یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے/شہزاد ملک

ارادہ تو کر لیا تھا کہ اگلے حج میں انشااللہ ہم بھی شامل ہوں گے اس لئے جب چھٹی پر پاکستان آئے تو حج کے لئے درکار ضرورت کی ہر چیز ہم یہاں سے خرید کر ساتھ لے گئے ،صومالیہ واپس جا کر ہم بےتابی سے ذوالحج کے مہینے کا انتظار کرنے لگے ،ہمارے بچے بھی بڑے پرجوش تھے، چھوٹی بیٹی پاکستان سے سیکھے ہوئے الفاظ اکثر دہراتی رہتی۔۔

اللہ جی میں کلی آں۔ شہر مدینے چلی آں
شہر مدینہ دور اے۔ جانا بھی ضرور اے

اس کی توتلی زبان سے یہ الفاظ بہت اچھے لگتے اور ہم آمین اور انشا اللہ کہتے رہتے

یہ وہ وقت تھا جب اسلامی ملکوں میں پاکستان کی بڑی عزت اور توقیر تھی صومالیہ میں بھی ملک صاحب کی حکومتی حلقوں میں بڑی قدرو منزلت تھی ان کا ہر کام ترجیحی طور پر کیا جاتا حج کا موسم قریب آتے ہی انہوں نے صومالی حکومت کو حج کی درخواست دی جو بلا تاخیر منظور کر لی گئی اور ہمارے پاسپورٹ ضروری کاروائی کے لئے صومالی دارالحکومت موغادیشو بھجوا دئیے گئے۔ سعودی عرب کا ویزا ہمارے جانے پر لگنا تھا حج شروع ہونے سے کچھ دن پہلے ہم موغادیشو پہنچ کر ایک ہوٹل میں مقیم ہوگئے ،ملک صاحب کے دفتر والوں نے اپنے خصوصی خط کے ساتھ ہمارے پاسپورٹ سعودی سفارت خانے میں بھیج دئیے تھے ،اس وقت بچوں کے نام میرے پاسپورٹ پر درج تھے ابھی ان کے الگ سے پاسپورٹ نہیں بنے تھے ۔ہم سعودی ایمبیسی گئے اور ویزا کی مہریں لگے پاسپورٹ لے کر مطمئن ہو کر ہوٹل آگئے ،موغادیشو سے کسی معلم کے ساتھ معاملات بھی طے ہوگئے تھے۔اگلے دن آخری حج فلائیٹ پر ہماری سیٹیں بک تھیں رات تین بجے ہمیں ائر پورٹ پہنچنا تھا دفتر کی گاڑی وقت مقررہ پر ہوٹل سے ہمیں لینے پہنچ گئی ملک صاحب کے پروجیکٹ مینجر نے ہرگیسہ سے چلتے وقت بتایا تھا کہ ائرپورٹ پر اس کی طلاق شدہ بیوی بڑے اچھے عہدے پر کام کر رہی ہے اگر کسی مدد کی ضرورت ہو تو اسے بتا دیں وہ مدد کرے گی، ہمیں اس پر بڑی حیرت ہوئی، ہمارے ہاں تو طلاق کے بعد فریقین ایک دوسرے کا نام تک لینا گوارہ نہیں کرتے یہ کیسے میاں بیوی ہیں کہ رشتہ ختم ہونے کے بعد بھی ایک دوسرے کے لئے اتنا احترام رکھتے ہیں ۔ان کے تین بچے باری باری ماں باپ کے پاس رہتے اور والدین ان کو ملنے ایک دوسرے کے گھر آتے جاتے تھے اور آپس میں کوئی رنجش اور کدورت پال کر نہیں رکھی ہوئی تھی۔

بہر حال ائیرپورٹ پہنچ کر ان خاتون کو ڈھونڈا گیا ،وہ بڑے تپاک سے ملیں اور اپنے آفس میں بٹھایا جب فلائٹ کے لئے بریفنگ شروع ہوئی تو انہوں نے اپنا ایک آدمی ملک صاحب کے ساتھ مدد کے لئے بھیج دیا میں اور بچے ادھر ہی ان کے آفس میں بیٹھے رہے کچھ وقت گذرا تھا کہ ملک صاحب کچھ پریشان سے واپس آئے اور بتایا کہ کاؤنٹر پر پاسپورٹ چیک کرنے والے نے بتایا ہے کہ ملک صاحب کا ویزا تو ٹھیک ہے لیکن میرے پاسپورٹ پر میرے نام کے بعد بچوں کا ذکر نہیں ہے ،اصولی طور پر میرے نام کے بعد و للاطفال کے لفظ کا اضافہ ہونا ضروری تھا جس کا مطلب یہ ہوتا کہ میرے ساتھ ساتھ بچوں کا بھی ویزا لگا ہے اس لفظ کے بغیر یہ صرف میرا ویزا تصور کیا جائے گا بچوں کا نہیں اور اس صورت میں جدہ ائیرپورٹ پر بچوں کو سعودی عرب میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا۔

یہ بڑی گھمبیر صورت حال تھی جس کے لئے ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا میں نے اپنے روتے ہوئے دل کو سنبھال کر تجویز دی کہ ملک صاحب اکیلے حج کے لئے چلے جائیں وہ خاتون میرے اور بچوں کے لئے پاکستان جانے کا بندوبست کردیں لیکن ملک صاحب نے بڑی سختی سے اس تجویز کو رد کر دیا ان کا کہنا تھا کہ سال بھر سے ہم نے اکٹھے اپنے بچوں سمیت خانۂ خدا پر حاضری دینے کا پروگرام بنا رکھا ہے تو اب ایسی کوئی تجویز مجھے قبول نہیں جس میں آپ سب میرے ساتھ نہ ہوں، اس معاملے میں وہ خاتون بھی بے بس تھیں یہ آخری حج فلائیٹ تھی اور وہ ہماری کوئی مدد نہیں کر سکتی تھیں ملک صاحب نے فیصلہ سنا دیا کہ ہم اگلے سال حج پر چلے جائیں گے اس سال سمجھ لیتے ہیں ہمارا ادھر سے بلاوا نہیں آیا ،بھری آنکھوں اور بجھے دل کے ساتھ ملک صاحب واپسی کے لئے دفتر کی گاڑی کا پتہ کرنے گئے جو ابھی تک ادھر ہی رکی ہوئی تھی اسی اثنا میں کچھ اناؤنسمنٹ سنائی دی ہم نے توجہ نہ دی کہ مسافروں کو جہاز پر بورڈنگ کے لئے کہا جارہا ہوگا لیکن وہ خاتون اناؤسمنٹ سنتے ہی تیر کی طرح ملک صاحب کے پیچھے لپکیں، ہمیں بھی اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا میں بھی بچوں سمیت ان کے پیچھے بھاگی انہوں نے ملک صاحب کو آواز دے کر روکا اور بتایا کہ چھ بجے جدہ کے لئے روانہ ہونے والے جہاز میں کوئی خرابی پیدا ہوگئی ہے یہ فلائیٹ کینسل ہو گئی ہے اب پہلے سے گیا ہوا جہاز واپس آئے گا تو اس پر یہ مسافر بھیجے جائیں گے اتنے میں اڑھائی تین تو بج ہی جائیں گے ملک صاحب لگتا ہے اللہ کو آپ کی حاضری منظور ہے آپ وقت ضائع کئے بغیر کوشش کر دیکھیں کہ ویزے کا سقم دور کرا سکیں ہمارا سامان پہلے ہی گاڑی میں رکھا جا چکا تھا ہم سب بھی بیٹھ گئے اور گاڑی فراٹے بھرنے لگی ہوٹل زیادہ دور نہیں تھا اور ابھی ہمارا کمرہ بھی خالی تھا ملک صاحب نے مجھے اور بچوں کو ہوٹل پر اتارا، صبح کے آٹھ بج رہے تھے سعودی ایمبیسی کے دفاتر کھلنے میں ایک گھنٹہ باقی تھا ملک صاحب نے اپنے دفترمیں اطلاع کر کے سارا ماجرا بتا دیا ادھر سے کہا گیا آپ سفارت خانے پہنچیں ہم کچھ کرتے ہیں انہوں نے ایمبیسی والوں کو فون کرکے مدد کی درخواست کردی، بھاگم بھاگ وہاں پہنچے دفتر کھل گیا تھا مگر جس خاتون نے میرا ویزا لکھا تھا وہ چھٹی پر تھی وللاطفال کا لفظ اس کو ہی لکھنا تھا کوئی اور لکھتا تو جعل سازی سمجھی جاتی، اب اس خاتون کے گھر کا ایڈریس جاننے والے ایک آدمی کو ساتھ لے کر ملک صاحب نے ان محترمہ کے گھر کا رخ کیا جب انہیں اس ساری افتاد کے بارے میں معلوم ہوا تو اپنی ذرا سی کوتاہی پر بہت نادم ہوئیں اور معذرت کرتے ہوئے بتایا کہ جس قلم سے انہوں نے ویزے کے الفاظ لکھے تھے وہ قلم تو دفتر میں پڑا ہے کسی اور قلم سے لکھا ہوا لفظ مشکوک ٹھہرے گا سعودی تو بال کی کھال اتارتے ہیں اور ذرا سے نقص پر کوئی رو رعایت کئے بغیر ویزا رد کردیتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

اُف ! وقت تھا کہ پر لگائے اڑا چلا جارہا تھا ائیرپورٹ سے ان خاتون نے فون پر بتایا کہ تین بجے اگلی فلائیٹ کا وقت ہے اور یہاں ایک کے بعد دوسری رکاوٹ کا سامنا تھا اب ایمبیسی والی خاتون سے درخواست کی گئی کہ وہ مہربانی کریں ساتھ ایمبیسی چلیں اور ہمارا مسئلہ حل کریں معاملے کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے وہ راضی ہو گئیں ان کو ساتھ لے کر ملک صاحب ایمبیسی آئے خاتون نے اپنا کمرہ کھولا وہ تاریخی قلم پکڑا اور میرے پاسپورٹ پر ہمارا نصیب کھولنے والا وہ ایک لفظ تحریر فرمایا جس کی عدم موجودگی سے ہم پر در کعبہ اور در رسول بند ہوجانے والے تھے ۔ادھر میں اور بچے انتظار کی سولی پر لٹکے ہوئے تھے، ہوٹل والوں نے کمال مہربانی سے ہمارے لئے بہت اچھا ناشتہ بھیجا ،بچوں نے تو کھا لیا مگر مارے گھبراہٹ کے میرے حلق سے پانی بھی نہیں اتر رہا تھا ،ایک بجے ایئرپورٹ جانے کا وقت تھا مگر ملک صاحب کا کچھ پتہ نہ تھا اللہ اللہ کرکے ڈیڑھ بجے یہ آئے، ہمیں گاڑی میں بٹھایا اور گاڑی آندھی اور طوفان کی رفتار سے ایئرپورٹ کی طرف بھاگی، یہ شکر تھا کہ ائر پورٹ دور نہیں تھا آگے ایئرپورٹ والی خاتون منتظر تھیں انہوں نے ساتھ کھڑے ہوکر سامان کی بکنگ اور بریفنگ کرائی بورڈنگ پاس لے کر ملک صاحب کو پکڑائے تو جان میں جان آئی، وہ اللہ کی بندی جہاز کی سیڑھیوں تک ہمیں چھوڑنے آئیں اور ائیر ہوسٹس کو ہمارا خاص خیال رکھنے کی تاکید کر کے گئیں، جب جہاز فضا میں بلند ہوگیا تو اپنے نصیب کی یاوری کا تب یقین آیا ہمارے لئے یہ سب ایک معجزے سے کم نہیں تھا جو بات بظاہر ناممکن لگ رہی تھی اسے ممکن بنانے کے لئے اللہ کی تائید و نصرت کیسے پہنچی اور حالات کیسے سازگار ہوتے چلے گئے عقل آج تک حیران ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply