• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • مہر افروز کا افسانہ “خودکشی” کا فنی و فکری مطالعہ/ ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی

مہر افروز کا افسانہ “خودکشی” کا فنی و فکری مطالعہ/ ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی

مہر افروز کا افسانہ ’’خود کشی‘‘ انسانی رشتوں کی پیچیدگیوں، معاشرتی دباؤ اور مایوسی کے تباہ کن نتائج کے بارے میں ہے۔ سیتا بائی کے ساتھ مرکزی کردار کی بات چیت کے ذریعے اس کی سرشار خدمت گار، افروز ہمدردی کے موضوعات، خاندانی حرکیات، اور معاشرے میں بیواؤں کو درپیش تلخ حقیقتوں کے بارے میں بہترین کہانی ہے۔ مہر افروز کہانی کا آغاز یوں کرتی ہیں کہ ”وہ مسلسل رو رہی تھی۔میں نے اکثر اسے اپنی ساری کے پلو سے آنسو پونچھتے دیکھا ہے مگر میں کبھی پوچھتی نہیں تھی کہ ” کیا ہوا ہے “ہاں یہ کوشش کرتی کہ اسے اس دن کسی کام کے لئے نہ پکاروں۔ وہ میری اٹینڈر تھی۔پچھلے چودہ سالوں سے میرا چیمبر صاف کرنا ،پانی کی بوتل میرے ٹیبل پر رکھنا ،فوٹو کاپی بنا دینا ، پوسٹ چھانٹ کر سب ماتحتوں کو پہنچانا اور اگر کوئی مجھ سے ملنے آئے تو اسکی اجازت دلوانا اسکے فرائض میں شامل تھا ۔صبح جیسے ہی میں دفتر میں داخل ہوتی وہ میرا لیپ ٹاپ مجھ سے لیتی یا کبھی کبھی وہ فائلز اٹھا لیتی جن کو میں دیکھنے کے لئے گھر لے جاتی ۔ دوپہر میں جب کھانے کا وقفہ ہوتا تو وہ مجھ سے پوچھتی میں کیا کھاؤنگی اور جاکر کینٹین سے لے آتی ۔میں جب بھی کسی کام سے چیمبر سے باہر نکلتی تو وہ چوکیدار بن جاتی اور کسی کی مجال نہ تھی کہ اندر داخل ہوتا ۔وہ بیوہ تھی اسکے شوہر کی نوکری اسے مل گئی تھی۔ بچے اتنے چھوٹے تھے کہ کوئی نوکری لے پاتا ۔دو بیٹیاں اور ایک بیٹا۔ میں اسکے بہت سے دکھوں کی راز دار تھی ۔اسکی بڑی بیٹی کسی غیر قوم والے کے ساتھ بھاگ گئی۔ وہ بڑی پریشان تھی۔ میں نے سمجھایا وہ بالغ ہے اور اسے اپنا ساتھی چننے کا اسے حق ہے۔دوسری بیٹی کو اس نے اسکول سے اٹھوالیا کہ وہ بھی بھاگ جائیگی ۔میں نے پھر سمجھایا کہ سب ایسے نہیں ہوتے”۔

کہانی کا مرکزی کردار سیتا بائی کی پریشانی کا مشاہدہ کرتے ہوئے سامنے آتا ہے، جو ایڈز میں مبتلا ایک ساتھی کی المناک موت سے پیدا ہوا اور اس کے مستقبل کی حفاظت کے بارے میں اس کے بیٹے کے سخت تبصروں سے جڑا ہے۔ سیتا بائی کی حالتِ زار بہت سی بیواؤں کی جدوجہد کا مظہر ہے، جو نہ صرف معاشی عدم استحکام بلکہ معاشرتی نظرانداز اور بے عزتی کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ مہر افروز لکھتی ہیں ”اس نے کسی طرح لڑکی کو بارھویں کروایا پھر جیسے ہی وہ اٹھارہ سال کی ہوئی اسکی شادی کردی ۔ بیٹا گریجویشن میں تھا ،اچھا اسپورٹس مین تھا۔میں نے اسکا بی پی ایڈ میں داخلہ کروادیا اور اب اس بات کو تین سال ہوچکے تھے ۔ وہ ہمارے کالج کے پیچھے بنے پیونز کوارٹرس میں رہتے جسکا کرایہ واجبی سا تھا۔ اسطرح اسکے گھر کی ہر خبر مجھے مل جاتی۔ جس دن وہ ساری کے پلو سے آنسو پونچھ رہی ہوتی اس دن میں اسکے لڑکے کو بلوا کر بات کرتی کہ وجہ کیا ہے ؟وہی ازلی مرض ہوتا ضروریات ،پیسوں کا سوال اور دونوں کی تو تو میں میں ۔پھر میں اسکے بیٹے کو سمجھاتی کہ بیوہ ماں کا دل نہیں دکھاتے اور خاموشی سے کچھ اسکے ہاتھ میں رکھ کر بھیج دیتی”۔

افروز نے بڑی مہارت سے مرکزی کردار اور سیتا بائی کے درمیان نازک رشتے کی تصویر کشی کی ہے، جس کی خصوصیت باہمی انحصار اور حقیقی تشویش ہے۔ اپنی مختلف سماجی حیثیتوں کے باوجود وہ ہمدردی اور افہام و تفہیم پر قائم ایک بانڈ کا اشتراک کرتے ہیں۔ سیتا بائی کو تسلی دینے کے لیے مرکزی کردار کی کوششیں اس کے دکھ کو دور کرنے کی حقیقی خواہش کی عکاسی کرتی ہیں، جو اس کے اندر موجود فطری مہربانی کو اجاگر کرتی ہیں۔ مہر افروز رقمطراز ہیں ”قت گزرتا رہا اور یہ سیتا بائی میری عادت بن گئی تھی ۔جس دن وہ بیمار ہوتی یا کسی اور جگہ اسے جانا ہوتا تو اسکا بیٹا آکر میرے کیبن کے باہر بیٹھا رہتا ۔حالانکہ میرے تین اور بھی پیونز تھے مگر اس کو چین نہ آتا اور وہ زبردستی اپنے بیٹے کو بھیج دیتی ۔یہ ہم دونوں کے بیچ کا عجیب تعلق تھا۔ آج کا اسکا رونا غیر معمولی اور عجیب تھا۔تین روز قبل ہمارے دفتر کے اس پیون کی موت ہوگئی تھی جو ایڈز کا مریض تھا۔سیتا بائی کا اسطرح مسلسل رونا مجھے شک میں ڈال گیا کہ کہیں ۔۔ پھر میں نے اپنے سر کو جھٹکا اور تسلیّ دی کہ میں غلط سوچ رہی ہوں ۔دوپہر کو وہ خود سے اندر آئی میرے لنچ کا پوچھنے ۔ میں نے اس کہ جانب ٹٹولتی نظروں سے دیکھا اور بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔وہ غریب کرسی پر بیٹھنے کی کیا ہمت کرتی زمین پر بیٹھ گئی اور اس کا غم ابل پڑا ’’ میڈم جی ….‘‘وہ ہچکچا رہی تھی ۔ ’’روی کو اس کی بیوی بچوں نے مل کر مارا ہے۔ ‘‘مجھ پر حیرت کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ’’کیا کہہ رہی ہو ؟ ‘

سیتا بائی کی المناک خودکشی سے نشان زد داستان کا عروج، کمزور افراد کے خلاف جاری نظامی ناانصافیوں پر ایک پُرجوش تبصرہ کے طور پر کام کرتا ہے۔ سیتا بائی کا مایوسی کا حتمی عمل معاشرتی پسماندگی کے گہرے اثرات اور پسماندہ لوگوں کی حالت زار کو نظر انداز کرنے کے سنگین نتائج کی نشاندہی کرتا ہے۔مہر افروز لکھتی ہیں۔ ”ہاں میڈم جی یہ سچ ہے۔میں نے خود انکے گھر کی سب آوازیں سنی ہیں۔‘‘ ’’ کیا تم اس لئے رو رہی ہو؟ ”شک کے سانپ نے میرے اندر پھر سر اٹھایا۔ ”نہیں میڈم جی ! کل گنیشن نے مجھ سے بہت بُرا برتاؤ کیا۔اسکا کہنا ہے کہ ابھی روی کی تین سال سروس باقی تھی، وہ مرگیا تو نوکری اسکے بیٹے کو مل جائیگی ۔۔مگر میرا کیا ہو گا،میں نہ تم کو مار سکتا ہوں نہ تمہیں ایڈز ہے”۔ مجھے بہت دھکا لگا کہ میرے بیٹے کے منہ سے یہ بات نکلی۔مجھے یقین نہیں آتا یہ وہی بیٹا ہے جسکی پرورش میں نے اتنی مشکلوں سے کی ہے ۔ وہ پھر پھپھک پھپھک کر رونے لگی۔ میں اپنی کرسی سے اٹھ کر اس کے قریب گئی، دلاسہ دیا کہ وہ کچھ نہ سوچے ۔بچے کبھی کبھی بنا سوچے سمجھے کچھ بول دیتے ہیں۔ میں نے جیسے ہی پانی کا گلاس اسکے لئے بھرنے کی کوشش کی تو وہ ہڑا بڑا کر اٹھی اور کہا ”میڈم جی !نرک بھیجنا ہے کیا ؟آپ میرے لئے پانی دیں گی !میں چائے لاتی ہوں ۔‘‘وہ تھرماس اٹھا کر آنسو پونچھتی نکل گئی ۔میں نے درست رگ پکڑی تھی”۔

سیتا بائی کے بیٹے کی بے رحمی اور مرکزی کردار کی بے اعتباری کے ذریعے افروز بیواؤں اور پسماندہ لوگوں کی جدوجہد کے تئیں معاشرے میں پائی جانے والی بے حسی کو بے نقاب کرتا ہے۔ سیتا بائی کے بیٹے کی طرف سے اپنی ماں کی خیریت کو نظر انداز کرنا کمزور افراد کی حالت زار کے تئیں وسیع تر سماجی بے حسی کی عکاسی کرتا ہے، نظامی عدم مساوات کو حل کرنے کے لیے ہمدردی اور ہمدردی کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔

بیانیہ کا مدھم لہجہ اور پُرجوش منظر کشی اداسی کے احساس کو جنم دیتی ہے، جو قارئین کو معاشرتی نظراندازی اور بے حسی کی انسانی قیمت کے بارے میں غیر آرام دہ سچائیوں کا سامنا کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ افروز کی ماہرانہ بیانیہ کاریگری اور جذباتی کہانی سنانے کے اسٹائل نے “خودکشی” کو ایک بہترین سماجی اور معاشرتی کہانی کے طور پر سامنے لایا ہے، جو قارئین کو سماجی حیثیت یا حالات سے قطع نظر ہر فرد کی موروثی وقار اور قدر پر غور کرنے پر اکساتی ہے۔ مہر افروز کہانی کا اختتام یوں کرتی ہیں کہ ”دوسری صبح دفتر پہنچی تو دیکھا کہ آفس کے سامنے ہجوم جمع تھا۔ لوگوں کو ہٹاتی میں گیٹ میں دا خل ہوئی تو دیکھا سیتا بائی کے گھر کے سامنے لوگ جمع ہیں۔ میری چھٹی حس مجھے کچھ خبردار کر رہی تھی۔وہ پھانسی لگا کر لٹک چکی تھی اور اسکی بیٹیاں پچھاڑیں کھارہی تھیں ۔میری بیساختہ نظریں اسکے بیٹے کی طرف اٹھیں تو دیکھا وہ رو تو رہا تھا مگر بڑے سکون کے ساتھ۔۔میری انگلیاں پرس میں سے مو بائل تلاش کرنے لگیں، میں پولیس سے بات کر رہی تھی کہ میرے کالج میں ایک پیون نے خودکشی کر لی ہے۔ خودکشی کہتے وقت ایک لمحہ کو میری زبان لڑکھڑائی تھی ”۔

Advertisements
julia rana solicitors london

خلاصہ کلام یہ ہے کہ مہر افروز کا افسانہ “خودکشی” انسانی سلوک، سماجی نظر اندازی، اور مایوسی کے تباہ کن نتائج کی زبردست تحقیق پیش کرتی ہے۔ باریک بینی اور پُرجوش کہانی کے ذریعے مہر افروز قارئین کو پسماندہ افراد کو درپیش تلخ حقیقتوں کا سامنا کرتے ہوئے ایک زیادہ مساوی معاشرے کو فروغ دینے میں ہمدردی اور ہمدردی کی تبدیلی کی طاقت کو اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کررہی ہیں۔ میں مہر افروز کو اتنی اچھی کہانی تخلیق کرنے پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔

Facebook Comments

ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
*رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ''کافرستان''، اردو سفرنامہ ''ہندوکش سے ہمالیہ تک''، افسانہ ''تلاش'' خودنوشت سوانح عمری ''چترال کہانی''، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، ورلڈ ریکارڈ سرٹیفیکیٹس، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔ کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں، اس واٹس ایپ نمبر 03365114595 اور rachitrali@gmail.com پر ان سے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply