ہمارا خاندانی نظام/سعید ابراہیم

اقبال نے سن1907ء میں ایک شعر لکھا تھا جس کی آج تک ہمارے دانشور جگالی کیے جارہے ہیں۔وہ شعر تھا

تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کُشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائیدار ہو گا
اس پیشن گوئی نما شعر کو کہے ایک سو چودہ برس ہونے کو آئے ہیں مگر ابھی تک مغربی تہذیب نے خودکُشی نہیں کی بلکہ یہ الٹا ہم ہیں جو ہمہ وقت اُن ممالک میں بسنے کے لیے مَرے جاتے ہیں۔

اقبال نے یہ پیشین گوئی درحقیقت مغرب کے خاندانی نظام کے بارے میں کی تھی کیونکہ ان کے خیال میں یہ فرد نہیں بلکہ خاندان ہے جو سماج کا حقیقی بنیادی یونٹ ہے۔ اس یونٹ میں اگر کسی فرد کو اہمیت حاصل ہے تو وہ صرف اور صرف مرد ہے جسے بطور سربراہ کے خاندان کے باقی افراد پر اپنے فیصلوں کے نفاذ کا غیر مشروط حق حاصل ہے۔ جبکہ عورت کا کردار بلا چون و چرا مرد کے حقوقِ زوجیت کی ادائیگی اور امُومت تک محدود ہے۔ اُن کے خیال میں خاندان کی یہ ساخت عین فطری تھی جس پر اسلام نے چودہ صدی پہلے مُہرِ تصدیق ثبت کردی تھی اور اب اسے قیامت تک یونہی برقرار رہنا ہے۔
اقبال اس مائنڈ سیٹ کے اسیر ہی نہیں بلکہ پُرجوش مبلغ بھی تھے کہ مرد کو یہ خدائی حق تفویض کردیا گیا ہے کہ وہی یہ طے کریں گے کہ عورتوں کا اندازِ زیست کیسا ہونا چاہیے۔ ان کی شاعری سے صاف پتہ چلتا ہے کہ وہ عورت کے کردار کو ماں اور بیوی کے دائرے سے باہر نہیں دیکھتے جن کا واحد جوہر نسوانیت یعنی عصمت ہے۔ وہ نسوانیت کو کسی ایسی شئے کی طرح پیش کرتے ہیں جس کی وہ خود حفاظت نہیں کرسکتی بلکہ اس کے لیے مرد کو بطور محافظ مقرر کرنا لازمی ہے۔اس کا واضح اظہار ان کے اس مصرعے سے ہوتا ہے کہ ‘نسوانیتِ زن کا نگہباں ہے فقط مرد ‘۔اس کا مطلب سوائے اس کے کچھ نہیں کہ وہ عورت کی زندگی پر مرد کا تسلط برقرار رکھنے کو ہی مذہب کی اعلیٰ اخلاقی قدر مانتے ہیں۔

صرف اقبال ہی نہیں مجموعی مسلم سماج اسی سوچ سے بندھا تھا اور آج بھی بندھا ہُوا ہے۔سو جب اس مائنڈ سیٹ کے حامل دانشور اپنی محدود اور فکسڈ سوچ کے تناظر میں مغربی سماج کوآزادی کی جانب بڑھتا دیکھتے ہیں تو بِنا سوچے سمجھے اقبال کا درج بالاشعر پڑھ کر مغربی تہذیب کی خودکُشی کا انتظار کرنے لگتے ہیں۔ مگر وہ یہ نہیں دیکھتے کہ مغرب کے مقابل وہ جس خاندانی نظام کی تعریف میں رطب اللسان ہیں، اس کی حالت کیا ہوچکی ہے۔

معلوم نہیں اقبال کے سامنے وہ کونسا مشرقی خاندانی نظام تھا جس کے مقابل وہ مغربی تہذیب کی خودکشی کی پیشین گوئی فرما رہے تھے۔ جبکہ ستم ظریفانہ حقیقت یہ ہے کہ اس خاندانی نظام کے تحت ہونے والی ان کی اپنی پہلی شادی کا تجربہ کسی جہنم سے کم نہیں جس سے فرار کے لیے انہوں نے یکے بعد دیگرے عطیہ فیضی اور اپنی ایک جرمن ٹیچر ایما ویگےکے عشق میں پناہ لینے کی کوشش کی۔ مشرقی انداز میں خاندان سازی کے پہلے تجربے کی تلخی کو انہوں نے عطیہ فیضی کے نام ایک خط میں یوں بیان کیا۔ لکھتے ہیں
’’وہ مجھ پر میری بیوی مسلط کررہے ہیں۔ مَیں نے اپنے والد صاحب کو لکھ دیا ہے کہ انہیں میری شادی ٹھہرانے کا کوئی حق نہ تھا، بالخصوص جبکہ مَیں نے ایسے کسی حبالۂ عقد میں داخل ہونے سے دوٹوک انکار کردیا تھا۔ مَیں اُس کا نان نفقہ برداشت کرنے کو تو ضرور آمادہ ہوں، لیکن اسے اپنے ساتھ رکھ کر اپنی زندگی اجیرن بنانے کے لیے قطعی تیار نہیں ہوں۔ ایک انسان ہونے کے ناطے میرا بھی خوشی پر حق ہے۔ اگر سوسائٹی یا نیچر مجھے اس سے محروم کرتی ہے تو مَیں دونوں کے خلاف عَلمِ بغاوت بلند کرتا ہوں۔ اس مصیبت کا واحد علاج یہی ہے کہ مَیں اس بدنصیب ملک کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ جاؤں یا پھر شراب نوشی میں پناہ لوں کہ خودکشی کا مرحلہ آسان ہو جائے۔‘‘

Advertisements
julia rana solicitors

اقبال اس خط میں جس والد اور سوسائٹی کے رویوں کو بطور جبر پیش کر رہے ہیں وہ سرتاپا مشرقی خاندانی اقدار کے نمائندہ تھے جن سے تنگ آکر اقبال خودکُشی تک کرنے پر تیار تھے مگر ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ وہ اس سماج کی خودکشی کی پیشین کررہے تھے جس نے انھیں اپنی آزاد انسانی اقدار سے پنپنے والی فضا میں ایک نہیں دو دو ماڈرن اور اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین سے بھرپور عشق کے مواقع فراہم کیے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply