توں کی جانے یار امیراں، روٹی بندہ کھا جاندی اے۔۔یگانہ نجمی

نظیر کو اس زمانے میں بطور شاعر تسلیم نہیں کیا گیا اس کی وجہ جو بیان کی جاتی ہے۔وہ یہ ہے کہ نظیر نے اپنی شاعری میں جن موضوعات کو شامل کیا اس عہد میں ان پر سوچنا دھیان دینا۔اتنی اہمیت نہیں رکھتا تھا۔نظیر کے ہاں جس زبان کو استعمال کیا گیا۔وہ زبان تھی جو عام لوگوں کی بولی تھی    اور موضوعات بھی وہ تھے جن کا تعلق عوام الناس  سے تھا۔
نظیر نے انسان کی جس بنیادی ضرورت کو اپنی نظم کا موضوع بنایاان کی نظم  ”مفلسی“ جس کو پڑھتے ہوئے خیال آیا کہ شاعر نے مفلسی کی جو فلاسفی بیان کی ہے۔
جب آدمی کے حال پہ آتی ہے مفلسی
کس کس طرح اس کو ستاتی ہے مفلسی
پیاسا تمام  روز بٹھاتی ہے مفلسی
یہ دکھ وہ جانے جس پہ کہ آتی ہے مفلسی

ایسے تمام منظر صرف فلموں ہی میں دیکھنے کو ملتے تھے۔جس پر یہ کہا جاتا تھا کہ کتنی زیادہ پسماندگی دکھاتے ہیں۔ایسا بھی نہیں ہوتا اب لیکن اب ایسا حقیقتا ً  ہوتاہے بلکہ روز ہوتا ہے۔جب ایک باپ اپنے بچوں کو اور ایک ماں اپنے دو چھوٹے بچوں کو صرف اس لیے زہر دے دیتے ہیں کہ ان کو روٹی فراہم نہیں کرسکتے تھے اورساتھ خود بھی زہر کھا کر مر جاتے ہیں۔

یہ سب کچھ اس ملک میں ہورہا ہے جس میں ہر دن ایک نئی فوڈ  سٹریٹ میں اضافہ ہوتا ہے۔اور جس کا مینیو ہزاروں سے شروع ہو کے لاکھوں میں چلا جاتاہے۔وہاں دن اور رات میں لوگوں کا اژدہام دیکھ کر کیا کوئی یہ اندازہ لگا سکتا ہے۔کہ یہاں غربت کی سطح یہ ہوگی کہ لوگ اپنے بچے فروخت کر رہے ہوں گے انھیں ہلاک کر رہے  ہوں گے،صرف روٹی کی خاطر!

اس خبر پر کسی نے کمنٹس کیے کہ خودکشی اسلام میں حرام ہے۔بالکل درست کہا۔لیکن شاید کہنے والے صاحب اس بات کو بھول گئے کہ خالی پیٹ عبادت بھی نہیں ہوتی۔بابا فرید کی خانقاہ پر کچھ مولوی حضرات تربیت کے لیے آئے۔بابافرید نے ان سے پوچھا کہ اسلام کے کتنے ارکان ہیں۔مولوی صاحب نے کہا کہ پانچ بابا فرید نے کہا ‘نہیں،۔۔ چھٹا رکن روٹی ہے!مولوی صاحب اس بات کو نہیں مانے،کچھ دنوں کی رخصت پر وہ گھر روانہ ہوگئے۔راستے میں آندھی اور طوفان کے باعث   اپنے گھر کا راستہ بھول گئے۔اس طرح کئی دن بھوک اور پیاس میں گزر گئے۔ایک دن جب بھوک نے نڈھال کردیا تو دیکھا کہ دور سے کوئی شخص ہاتھ میں روٹی لیے ان کی طرف چلا آرہا ہے۔
اس شخص نے انھیں کھانے کے لیے روٹی دی لیکن اس سے پہلے یہ کہا کہ کیا آپ اس روٹی کے بدلے اپنی نمازیں میرے نام کرسکتے ہیں۔مولوی صاحب نے سوچا کہ اس طرح اقرار کرنے سے کیا فرق پڑے گا۔لیکن اس شخص نے کہا کہ یہ آپ مجھے اس کاغذ پر لکھ دیں کہ میں نے اس روٹی کے عوض اپنی نمازیں اس شخص کے نام کیں۔ا س طرح تین دن وہ شخص روٹی لاتا رہا اور اس نے ان کے تمام نماز،روزہ اور دیگر فرض عبادتیں اپنے نام کروالیں۔طوفان تھما تو انھوں نے اپنے گھر کی راہ لی۔کچھ عرصہ کے بعد وہ دوبارہ خانقاہ پر حاضر ہوئے۔بابا فرید نے اپنا سوال پھر دہرایا۔کہ اب کیا کہتے ہیں آپ،کیا روٹی چھٹا رکن نہیں ہے اسلام کا؟مولوی صاحب اب بھی ماننے کو تیار نہیں ہوئے۔
بابا جی نے اپنے ایک مرید سے فرمایا۔کہ اندر سے وہ کاغذ تو اٹھا کر لاؤ۔آپ نے وہ کاغذ ان کو دکھائے جس میں انھوں نے روٹی کے بدلے اپنی ساری عبادتیں اس شخص کے نام کردیں تھیں۔جس نے انھیں روٹی کھانے کو دی تھیں۔
پوچھا کسی نے یہ کسی کامل فقیر سے
یہ مہر وماہ حق نے بنائے ہیں کاہے کے
وہ سن کے بولا بابا خدا تجھ کو خیر دے
ہم تو نہ چاندسوجھیں نہ سورج ہیں جانتے
بابا ہمیں تو  یہ نظرآتی ہیں  روٹیاں

اسلام دین ِفطرت ہے اس میں عبادت سے بھی ضروری انسان کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنا اہمیت رکھتا ہے۔ہمسائے کی ضرورتوں کا خیال رکھنا،  اگر اس کی استطاعت نہیں رکھتے تو کوئی موسمی پھل جسے خریدنے کی آپ کا پڑوسی قوتِ خرید نہیں رکھتاتو اسے کھا کراس کے چھلکے  دروازے کے باہر پھینکنے کی بھی ممانعت ہے۔لیکن ہم تو انسان ہیں ہی نہیں،ہم تو فرشتے ہیں۔مجبورِ محض،ہمیں تو کوئی اختیار ہی نہیں ہے کہ ہم اپنی مرضی سے کوئی کام کرسکیں۔جب انسان،انسان سے بالاتر ہوجائے تو وہ کیسے اس طرح کے چھوٹے چھوٹے کام کرسکتا ہے۔کہ اپنی بے جا ضرورتوں میں سے کچھ حصہ اپنے پڑوس،محلے کے بھوکے پیاسے بچوں کی ضرورت کو پورا کردے۔یہ کام تو انسانوں کا ہے نا ہم تو فرشتے ہیں۔جو صرف دوسرے کے گناہ اور نیکوں کو درج کرنے پر معمور ہیں۔

کچھ دن پہلے ایک باپ نے اپنے بچوں کو اس لیے ماردیا اور ساتھ خود بھی مرگیا تھا  کہ وہ ان کی ضروریات پوری نہیں کرسکتا تھا اس کی بیوی بھی اپنے میکے جا بیٹھی تھی۔جب لوگوں سے پوچھا گیا تو ان کاکہنا تھا کہ کافی دنوں سے روز گار کی وجہ سے پریشان تھا۔اس کا مطلب اہل محلہ اس بات سے واقف تھے کہ وہ کس کرب سے گزر رہا ہے۔تو کیا یہ سوال ان لوگوں سے نہیں بنتا کہ آپ نے اس کے روز گار کے لیے کیا کیا،اس کو مرنے سے کیوں نہیں بچایا۔

Advertisements
julia rana solicitors

اسلام نے نماز جماعت  کے  ساتھ  پڑھنے کی تاکید اس لیے نہیں کی کہ صرف اسلام کی شان و شوکت دکھائی جائے۔بلکہ یہ ایک ایسا سماجی رابطے  کا ذریعہ ہے جس سے  لوگ  ایک دوسرے کے حال اور دکھ درد سے واقف ہوسکیں۔لیکن شاید اب سب نے اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا لی ہے۔جو صرف اور صرف دوسرے کے ایمان کو پرکھنے پر مصروف ہیں۔  کیونکہ صاحب ہم تو فرشتہ ہیں یہ انسانوں والے کام  ہمیں زیب نہیں دیتے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply