روشنی کے بارے علامہ طباطبائی کی غلط فہمیاں/حمزہ ابراہیم

فلسفے کو علم کا پیرو ہونا چاہیے

جزئی و حسی معلومات تو انسان شکمِ مادر میں ہی حاصل کرنے لگتا ہے۔ وہ پیدائش سے پہلے بہت سی چیزیں سیکھ چکا ہوتا ہے۔ بعد میں بچپن میں ناگزیر تجربات سے بنیادی مفاہیم سیکھتا ہے۔ البتہ انسانی ذہن کو صحیح سوچنا سیکھنے کیلئے تعلیم کی ضرورت ہوتی ہے۔ لہٰذا جدید ریاضیاتی منطق اور جدید سائنس انسان کیلئے ضروری ہیں۔

معلومات اکٹھی کرنے کو علم نہیں کہا جا سکتا، نیز وہ غلط بھی ہو سکتی ہیں۔ علم ایسے نظریات کو کہا جا سکتا ہے جو ذہن کو باہر کی دنیا کے بارے میں درست پیشگوئی کرنے کی صلاحیت  دیں۔ جیسے تاریخ کا علم ماضی کے آثار کے بارے میں وضاحت دیتا ہے اور انکی قابلِ تصدیق توجیہ کرتا ہے۔ یا جیسے سائنس کا علم تجربے سے پرکھا جا سکتا ہے اور اس کی بنیاد پر نئے موجودات بنائے جا سکتے ہیں۔

آج علم ایٹم جیسی سادہ چیز کے بارے میں مکمل طور پر درست پیش گوئی کر سکتا ہے۔ لیکن انسان چونکہ کروڑوں مالیکیولز کی ایک پیچیدہ ترکیب  سے مل کر بنا ہے، لہٰذا اس کے بارے میں ہمارا علم مکمل نہیں، اور شاید کبھی نہ ہو سکے۔ معاشرہ چونکہ انسانوں سے مل کر بنتا ہے تو وہ اور زیادہ پیچیدہ ہو جاتا ہے۔ یہاں فلسفہ بافی کی جگہ بنتی ہے، جو علم نہیں لیکن درست سوچنے کی کوشش میں جمع کئے گئے خیالات ہیں جو سماجی زندگی میں فرد کی مدد کرتے ہیں۔ البتہ اگر یہ خیالات علم کے پابند نہ ہوں تو وہ باطل فلسفہ بن جاتا ہے۔ چنانچہ مغرب میں جب خواجہ طوسی (متوفیٰ 1274ء) کی علمِ ہیئت میں تحقیقات پہنچیں اور ان کو آگے بڑھاتے ہوئے کوپرنیکس (متوفیٰ 1543ء) اور گلیلیو (متوفیٰ 1642ء) نے جدید علم کی بنیاد رکھی، تو اس کے بعد مغرب میں جدید فلسفہ بھی شروع ہوا۔

مسلم دنیا میں علم سے دوری

عباسی دور میں مسلم دنیا میں جو علمی پیشرفت ہوئی اس سے مسلم فلسفیوں نے فائدہ نہیں اٹھایا اور اپنے یونانی اسلاف کے سلفی بن کر رہ گئے۔ ابن الہیثم (متوفیٰ 1040ء) نے کتاب المناظر اور دیگر کتب میں روشنی اور طبیعت کے بارے یونانی نظریات کو مشاہدات اور عقلی دلائل سے رد کیا۔ انہوں نے یہ ثابت کیا کہ آنکھ سورج کی طرح روشنی خارج نہیں کرتی بلکہ روشنی باہر سے آنکھ میں پڑتی ہے تو اس سے ذہن میں تصویر بنتی ہے۔ سایہ روشنی کی صفت ہے، جہاں سے روشنی نہ گزرے وہاں سایہ بنتا ہے۔ کیمرے کی تصویر بنیادی طور پر چیزوں کا سایہ ہوتا ہے، جو روشنی کے اس حصے کے انعکاس سے بنتی ہے جو جذب نہ ہُوا ہو۔ چنانچہ جب کوئی چیز سب رنگ جذب کر لے تو اسکی تصویر سیاہ ہوتی ہے، جیسے سر کے بالوں کا عکس، وغیرہ۔ ابن الہیثم عراقی تھے اور یہ کام انہوں نے مصر میں جیل میں قید کے دوران کیا تھا۔

سائنسی طرزِ فکر

ابن الہیثم کی روشِ تحقیق، ان کی تحقیق سے زیادہ اہم ہے۔ انہوں نے ہی سائنسی طرز فکر کے بنیادی خدوخال بھی پیش کئے تھے۔ 2015ء میں اقوام متحدہ کی طرف سے کتاب المناظر کے لکھے جانے کے ہزار سال مکمل ہونے پر عالمی سال برائے روشنی کا اعلان کیا گیا۔ مغربی ممالک کی سبھی یونیورسٹیوں میں جشن منایا گیا۔ لیکن ابن الہیثم ہوں یا خواجہ طوسی، انکے سائنسی کام کو مغرب نے ہی اہمیت دی ہے۔ اگرچہ جدید علم ان سے بہت آگے جا چکا ہے، لیکن پھر بھی وہاں انکا دن منایا گیا۔ روشنی پر تحقیق کرنے والے خود کو ابن الہیثم کی روایت کا امین سمجھتے ہیں۔

امام غزالی کا کردار

مسلم دنیا میں امام غزالی (متوفیٰ 1111ء) نے یونانی فلسفے پر تنقید کی مگر اسکو علم کے پیچھے چلانے کے بجائے تصوف کے پیچھے چلانے پر زور دیا، جو گڑھے سے نکل کر کنویں میں کودنے جیسی بات تھی۔ بعد کے مسلم فلسفی تصوف ہی کو فلسفیانہ رنگ دیتے رہے۔ ملا صدرا (متوفیٰ 1641ء) صوفیوں کے امام جناب غزالی کی احیاء العلوم سے ایک عبارت نقل کر کے ان الفاظ میں اپنی مریدانہ ذہنیت کا اظہار کرتے ہیں:

”یہ شخص جو کافۂ انام میں امام اور حجۃ الاسلام کے نام سے موسوم ہے، علم کے اس دریائے ذخار کے کلام کو میں نے اس لیے پیش کیا ہے تاکہ وہ لوگ جو اہلِ ایمان کی راہ پر چلنا چاہتے ہیں، ان کے قلوب میں اطمینان کی نرمی پیدا ہو۔“ (1)

یہاں یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ ملاصدرا توسل بہ شخصیت کا مغالطہ استعمال کر رہے ہیں۔ حق تو یہ ہے کہ ایسے مریدوں کو فلسفی نہیں کہنا چاہیے۔

مُلا صدرا اور روشنی

مُلا صدرا کی کتب میں آنکھ کے بارے یونانیوں کے باطل تصورات ہی ملتے ہیں اور ابن الہیثم کے کام اور ان کی روش کا کوئی اثر نظر نہیں آتا۔ مثلاً اسفار میں سورج کے نور کو چمگادڑ کی آنکھ کے نور سے شدید تر قرار دیتے ہیں۔ (2) وہ روشنی کو بسیط ماننے پر بضد تھے۔ سورج کی روشنی کا رنگوں سے مرکب ہونا چونکہ ان کے صوفیانہ عقیدے سے ہم اہنگ نہ تھا، تو اس کا انکار کرتے ہوئے کہتے ہیں:

”ذرا اس کے سمجھنے کے لیے تم آفتاب کے انوار اور اس کی روشنی پر نظر ڈالو کہ عالم محسوسات میں خدا کی وہی ایک مثال ہے۔ دیکھو، آفتاب کے یہ انوار کس طرح مختلف رنگ کے شیشوں میں پہنچ کر طرح طرح کے رنگوں سے رنگین نظر آتے ہیں۔ حالانکہ ان انوار کا اپنی ذات کی حیثیت سے کوئی رنگ ذاتی رنگ نہیں ہے، البتہ (مختلف شیشوں) کے ان انوار میں اگر کوئی واقعی تفاوت پیدا ہوسکتا ہے تو وہ صرف چمک کی شدت و ضعف کا ہو سکتا ہے۔ تو وہ جو ان ہی شیشوں اور ان کی رنگینیوں یا نور کے ان ادنیٰ مراتب اور تنزلی درجات میں الجھ کر رہ گیا وہ نورِ حقیقی کی یافت سے محروم ہو گیا، اور نورِ حقیقی خود اس سے روپوش ہو جاتا ہے۔ یہی حال ان لوگوں کا ہے جن کے نزدیک ماہیات حقیقی اور متاصل الوجود امور ہیں، اور وجودات ان کے خیال میں صرف انتزاعی اور ذہنی معانی ہیں۔

لیکن جو نور کے مختلف رنگوں کا مشاہدہ کر کے یہ سمجھ گیا کہ یہ سارا کھیل شیشوں کا ہے، ورنہ ان میں سے نور کا کوئی اصلی رنگ نہیں ہے، یقیناً اس پر خود نور کا ظہور ہو جائے گا اور وہ معلوم کرلے گا کہ اسی نور کے مختلف مراتب ہیں جو اعیان اور خارج میں اپنی اپنی استعداد کے مطابق ظاہر ہوئے ہیں۔ اور یہ مسلک ان لوگوں کا ہے جن کا خیال ہے کہ وجود ہی کے مختلف مراتب (جو حقیقی اور واجبی نور کے لمعات ہیں اور وجودِ حقیقی الہیٰ کے ظہورات ہیں) کا ظہور اعیان کی صورت میں ہوا ہے اور وہی مختلف ماہیاتِ امکانیہ کے رنگوں سے رنگین ہوا ہے اور مخلوقاتی صورتوں نے اس کی واجبی اور الہٰی صورت کو انہی کے اندر چھپا دیا ہے۔“ (3)

جو لوگ اصل عربی متن دیکھنا چاہیں وہ بیروت کی چھاپ میں جلد اول کے صفحات 69 اور 70 کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔ جن لوگوں نے میٹرک میں منشور (prism) سے سورج کی روشنی گزاری ہے یا قوس قزح کو سمجھا ہے، وہ اس جہالت پر ہنسیں گے۔ لیکن ان کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ملا صدرا نیوٹن (متوفیٰ 1727ء) سے پہلے دنیا سے رخصت ہو چکے تھے۔ ان کے بعد بھی آتے تو بھی نیوٹن کے کام سے ناواقف رہتے کیونکہ ان کے ذہن پر تصوف کا ناگ مسلط تھا۔  جیسے بیسویں صدی میں علامہ محمد حسین طباطبائی (متوفیٰ 1981ء) بھی روشنی کے بارے صحیح علم سے محروم رہے ہیں۔ ذیل میں ان کی کتاب سے ایک اقتباس پیش کیا جا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیے: اصالتِ ماہیت اور مکتبِ خراسان 

علامہ طباطبائی کی عبارت

علامہ طباطبائی کی کتاب بدایۃ الحکمہ کا ترجمہ توضیح البدایہ کے نام سے جامعۃ المنتظر کے زیر اہتمام 2009ء میں چھپ چکا ہے۔ یوں تو یہ پوری کتاب ہی مغالطات کا پلندہ ہے، یہاں اختصار کے پیشِ نظر روشنی کے بارے انکے فرمودات کو بطور نمونہ پیش کیا جا رہا ہے۔ توضیح البدایہ میں صفحہ 23 پر ایک فصل شروع ہوتی ہے جس کا عنوان ہے: ”فی ان الوجود حقیقۃ واحدۃ مشککہ“، اور اس میں علامہ طباطبائی تشکیک کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

”اسکی مثال روشنی ہے جو خود بخود روشن بھی ہے اور غیر کو روشن کرنے والی ہے۔ جب آپ روشنی کو دیکھیں گے تو کوئی بلب ہزار واٹ کا ہے اور کوئی صفر کا، ہزار والا شدید ہوگا اور صفر والا ضعیف ہوگا۔ لیکن فقط یہ دو درجے نہیں بلکہ صفر سے ہزار تک کئی درجے بن سکتے ہیں۔ مثلاً سو کا، دو سو کا، وغیره۔ لیکن روشنی روشنی ہے۔ ہزار کا ہو تب بھی روشنی ہے اور صفر کا ہو تب بھی۔ ہزار واٹ والے کو ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ کئی روشنیاں مل کر یہ بنی ہے۔ اور صفر والے کو یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس میں ہزار درجہ تاریکی اور ایک درجہ روشنی ہے۔ بلکہ وہ بھی اپنی جگہ روشنی ہی ہے۔ اسکو ہم مرکب نہیں کہہ سکتے کہ یہ تاریکی اور روشنی سے مرکب ہے۔ لہٰذا روشنی زیادہ ہو تو بھی مرکب نہیں کہ کئی روشنائیاں ملکر روشنی بنی ہے، بلکہ یہ ہے۔ اور اگر روشنی کم ہو تو پھر بھی یہ مرکب نہیں کہ تاریکی اور روشنی ملکر کم روشنی بنی ہے۔ بلکہ یہ بھی اسی طرح بسیط ہے جس طرح زیادہ روشنی بسیط ہے۔

المختصر!

روشنی کا اطلاق اعلیٰ، متوسط اور ادنیٰ درجوں پر ہوتا ہے۔ جس درجے کو آپ اعلیٰ کہتے ہیں تو اس کے بارے میں یہ خیال نہ کریں کہ اس سے اوپر روشنی نہیں ہے۔ اور جسے ادنیٰ کہتے ہیں تو اسکے بارے میں بھی یہ نہیں کہیں کہ اس سے کم روشنی نہیں ہو سکتی۔ بلکہ اس سے کم اور اعلیٰ سے زیادہ روشنی بھی ہو سکتی ہے۔ اسکا اصطلاحی لفظ نورِ حسی ہے۔ اور نورِ حسی کلی مشکلک ہے۔ اسکا تمام پر (اطلاق یا تشکیک) ہو رہا ہے، کسی پر کم اور کسی پر زیادہ۔ اور یہی حال بعینہٖ وجود کا ہے۔ بلب والی نورِ حسی کی مثال تھی۔ اور وجود نورِ حقیقی ہے۔“ (4)

تبصرہ

بسیط چیزوں میں شدت و ضعف محال ہے۔ روشنی ذرات (photons) سے مرکب ہوتی ہے اور اسکی شدت (intensity) کا تعلق ذرات کی تعداد بڑھنے سے ہوتا ہے۔ ہر رنگ (wavelength) کی روشنی کے ذرات مختلف ہوتے ہیں۔ جب ایک رنگ ہی  کے ذرات والی روشنی پیدا  کی جائے تو اسے لیزر کہتے ہیں۔ چنانچہ لیزر ہمارے ذہن میں خالص رنگ (colour) پیدا کرتا ہے۔ شدت و ضعف کا تعلق ذرات کی تعداد کی زیادتی یا کمی سے ہوتا ہے۔ آج بلب، کیمرے، سمارٹ فون، ٹی وی وغیرہ، روشنی کی ترکیب کی درست فہم سے ہی بنائے جا سکے ہیں۔

آخر میں اس بات کی طرف اشارہ بھی ضروری ہے کہ وجود ماہیت کا حصہ اور عرض ہوتا ہے، اسکو الگ کر کے غلط معلومات کی بنیاد پر خود سے تشکیک کا فلسفہ گھڑ لینا درست نہیں۔ جدید دور میں فلسفہ وہی درست ہے جو جدید علم کا پیرو اور خارجی حقائق سے ہم اہنگ ہو۔ تصوف کے جہلِ مرکب نے مسلم فلسفے کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔

عقیدۂ وحدت الوجود

تشکیکِ وجود کی داستان گھڑنے کا مقصد محیی الدین ابنِ عربی کے نظریۂ وحدت الوجود کو معقول ظاہر کرنا ہے۔ اسفار اربعہ میں اسی صفحے پر آگے چل کر ملا صدرا فرماتے ہیں:

”حقیقت اور ذات کے اعتبار سے وجود اور موجود ایک ہیں۔ جیسا کہ کشف اور یقین والے بزرگوں اور عارفوں کا مسلک ہے۔ میں عنقریب اس کے لئے برہانِ قاطع پیش کروں گا کہ وجودات اگرچہ باہم ایک دوسرے سے جدا ہیں اور ان میں باہم کثرت ہے، لیکن یہ سب جو کچھ بھی ہے، وہ حقِ اول (یعنی وجودِ حق) کے تعینات اور اسی کے نور کے مختلف ظہورات اور اس کی ذات کے مختلف شئونات ہیں۔“ (5)

اس پر ملا ہادی سبزواری (متوفیٰ 1873ء) نے حاشیہ لگا کر توحید کے بارے مختلف نظریات بیان کئے ہیں اور ملا صدرا کے نظریۂ توحید کو خاصا سراہا ہے۔ آیت اللہ العظمیٰ سید محسن الحکیم یہ حاشیہ نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں:

Advertisements
julia rana solicitors london

”ان خاص عقیدۂ توحید رکھنے والوں پر حسنِ ظن کرنے اور اسے شریعت کے احکام سے ہم آہنگ ماننے کا لازمہ یہ ہے کہ ان کی باتوں کو ظاہری معنوں کے خلاف سمجھا جائے۔ ورنہ خالق و مخلوق اور آمر و مامور اور راحم و مرحوم کے وجود پر یقین رکھ کر ان باتوں کو کیسے درست کہا جا سکتا ہے؟“ (6)

حوالہ جات

  1. فلسفۂ ملا صدرا، ترجمہ اسفار اربعہ، صفحہ 523، حق پبلیکیشنز، لاہور، 2018ء۔
  2. (الف) فلسفۂ ملا صدرا، ترجمہ اسفار اربعہ، صفحہ 43، حق پبلیکیشنز، لاہور، 2018ء۔(ب) ملا صدرا ،”اسفار اربعہ (عربی)“،جلد 1 ، صفحہ 69، دار احیاء التراث العربی، بیروت۔
  3. (الف) فلسفۂ ملا صدرا، ترجمہ اسفار اربعہ، صفحہ 44، حق پبلیکیشنز، لاہور، 2018ء۔(ب) ملا صدرا ،”اسفار اربعہ (عربی)“،جلد 1 ، صفحہ 70، دار احیاء التراث العربی، بیروت۔
  4. توضیح البدایہ، صفحات 23، 24، دار التحقیق والتالیف، جامعۃ المنتظر، لاہور، 2009ء۔
  5. (الف) فلسفۂ ملا صدرا، ترجمہ اسفار اربعہ، صفحہ 44، حق پبلیکیشنز، لاہور، 2018ء۔(ب) ملا صدرا ،”اسفار اربعہ (عربی)“،جلد 1 ، صفحہ 71، دار احیاء التراث العربی، بیروت۔
  6. آیۃ اللہ العظمیٰ سید محسن الحکیم، مستمسک العروۃ الوثقیٰ، الطبعۃ الثالثۃ، جلد 1، ص 391، دار إحیاء التراث العربی، بیروت۔

Facebook Comments

حمزہ ابراہیم
ادائے خاص سے غالبؔ ہوا ہے نکتہ سرا § صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply