیل کے ساتھ اس کی تشریح اور اثبات کیا ہے۔ ان کے بعد دسویں صدی ہجری کے بعد آنے والے مسلم فلاسفہ کے کلام میں یہی حقیقت جلوہ گر ہے۔ انہوں نے صراحت سے اقرار بھی کیا ہے کہ انہوں نے یہ بات آنحضرت ؑ کے کلام سے استفادہ کر کے سیکھی ہے۔“

ممکن ہے بعض لوگوں کو یہ باتیں پہلے ایک ہزار سال کے شیعہ سنی علما کی توہین محسوس ہوں۔ توحید جیسے اہم معاملے میں، کہ جس کے بارے کہا گیا ہے کہ أَوَّلُ اَلدِّینِ مَعْرِفَتُہُ، سب کو غلط فہمی کا شکار قرار دینا بہت سنگین بات ہے۔ یہ دنیاوی علوم کا کوئی مسئلہ نہیں ہے، اصولِ دین کی بات ہے۔ اگر یہ محض علمی تنقید ہے تو اس کا لائسنس صرف علامہ کے پاس تو نہیں ہے۔ دسویں صدی ہجری کے بعد آنے والے مسلم فلاسفہ سے مراد مُلا صدرا (متوفیٰ 1045 ہجری) اور ان کے پیروکار ہیں۔ مُلاصدرا کی کتب سے ظاہر ہے کہ انہوں نے فلوطین کے کلمات کے ظاہر کو عقل کی گرہ بنا لیا، جو اسلام کی آمد سے پہلے یہ فلسفہ پیش کر چکا تھا۔ [3] فلوطین مصر میں پیدا ہوا تھا اور بعد میں اپنے مغربی آقاؤں کے پاس روم چلا گیا اور وہیں فوت ہوا۔ وہ اور اس کے پیروکار ہمیشہ حضرت عیسٰی ؑ کی مخالفت پر کمر بستہ رہے۔ رومیوں نے جب مسیحیت کو قبول کیا تو یہ لوگ ان کے زیر اثر علاقوں سے نکل کر عرب و ایران چلے گئے۔ [5]یوں نوفلاطونیت کا سلسلہ ابوجہل تک پہنچتا ہے۔ مشرکینِ مکہ اسی فلسفے سے متاثرتھے۔

آیۃ اللہ العظمیٰ صافی گلپائگانی نے علامہ طباطبائی کے نظریۂ توحید کو اپنی کتاب”نگرشی بر فلسفہ و عرفان“ میں باطل ثابت کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ ان کو بھی علامہ کی طرح اپنی رائے رکھنے کا حق ہے۔ دلچسپی رکھنے والے اس کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ وہ فرماتے ہیں:

توصیف خدا بہ «غیر متناہی» و «مَن ہُوَ مُحِیطٌ بِوُجودِهِ عَلی ما سواهُ» مطلب دیگری است کہ با این دریافت ہا سازش ندارد و بہ قول شما بعد از ہزار سال طرحی را می ریزد کہ برای این کہ گفتہ نشود این طرح جدید و جدا از ہدایتِ انبیاء و مکتبِ اسلام و اہل بیت علیہم السلام است تلاش کردہ اید بگویید: «در کلمات حضرت مولی الموحدین بہ آن اشارہ شدہ و پیشینیان بہ آن نرسیدہ اند.» [6]

ترجمہ:” خدا کے «غیر متناہی» اور «مَن ہُوَ مُحیطٌ بِوُجودِهِ عَلی ما سِواهُ» ہونے کی صفت کا مطلب کچھ اور ہے، جو ان دریافتوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔ آپ خود مان رہے ہیں کہ یہ معنی ہجرت کے ہزار سال بعد تجویز ہوا ہے۔ اس خوف سے کہ لوگ یہ نہ کہیں کہ یہ نئی تشریح ہے اور انبیاء ؑ اور مکتبِ اسلام اور اہلبیت ؑ کی تعلیمات کے منافی ہے، یہ کہہ رہے ہیں کہ: «حضرت مولی الموحدین علیہ السلام کے کلام میں اس کی طرف اشارہ ہوا، مگر متقدمین اس کو پا نہ سکے»۔“

متاخرین کے بارے علامہ طباطبائی کی رائے

مسلم فلاسفہ کو چھوڑ کر باقی متاخرین کے بارے بھی علامہ طباطبائی کی رائے اچھی نہیں ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ مدارس کا نظام ایسا ہے کہ کوئی شخص قرآن کو چھوئے بنا بھی مجتہد بن سکتا ہے۔ [7] یاد رہے، علامہ خود سائنس کی تعلیم حاصل کئے بنا فلسفی بنے بیٹھے تھے اور سائنس کے موضوعات، حرکت، روشنی، ماہیتِ اشیاء، وغیرہ، پر غلط سلط باتیں لکھتے رہتے تھے۔

حوالہ جات

1۔ ملاصدرا،” مفاتیح الغیب“، صفحات 379 و 380، انجمن اسلامی حکمت و فلسفہ ایران، تہران، 1984ء۔

2۔ ملا صدرا، ”اسفار اربعہ“، جلد 1، صفحہ 363، دار احیاء التراث العربی، بیروت، 1981ء۔

3۔ محمد مہدی گرجیان، نرجس رودگر،”انعکاس فلسفہ فلوطین در حکمت صدر المتألہین“، حکمت اسراء، بہار، شمارہ 11، 1391۔

4۔ علامہ طباطبائی، ”تفسیر المیزان“، جلد 6، صفحہ 104، منشورات اسماعیلیان۔

5۔ سید علی عباس جلالپوری، ”روایاتِ فلسفہ“، باب: نوفلاطونیت، خرد افروز، جہلم۔

6۔ آیۃ اللہ العظمیٰ صافی گلپائگانی، ”نگرشی بر فلسفہ و عرفان“، صفحہ 32، انتشارات دلیل ما، 1399۔

7۔ علامہ طباطبائی، ”تفسیر المیزان“، جلد 5، صفحہ 276، منشورات اسماعیلیان۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اسے بھی پڑھئے: روشنی کے بارے علامہ طباطبائی کی غلط فہمیاں

Facebook Comments

حمزہ ابراہیم
ادائے خاص سے غالبؔ ہوا ہے نکتہ سرا § صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply