• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • پاکستان کا خیر خواہ – کیا واقعی؟/غیور شاہ ترمذی

پاکستان کا خیر خواہ – کیا واقعی؟/غیور شاہ ترمذی

امریکی اسٹیبلشمنٹ کے وہ اہم ہرکارہ  اگرچہ اپنی زندگی کی 72 ویں سالگرہ آج امریکہ میں منا رہا ہے لیکن وہ پیدا افغانستان کے شہر مزار شریف میں ایک مقامی قبیلہ نورزئی میں 22 مارچ سنہ 1951ء کو ہوا تھا۔ اُس کی پیدائش کے کچھ عرصہ بعد ہی اُس کی فیملی کابل شفٹ ہو گئی جہاں اُسے ابتدائی تعلیم ایک مشہور سکول (Ghazi Lycée school) میں شروع کرنے کا موقع ملا۔ اُن دنوں امریکہ اور افغانستان کے درمیان AFS Intercultural Program نامی ایک سٹوڈنٹ ایکسچینج پروگرام چلا کرتا تھا جس کے تحت افغانی بیوروکریسی اور بڑے سرداروں کے ساڑھے 12 ہزار سے زیادہ بچے امریکی سکولوں میں تعلیم حاصل کر چکے ہیں۔ اُسے بھی اس پروگرام کے تحت اپنی سکولنگ کیلی فورنیا کے شہر Ceres میں مکمل کرنے کا موقع ملا۔ سکول مکمل کرنے کے بعد اُس نے پولیٹیکل سائنس میں اپنی گریجوایشن اور ماسٹرز ڈگری لبنان کے شہر بیروت میں واقع امریکن یونیورسٹی ان لبنان میں مکمل کی۔ یہاں دورانِ  تعلیم یورپ کے ملک آسٹریا سے تعلق رکھنے والی کلاس فیلو شیرل بینرڈ سے زوردار عشق ہوا اور دونوں نے اپنی گریجوایشن کے دوران ہی شادی کر لی۔ اس شادی کی اہم بات یہ تھی کہ دونوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنا مذہب تبدیل کر کے شیرل کے مذہب پر منتقل ہو گا، اُن کے بچوں کے نام شیرل بینرڈ کے خاندانی نام بینرڈ پر رکھے جائیں گے اور دونوں امریکہ منتقل ہوں گے جہاں وہ پولیٹیکل سائنس میں پی ایچ ڈی کریں گے۔ اُن دونوں کے 2 بیٹے ہوئے جن کے نام الیگزینڈر بینرڈ Alexander Benard اور میکسی میلین بینرڈ Maximilian Benard ہیں۔

شادی کی شرط کے دوسرے حصّے کے طور پر دونوں امریکہ چلے آئے، جہاں اُسے یونیورسٹی آف شگاگو میں پی ایچ ڈی کے لئے مشہور زمانہ امریکی ماہر انٹیلی جینس اور صدارتی ایوارڈ یافتہ پولیٹیکل سائنٹسٹ پروفیسر البرٹ ووہلسٹیٹر Albert Wohlstetter کی سپرویژن میں کام کرنے کا موقع ملا۔ البرٹ نے اُس کی محنت سے متاثر ہو کر اُسے سی آئی اے اور مشہور زمانہ امریکی تھنک ٹینک رینڈ کارپوریشن RAND Corporation سے متعارف کروا دیا۔ اُس نے رینڈ کارپوریشن کے لئے 28 ریسرچ پیپرز لکھے جس میں اکثریت کا موضوع افغانستان کے حالات و واقعات تھا۔ یعنی امریکی وزارت خارجہ کے حکام افغانستان پر سوویت یونین کی چڑھائی سے بہت پہلے ہی افغانستان میں اپنا گھناؤنا کھیل کھیلنے کی تیاری کر رہے تھے۔ اُس کی بیوی شیرل بینرڈ کو بھی اپنی پی ایچ ڈی یونیورسٹی آف ویانا سے مکمل کرنے کا موقع ملا اور بعد ازاں اسی یونیورسٹی میں پڑھانے کے ساتھ ساتھ وہ رینڈ کارپوریشن میں بھی اپنے شوہر کے ہمراہ کام کرتی رہی اور اُن کے لئے ریسرچ پیپرز لکھتی رہی۔ فروری 2014ء میں شیرل بینرڈ کے آبائی ملک آسٹریا میں قائم اُس کے بینک اکاؤنٹس فریز کر دئیے گئے کیونکہ ان اکاؤنٹس کے ذریعہ کچھ ایسی ٹرانزیکشنز رپورٹ ہوئی تھیں جن کا تعلق اُس کے شوہر کے سی آئی اے سے تعلق کی بنیاد پر منی لانڈرنگ سے ثابت ہوتا تھا۔ بعد ازاں اُس کے شوہر کی طاقت اور امریکی اسٹیبلشمنٹ میں اُس کے عہدہ کی وجہ سے آسٹرین حکام کو وہ تحقیقات نہ صرف بند کرنا پڑیں بلکہ انہوں نے شیرل بینرڈ سے معافی مانگ کر اُس کے بنک اکاؤنٹس کو دوبارہ نارمل کر دیا۔

جی ہاں، ہم بات کر رہے ہیں مشہور زمانہ امریکی عہدہ دار زلمے خلیل زاد کی، جن کی آج 72ویں سالگرہ بھی ہے اور عمران خان  کی حمایت میں زوردار بیانات دینے کی وجہ سے وہ شہ سرخیوں میں بھی چھائے ہوئے ہیں۔ اُن کے اس تعارف کے بعد اپنے موضوع کی طرف دوبارہ پلٹتے ہوئے عرض ہے کہ سنہ 1979ء سے سنہ 1989ء کے دوران سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کر کے قبضہ کیا تو سوویت یونین کے خلاف گوریلا جنگ لڑنے کے لئے امریکہ میں صدر جمی کارٹر انتظامیہ نے مشہور امریکی پالیسی ساز سینیٹر برززنسکی Zbigniew Brzezinski کو اس جنگ کی سٹریٹجی اور پلاننگ کی ذمہ داری سونپی۔ اُس وقت زلمے یونیورسٹی آف کولمبیا کے پولیٹیکل سائنس ڈیپارٹمنٹ میں اسسٹنٹ پروفیسر کی پوزیشن پر کام کر رہے تھے۔ زلمے کو چونکہ پشتو اور دری زبان پر بھی عبور حاصل تھا اور وہ افغانستان کے معاملات پر پہلے بھی کافی ریسرچ پیپرز لکھ چکے تھے لہٰذا برززنسکی نے انہیں اپنی ٹیم کے اہم ترین رکن کے طور پر شامل کر لیا۔ برززنسکی نے ہی افغان مجاہدین کے لئے مشہور ’’آپریشن سائیکلون‘‘ ترتیب دیا تھا جس کے تحت سوویت یونین کے خلاف اسلام کا نام استعمال کرتے ہوئے جنرل ضیاء کی مدد سے اور منشیات کی کمائی سے گوریلا جنگ لڑی گئی۔ زلمے اس پالیسی بنانے اور افغانی جنگجوؤں کے ذریعہ اس پر عمل درآمد کروانے کے سلسلہ میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔

سنہ 1984ء میں زلمے نے امریکی محکمہ خارجہ میں باقاعدہ شمولیت کے لئے ایک سالہ کونسل آن فارن ریلیشنز فیلوشپ کو قبول کیا جہاں وہ رچرڈ ڈبلیو مرفی کی سربراہی میں مشرقی اور جنوبی ایشیا بیورو کے مشیر تھے۔ سنہ 1985ء سے سنہ 1989ء تک زلمے نے امریکی صدر رونلڈ ریگن انتظامیہ میں افغان جنگ کے بارے میں پالیسی پلاننگ اسٹاف کے رکن اور اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے افغانستان کے بارے میں خصوصی مشیر برائے خارجہ سیکریٹری مائیکل ایچ آرماکوسٹ کے ساتھی کے طور پر اپنی خدمات  انجام دیں۔ اس کردار میں زلمے نے منشیات کے سوداگر افغان جنگجو سرداروں کو سوویت یونین کے خلاف لڑنے والے مجاہدین اور ہیرو کے طور پر بین الاقوامی سطح پر متعارف کروانے کے پروگرام کی تیاری اور اُس کی سربراہی کے طور پر خدمات انجام دیں۔ سنہ 1990ء سے سنہ 1992ء تک زلمے نے امریکی محکمہ دفاع میں صدر جارج ایچ ڈبلیو بش کے ماتحت پالیسی پلاننگ کے ڈپٹی انڈر سیکرٹری کے طور پر خدمات انجام دیں۔ پھر سنہ 1993ء اور سنہ 2000ء کے درمیان زلمے نے دوبارہ RAND کارپوریشن میں شمولیت اختیار کر لی کیونکہ اس دوران رہنے والے امریکی صدر بل کلنٹن نے اُسے اس قابل نہیں سمجھا کہ اُس کی خدمات کسی بھی پوزیشن کے لئے رکھی جا سکیں۔ رینڈ کارپوریشن میں اپنی دوسری تعنیاتی کے دوران زلمے نے امریکہ کی عالمی قیادت برقرار رکھنے اور چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کے خلاف کئی ریسرچ پیپرز لکھے۔ زلمے نے اس دوران 1400 کلومیٹر طویل ترکمانستان سے پاکستان تک بذریعہ افغانستان بنائی جانے والی طویل گیس پائپ لائن کی مخالفت میں بھی کام کیا تاکہ پاکستان اس سے کوئی فائدہ نہ اٹھا سکے۔ زلمے نے بعد ازاں پاکستان ،ایران اور چین کے درمیان بننے والی گیس و تیل پائپ لائن کی بھی رج کر مخالفت کی۔

زلمے البتہ طالبان کے مخالف رہے ہیں اور امریکہ کو طالبان کو کمزور کرنے اور طالبانیت کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے کارروائی کرنے، طالبان کے دشمنوں کو مدد کی پیشکش کرکے طاقت کے توازن کو تبدیل کرنے، طالبان کے نظرئیے کی مخالفت کرنے، طالبان مخالفین اور امریکی نظریہ کے حامی مسلمان راہنماؤں کو اہمیت دینے، پاکستان پر دباؤ ڈال کر طالبان کی حمایت سے دستربردار کروانے اور طالبان کے مظالم سے متاثر ہونے والوں کی امداد کرنے جیسے مطالبات کے شدید حامی رہے ہیں۔ افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد وہ البتہ طالبان سے اچھے تعلقات قائم کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں لیکن پاکستان کی مخالفت میں وہ ہمہ وقت اپنی پرانی پالیسیوں پر ہی گامزن ہیں۔ سنہ 2001ء میں افغانستان پر حملے اور قبضہ کے فوراً بعد انہیں افغانستان میں امریکی سفیر بنا دیا گیا۔ اسی طرح عراق پر امریکی قبضے کے بعد بھی عراق میں بھی امریکہ کے اہداف کے حصول کے لئے انہیں بطور امریکی سفیر چنا گیا۔ انہوں نے امریکی مفادات کے حصول میں اس قدر بنیادی کردار ادا کیا کہ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ (وزارت خارجہ) سے وابستہ ہونے کے باوجود انہیں سیکرٹریز دفاع (گیٹ، ڈونلڈ رمسفیلڈ اور ڈک چینی) نے ڈیفنس میڈلز سے نوازا۔ بعض رپورٹس کے مطابق صدر منتخب ہونے کے بعد صدر بش انہیں نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر بھی بنانا چاہ رہے تھے لیکن پھر کسی وجہ سے کونڈولیزا رائس کا پلڑا بھاری ہو گیا۔ سنہ 2007ء میں اقوام متحدہ میں امریکہ کا مندوب مقرر کیا گیا۔ وہ پہلے مسلمان تھے جنہیں اتنے اہم عہدے پر تعینات کیا گیا کیونکہ امریکہ کے لئے ان کی خدمات کسی بھی امریکی سے کم نہیں تھیں۔ مشرق وسطیٰ کے مسلمان ملکوں کی تباہی و بربادی سے متعلق امریکی پالیسی کی تشکیل میں بھی ہمہ وقت زلمے کی رائے شامل رہی ہے۔

پاکستان سے زلمے کی نفرت کا یہ عالم ہے کہ طالبان کے خلاف امریکی حملے سے قبل اور اس کے بعد وہ ہمہ وقت امریکی انتظامیہ پر زور ڈالتے رہے کہ طالبان کے خلاف کارروائیوں سے زیادہ پاکستان پر دباؤ ڈالا جائے یا انڈیا کا مطالبہ پورا کرتے ہوئے اُسے پاکستان پر حملہ کی اجازت دی جائے تاکہ پاکستان کو سبق سکھایا جا سکے۔ افغانستان پر امریکی قبضہ کے بعد وہ پاکستان میں امریکہ کے سفیر مقرر کئے گئے لیکن عملاً ان کی حیثیت وائسرائے جیسی تھی۔ اُن کا رویہ اس قدر جارحانہ تھا کہ پاکستان سے اس دوران امریکہ کے شدید اختلافات ہوئے لیکن افغان صدر حامد کرزئی سے بھی اُن کے  شدید اختلافات پیدا ہوئے۔ زلمے اُن لوگوں میں شامل تھے جن کے مشورے پر ایک طرف گوانتاناموبے اور بگرام جیسے عقوبت خانے قائم کئے گئے اور دوسری طرف امریکی رات کو گھروں میں گھس کر غیر قانونی کارروائیاں کرتے رہے جن کی تمام غیر جانب دار حلقے مخالفت کرتے رہے۔

وہ کٹر ری پبلکن ہیں جب کہ ری پبلکنز میں امریکی اسٹیبلشمنٹ کے منظور نظر اور نیوکانز کا حصّہ تصور کئے جاتے ہیں۔ زلمے خلیل زاد کی آخری سرکاری ذمہ داری طالبان کے ساتھ دوحہ (قطر) مذاکرات کے لئے امریکی صدر کے نمائندہ خصوصی کی تھی اور اس کے لئے سی آئی اے، پینٹاگون اور اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کو بھی صدر کے حکم پر ان کا ماتحت کر دیا گیا تھا جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امریکیوں کے ہاں ان کی کیا اہمیت ہے۔ وہ واحد ری پبلکن ہیں جنہیں ڈیموکریٹ امریکی صدر جوبائیڈن نے حکومت کی تبدیلی کے بعد طالبان کے ساتھ ڈیل کو منطقی انجام تک پہنچانے تک انہیں اس عہدے پر برقرار رکھا۔

اِس وقت سرکاری طور پر ان کے پاس کوئی عہدہ نہیں ہے اور نہ پاکستان جیسے ممالک کے ساتھ اُن کا کوئی سروکار ہے لیکن حیرت انگیز طور پر عمران خان کی حکومت کے خاتمہ کے کچھ عرصہ بعد وہ خفیہ دورے پر پاکستان آئے اور بنی گالہ میں عمران خان سے 3 گھنٹوں پر محیط ون ٹو ون ملاقات کی۔ عمران خان کے علاوہ وہ جس دوسری شخصیت سے ملے وہ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ تھے اور اِس ملاقات میں انہوں نے ان پر زور دیا کہ وہ عمران خان کے ساتھ صلح کر لیں۔ اس ملاقات کے بعد بھی زلمے ٹیلی فونک رابطہ کر کے جنرل باجوہ کو عمران خان کے ساتھ ملاقات کے لئے قائل کرتے رہے اور ایوان صدر میں اُن دونوں کی جو ملاقات ہوئی تھی وہ بنیادی طور پر زلمے خلیل زاد کی کوششوں سے ہوئی تھی۔ آج کل بھی زلمے خلیل زاد عمران خان کی حمایت میں کھل کر سامنے آئے ہیں اور ان کے حق میں ایسی ٹویٹ کر  رہے ہیں کہ جیسے وہ کوئی امریکی عہدے دار نہ ہوں بلکہ پی ٹی آئی کے کوئی کارکن ہوں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سابق وزیر اعظم عمران خان کہا کرتے تھے کہ ان کی حکومت امریکہ نے گرائی ہے لیکن کبھی بھی اُن کی حمایت میں چین یا روس کا بیان نہیں آیا بلکہ عمران خاں کی حمایت اگر کسی نے کی ہے تو وہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کا اہم کردار زلمے خلیل زاد ہی ہے جس کی پاکستان دشمنی کی تفصیلات درج ہیں۔ زلمے خلیل زاد کے علاوہ یہودی بریڈ شرمین اور ایرک سوالویل جیسوں کا کھل کر عمران خان کی حمایت میں سامنے آنا ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ پاکستان کے اندر کی سیاست تک محدود نہیں بلکہ یہ سب ایک گریٹ گیم کا حصّہ ہے۔ عمران خان کہتے ہیں کہ وہ عالم اسلام کے لیڈر ہیں، ریاست مدینہ قائم کرنا چاہتے ہیں اور عالم اسلام کے مفادات کی خاطر امریکہ کو آنکھیں دکھائیں گے لیکن دوسری طرف عالم اسلام میں امریکی مفادات کے سب سے بڑے محافظ زلمے خلیل زاد ان کے لئے سب سے زیادہ پریشان ہیں۔ گوانتاموبے، ابو غریب اور بگرام کے عقوبت خانوں میں ہونے والے انسانیت سوز مظالم کی وکالت کرنے والے زلمے خلیل زاد کہہ رہے ہیں کہ پی ٹی آئی والوں کے ساتھ بہت زیادتی ہو رہی ہے۔ اب کیا یہ بات معاملے کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے کافی نہیں ہے لیکن حقیقت سمجھنے کے لئے عقل کا استعمال ضروری ہے اور بدقسمتی سے ہم پاکستانی عقل کو زحمت دینے کے زیادہ روادار نہیں ہیں۔ اللہ پاک پاکستان کو پاکستانیوں کے شر سے محفوظ رکھے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply