ترکِ تعلق کے بعد خودنوشت/ڈاکٹر مجاہد مرزا

پیدائش کے ساتھ موت جڑی ہوئی ہے۔ ذی روح پیدا ہی اس لیے ہوتا ہے کہ اسے کسی وقت مر جانا ہوتا ہے۔ علیحدگی اورطلاق کا تعلق اکٹھے رہنے اور بیاہے جانے کے ساتھ ہے۔ کہتے ہیں کہ سکّے کے دو پہلو ہوتے ہیں اورجدلیات بھی سیاہ وسفید، دائیں بائیں یا اوپر نیچے کو دکھانے تک محدود کرکے رکھی ہوئی ہے، کبھی کسی نے غور نہیں کیا کہ سکّے کے گول، چوکوریا ہشت پہلو کنارے بھی ہوتے ہیں، جن کا حجم اور پیمائش سکّے کے کسی بھی ایک پہلو سے زیادہ ہو سکتے ہیں۔ کوئی نہیں دیکھتا کہ سیاہ و سفید کے بیچ ملگجا پن بھی آتا ہے۔ کوئی نہیں سوچتا کہ دائیں بائیں کے ساتھ اوپرنیچے بھی جڑا ہوتا ہے اور کوئی زیرِغور لانے کا تردد نہیں کرتا کہ اوپر نیچے کے ساتھ ہی دائیں بائیں ہوتا ہے جس کا اوپرنیچے کی جہات سے تعّلق ہے یوں جدلیات آدھا سچ ہوتا ہے یا آدھا جھوٹ۔ جیسے چاہے سمجھ لیں۔

میں نے پہلی خاتون سے جو بیاہ کیا تھا اسے عرف عام میں ”محبت کی شادی“ کہا جاتا ہے مگر ایک عرصہ کے بعد ہمارا نباہ کرنا دشوار ہو گیا تھا۔ ظاہر ہے کہ وجوہ اقتصادی یا سماجی ہی ہوں گی۔ سماجیات اقتصادیات سے بالکل بھی علیحدہ نہیں ہے ۔ سماجیات کے ساتھ معاشرتی اور شخصی نفسیات بھی پیوست ہوتی ہے۔ قصہ مختصرہم میاں بیوی میں، طلاق ہو گئی تھی۔

مجھے نوجوانی سے ہی خیال آتا تھا کہ مشاہیر تو اپنی آپ بیتی لکھتے ہی ہیں مگرعام آدمی بھی زندگی بتاتا ہے، اگر میں عام آدمی بھی رہا تب بھی میں اپنی خود نوشت ضرورلکھوں گا جو میں نے کوئی پندرہ سولہ برس پیش تر لکھ دی تھی جس کے مسودے کو پہلے میرے بیٹے نے دو سال تک غصب کیے رکھا کہ اس میں کیا خرافات لکھی ہیں،یہ جانے بغیر کہ جسے وہ خرافات سمجھتا ہے وہ میری زندگی کا حصّہ ہے۔
جس حصّے پرمیرے بیٹے کواعتراض تھا وہ اس کی ماں سے ملنے سے پہلے کی میری زندگی، اس کے ساتھ گزار ی ہوئی زندگی اوراس سے اختلافات بڑھ جانے کے دوران کے واقعات اور طلاق کے بعد کی زندگی سے متعلق تھی۔ یہ ہی حصّہ میری بیٹی کو بہت اچھا لگا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ پاپا آپ کی یہ کتاب “بیسٹ سیلر “بن جائے گی۔

خودنوشت سے متعلق بیٹے اوربیٹی کے مختلف نکتہ ہائے نظر سماج میں مرد اور عورت کی سوچ اورنفسیات کے بھی غماز تھے۔ بیٹا ہر مرد کی مانند اَنا کا شکار تھا کہ لوگ کیا کہیں گے کہ اس کا باپ کیسا تھا؟ جیسا کہ اس کے باپ نے ذکر کیا، اس کی ماں کیسی تھی، اس بارے میں وہ اپنے منہ سے کچھ نہیں کہتا تھا۔ اس کو اپنے باپ سے کوئی غرض نہیں تھی بلکہ اپنی مفروضہ اہانت کا ڈر تھا۔ اس کے برعکس بیٹی کو باپ کی تسکین عزیز تھی کہ باپ نے اپنی زندگی کوسرِعام آشکار کرنے کی خواہش کی ہے تو اسے پورا ہوجانا چاہیے۔

اس کتاب کے شائع نہ ہونے کی خواہش کے باوجود ان دونوں کی ماں اس ضمن میں خاموش رہی تھی۔ طلاق ہونے کے سات آٹھ برس بعد مشترکہ بچوں کی وجہ سے ہمارا دوستانہ تعلق استوار ہو گیا تھا۔ میں جب بھی پاکستان جاتا تو اپنے بچوں کے پاس اسی کے یہاں قیام کرتا ۔ وہ میری تحریر کی مدّاح تھی اور اب بھی ہے۔ خودنوشت کے بارے میں اس نے بس ایک بات کہی تھی کہ اپنی خودنوشت میں تم نے میرے متعلق اپنا نقطہ نظر پیش کیا ہے۔ میں نے اس سے کہا تھا کہ تم اپنا نقطہء لکھ دو، اسے بھی شائع کروا دوں گا۔ اگر خود نہیں لکھ سکتیں تو بیان کردو، میں تمھاری جانب سے لکھ کر شائع کرواؤں گا۔ اس نے اس تجویز کودرخورِ اعتنا نہیں جانا۔

بات درست ہے کہ جو کچھ میں نے اس کے بارے میں، اس کے رویوں، اس کی سوچ، اس کی سوچ میں تبدیلی، اس کے میرے علاوہ کسی اور یا دوسروں کے ساتھ تعلق وغیرہ سے متعلق لکھا، اس میں باوجود غیرجانب دار رہنے کے میرا تعصّب، میری رنجش، میرا الم، میرا دکھ یقیناً شامل رہا ہوگا۔ کہیں دبا دبا کہیں چیختا ہوا۔ ایسا کیوں نہ ہو کیونکہ مرد اور عورت یعنی میاں بیوی ہی دو افراد نہیں ہوتے، ان کی باہمی زندگی میں وہ دونوں باہم، بچوں کے ہم راہ وہ سب باہم اور رشتے داروں اور دوستوں کے ساتھ سارے ہی شامل ہوتے ہیں۔

یادداشت یا خود نوشت کوئی ناول نہیں ہوتا جس میں کرداروں کی سوچ اور رویے، ان کے انداز اور ان کی گفتگو فرض کرکے لکھ دی جاتی ہے۔ اس میں آپ وہ لکھتے ہیں جو کرداروں کے بارے میں آپ خیال کرتے ہیں یا آپ کے خیال میں کرداروں نے جوکیا ہوتا ہے یا آپ کواور صرف آپ کو جو وہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ خود کو کیسے دیکھتے ہیں، اُنہوں نے جو کیا اور جو کہا اس کے بارے میں ان کا نکتہ نظر کیا ہے یا تھا وہ آپ کی خودنوشت کا حصّہ تب تک نہیں بن سکتا جب تک آپ خود نوشت کو ناول نہ بنا دیں یا ان سے پوچھ کر نہ لکھیں۔

تعلق کی داستان جب تاریک ہوتی ہے توآپ کو دوسرے کی کئی اچھی باتیں بھی بُری لگنے لگتی ہیں، بُری تو ہوتی ہی بُری ہیں۔ آپ کا یہ تاثر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تبدیل ہو سکتا ہے، معدوم ہو سکتا ہے مگر ترکِ تعلق کے کچھ عرصے بعد تک تاریک ہی رہتا ہے۔ ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ فریق امن وآشتی کے ساتھ یا راحت و تسکین کے ساتھ جدا ہوں۔ مشرق تو دورکی بات ایسا مغرب میں بھی بہت کم ہوتا ہے۔

یہ توباتیں تھیں مجھ ایسے ایک عام شخص کی خودنوشت سے متعلق، لیکن اگراپنی خود نوشت لکھنے والا شخص معروف ہو یا اس کا معروف شخص سے ناطہ رہا ہو یا خود چاہے معروف نہ ہو مگر سابق ہم دم جو دیرینہ رہنے سے قاصر رہا ہو خاصا معروف ہو تو بیان کردہ حقائق یا مفروضہ جات پر زیادہ اعتراضات اٹھتے ہیں۔

بعض اوقات اعتراضات خود کو مزید معروف کرنے کے لیے کیے جاتے ہیں اور بعض اوقات حقائق کو مفروضہ جات ثابت کرنے کو۔ مفروضے پر خاموش رہنے سے گریز بھی خود کو معروف کرنے کے لیے ہی ہوتا ہے کہ دیکھو کتنا اچھا شخص ہے کہ جواب ہی نہیں دے رہا۔

درست ہے اپنے میلے کپڑے لوگوں میں نہیں دھونے چاہئیں، مگر بعض اوقات یہ دکھانا اجتماعی مفاد میں ہوتا ہے کہ کپڑے میلے کیوں کر ہوتے ہیں، کس کے ہاتھوں پر زیادہ میل تھا اور کس کا بدن پسینے کی بُو میں بسا ہُوا تھا۔ یہ بتانا بھی ضروری ہوتا ہے کہ مذاہب، سماج اور قوانین نے دو انسانوں کے تعلق کو زبردستی باندھے رکھنے کے جو جتن کیے ہیں وہ اس لیے دُرست نہیں ہوتے کہ انسان کوئی روبوٹ نہیں جس کو جس طرح فیڈ کر دو وہ اسی طرح سے عمل کرے۔ انسان پیچیدہ بلکہ بسا اوقات گنجلک سوچنے والا جان دار ہے۔ وہ مشینی پُرزوں سے نہیں بنا بلکہ احساسات کے ریشوں سے گندھا ہوا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

رہی داستان بیان کرنے کی زبان تو بھئی وہ جتنی زیادہ عام لوگوں کی زبان ہوگی اتنی ہی زیادہ لوگوں کے اذہان پر اثرانداز ہوگی، مستفید کرے گی یا ہیجان میں مبتلا کر دے گی مگر ایک نصیحت سب کو ہونی چاہیے کہ داستان عام ہونے سے پہلے داستان سے متعلق داستانیں بنانا یوں ہی نہیں ہوتا، ویسے بنانی تو نہیں چاہئیں مگر معروف اوربڑے لوگوں کی باتیں معروف اور بڑے لوگ ہی جانتے ہیں کہ ان کے مقاصد کیا ہوتے ہیں۔

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply