سیاست میں ٹائمنگ کی اہمیت/عاصم اللہ بخش

سر ! آپ نے بھی مشاہدہ کیا ہوگا، جب ہم کسی کے ہاں تعزیت کے لیے جاتے ہیں تو وہاں موجود لوگ پہلا سوال یہ پوچھتے ہیں مرحوم کو کیا ہوا تھا۔ اس پر مرنے والے کے لواحقین بتاتے ہیں کہ فلاں بیماری تھی، بہت علاج کروایا، ہر جگہ کی خاک چھانی لیکن ہونی ہو کر رہی اور مرحوم زندگی کی بازی ہار گئے۔ اس پر جب کوئی یہ کہتا ہے کہ آپ انہیں فلاں ڈاکٹر، فلاں اسپتال لے جاتے تو، شاید ۔۔ ؟ اس پر وہاں بیٹھے کم و بیش سب لوگ ایک بات کہتے ہیں، جناب جب “وقت” آ جاتا ہے تو پھر بہانہ ہی بنتا ہے، بیماری کا تو بس نام ہوتا ہے۔

کچھ ایسی ہی بات معروف مصنف وکٹر ہیوگو نے بھی کہی، جب کسی آئیڈیا کا وقت آ جاتا ہے تو پھر دنیا کی کوئی طاقت اسے روک نہیں پاتی۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کیونکہ وہ ایک لمبا سفر طے کر کے اس پختگی کو پہنچ جاتا ہے جہاں اس سے صرفِ نظر محض خود فریبی کو جنم دیتا ہے، جبکہ ہونی ہو کر رہتی ہے۔

سر، کچھ ایسی ہی صورتحال وطن عزیز پاکستان میں بھی ہے۔

پاکستانی قوم اور اس کی سیاسی قیادت اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ یہاں پر سیاست اب سیاست دان ہی کریں تو بہتر ہے۔ عمران خان کی حیثیت تو اس بہانہ کی ہے جس کا ذکر مندرجہ بالا سطور میں ہوا۔ اصل بات یہ ہے کہ اس “آئیڈیا” کا وقت آگیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور افواج اپنا کام کریں اور سیاست دان اپنا کام۔ بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ ہم آئیڈیا کے بجائے بہانہ پر فوکس کیے ہوئے ہیں۔ اس سے مسئلہ گمبھیر ہو جانے کا خدشہ ہے۔ حالیہ انتخابات اسٹیبلشمنٹ کے لیے مشکل ترین انتخابات تھے۔ امکان ہے کہ اگر اصل قضیہ کا حل نہ نکالا گیا تو اگلے انتخابات اور بھی مشکل ہو جائیں۔ عین ممکن ہے یہ سب اس سے قطع نظر ہو کہ عمران خان سیاسی منظرنامہ پر موجود ہیں یا نہیں۔

سر، اس میں خفا ہونے والی بات نہیں ہے۔ ہم ،آپ، سب اسی ملک کے باسی ہیں، اس سے محبت کرتے ہیں، ہم سب کو اس پر غور کرنا چاہیے۔ اگر عمران خان نہیں ہوں گے تو کوئی اور آ جائے گا۔ تاہم مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ حسین شہید ہی نہیں ہوں گے تو پھر کسی مجیب الرحمن سے ڈیل کرنا پڑتا ہے۔ میں اس سے بعد کی مثالیں دی الحال نہیں دوں گا۔ بہت بہتر ہوتا حسین شہید اور وردی سے ہی ڈیل ہو جاتی۔

بہرحال، اصل بات ایک فرد کی نہیں National Sentiment کی ہے۔ اگر آپ کو اس بابت کوئی ابہام ہے تو آپ پاکستان کی ساری سیاسی قیادت کو بلا لیجئے اور انہیں کہیں کہ جو بات وہ کریں گے اس کمرے کے اندر ہی رہے گی، پھر ان سے پوچھیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ چاہے وہ پرو اسٹیبلشمنٹ ہیں یا اینٹی اسٹیبلشمنٹ، مذہبی جماعتیں ہیں یا قوم پرست، سب کے سب اس بات کو کہیں گے کہ سیاست سیاست دانوں تک رہنے دیں۔

یہاں ایک سوال یہ اٹھتا ہے کہ آیا سیاست سے پیچھے ہٹ جانے سے فوج یا اسٹیبلشمنٹ کی قدر کچھ کم ہو جائے گی ؟

میرا جواب ہو گا، ایسا نہیں ہے۔ آپ دیکھیے 1947 میں پاکستان اور ہندوستان آزاد ہوئے، اصل شیڈول غالباً سن 1948 کی کوئی تاریخ تھی، لیکن جب حکومتِ برطانیہ نے دیکھا کہ معاملات ہاتھ سے نکل سکتے ہیں انہوں نے 1947 میں ہی یہ کام کر دیا کیونکہ انہیں لگا اگر اب مزید دیر ہوئی تو معاملات سنورنے کی بجائے کہیں بگڑ نہ جائیں۔ یہی کام انہوں نے کم و بیش اپنی تمام کالونیوں کے ساتھ کیا، نتیجہ دیکھیے، وہی جو کل ان سے آزادی کے خواہاں تھے آج بھاگ بھاگ کر اسی برطانیہ کی برٹش کامن ویلتھ میں شمولیت کے لیے ایک دوسرے سے آگے نکلے جاتے ہیں۔ ان ممالک کے لوگ برطانیہ کی عزت کرتے ہیں اور آج بھی اس کے دور کو یاد کرتے ہیں۔ یہ ٹائمنگ کا بھی بہت پُر لطف معاملہ ہے، وقت پر ہو تو سجدہ وقت گزر جائے تو ٹکریں۔

ہمیں بحیثیت قوم آگے بڑھنے کے لیے من حیث القوم جرات مندانہ فیصلے کرنے ہوں گے۔

ملک کا مفاد کسی بھی ادارے یا “وسیع تر مفاد” نامی کسی بھی چیز سے زیادہ وسعت کا حامل ہے۔خوش قسمتی سے یہ سب کرنے کے لیے ہمارے پاس پاکستان کا آئین موجود ہے جو اس حوالے سے کلیدی اور حتمی حیثیت کا حامل ہے۔ آئیے اس سے رہنمائی لیں اس پر اس کی روح کے مطابق عمل کو خود پر لازم کر لیں۔ آئین کی تروڑ مروڑ سے ملک کا جغرافیہ بھی چرچرانے لگتا ہے۔ اس کی من چاہی “تشریحات” در حقیقت صرف ابہام کو مزید بڑھانے کا سںبب بنتی ہیں۔ ہمیں اسلام کی طرح خود اس کے دائرے میں آنا ہے نہ کہ اسے اپنے دائرے میں لانے کے چکر میں پڑیں۔ آخر الذکر کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے، ملک و قوم کے لیے دائروں کا سفر ہے کہ ختم ہونے میں ہی نہیں آ رہا۔

الغرض، خواہ ہم سیاست دان ہیں، حکمران ہیں، اپوزیشن ہیں، فوج ہیں، بیوروکریسی ہیں، عدالت ہیں یا پھر عام آدمی ۔۔۔ آئین کی پاسداری میں ہی بقا بھی ہے اور قومی وقار بھی۔ یہ ہم سب کو ایک مساوات سے ڈیل کرتا ہے، سب کے حقوق و فرائض طے کرتا ہے۔ اسی پر عمل کرنے میں سب کی بھلائی ہے اور سب سے بڑی بات ۔۔ صرف پاکستان کا دستور ہی ہمیں ایک قوم اور ایک مملکت کی صورت برقرار رکھنے کی صلاحیت اور طاقت رکھتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پاکستان زندہ باد، افواج پاکستان پائندہ باد !

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply