سنائپر۔۔شاہین کمال

میرا دفتر سنڑل پارک کے پُرفضا مقام پر ہے۔ بیسویں منزل سے یہ بھاگتی دوڑتی دنیا اتنی فتنہ خیز نہیں لگتی اور اتفاق سے میری کیوبکل کی کھڑکی بھی پارک کی سمت کھلتی ہے۔ میں عموماً اپنا کافی کا پہلا وقفہ اسی کھڑکی سے باہر کا نظارہ کرتے ہوئے بتاتی ہوں۔ یہ پندرہ بیس منٹ کلی طور پر میرے اپنے ہوتے ہیں اور یقیناً میرے لیے ہائی لائٹ آف دی  ڈے۔

اب یہ کوئی چھپا راز تو ہے نہیں کہ نائن الیون کے بعد دنیا پہلے  جیسی نہیں رہی ہے۔ ہم مسلمان تو خیر بہت بری طرح متاثر ہوئے ہیں، اس قدر کہ ہمارا تاریخ اور جغرافیہ سب بدل گیا ہے مگر مجھے اس وقت شدید جھٹکا لگتا ہے جب مجھے اس دہشتگردی سے گورے خصوصاً امیریکن بھی متاثرہ ملتے ہیں۔

میں اسے تقریباً روز ہی سنڑل پارک کے جنوبی داخلی دروازے پر دیکھتی تھی۔ اس کا نظروں میں آنا تو بنتا تھا کہ ایک تو اس کے جسم پر فوجی جیکٹ اور اس پر اس کا شان استغنا سے کھڑے رہنے کا انداز حالانکہ وہ ہوم لیس تھا۔
مگر کیوں؟
وہ ایسا سوالی تھا جو کبھی سوال نہیں کرتا تھا۔ کسی نے کچھ دے دیا تو بڑی خوش دلی سے سر سے ٹوپی اتار کر دائیں ہاتھ میں تھامتے ہوئے دینے والے کے آگے بطور شکر گذاری جھک جاتا۔ عجیب ترین بات یہ تھی کہ اس منگتے کو میں نے اکثر بانٹ کر کھاتے دیکھا۔ میرا قلم کار ذہن اس کردار میں روز بروز الجھتا جا رہا تھا، آخر اس کو قریب سے دیکھنے کی چاہ میں، میں نے آج وقفہ برائے طعام میں نیچے اترنے کا فیصلہ کر لیا۔ وسط اکتوبر کا خوشگوار دن، پت جھڑ ابھی مکمل فاتح نہیں تھی سو بیشتر درخت ابھی تک زدر ،نارنجی، بھورے پیراہن سے آرستہ تھے گو ہوا میں خنکی تھی مگر ہوا ایسی سبک اور تازہ جو روح کو از سرے نو سرشار کر دے۔

میں نے نیچے اتر کر قریبی میکڈونلڈ سے فش برگر لیا اور جان بوجھ کر اس کے قریب والے بنچ پر بیٹھ گئی ۔ اس خستگی و ماند  گی میں بھی اس کی شخصیت اثرانگیز تھی۔ چھ فٹ سے نکلتا قد، لمبا چھریرا جسم، نیلگوں سمندر جیسی آنکھیں جو متجسس اور بے قرار تو تھیں  ہی مگر ان میں ایک واضح اداسی رچی بسی تھی۔ اٹھی ہوئی ستواں ناک اور لب بے تحاشہ و بے مہار داڑھی اور مونچھوں میں پوشیدہ۔ میں نے تقریباً پندرہ بیس منٹ اسے اپنی نظروں کے ریڈار میں رکھا۔ کیوبکل کی کھڑکی سے تو وہ متحرک نظر آتا تھا مگر قریب سے دیکھنے پر جو چیز سب سے زیادہ حیران کن تھی وہ اس کی اداسی تھی۔ یہ بلاشبہ ایسا کردار تھا جیسے کسی بھی قیمت پر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

نیویارک تو اپنے اندر ایک جہان کی نیرنگی سموئے رکھتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ ایک غریب پرور شہر بھی ہے کہ یہاں آپ کو قدم قدم پہ ہوم لیس ملیں  گے، خاص کر ٹرین اسٹیشن پر۔ پولیس ان کے تعاقب میں ہوتی ہے پر پولیس کی نظر ستم کا عمومی ہدف بھی کالے ہی ہوتے ہیں اور گورے ہوم لیس کو فوری پولیس بھی طرح دے جاتی ہے۔ اکیسویں صدی بھی دھنوان نہ نکلی کہ نہ ہی غریبوں کے دن پھرے اور نہ ہی بنی آدم کو اتنا شعور و وسعت قلبی عطا ہوئی کہ تعصب کی عفریت کو شکستہ کر سکے۔ اس کو دیکھنے کے بعد مجھے یقین تھا کہ اس سے ایک ملاقات ضروری ہے ورنہ وہ آسیب بن کر میرے اعصاب پر سوار رہے گا۔ جمعہ کے دن، اگلے دو دنوں کی چھٹیوں کا سوچ کر عموماً لوگوں کا مزاج بشاش ہوتا ہے۔ میں نے بھی اس جمعہ کو لنچ بریک کے بعد آف لے لیا کہ سنیچر کو میرے دلارے بیٹے کی آٹھویں سالگرہ ہے اور میری ٹو ڈو لسٹ(to do list) طویل مگر تمام مصروفیات کے باوجود آج میرا اس سے ملنے کا  مصمم ارادہ ہے۔ کیوبکل کی کھڑکی سے نیچے جھانک کر اسے اپنی مخصوص جگہ موجود پاکر اطمینان کیا۔
میکڈونلڈ سے اپنے لیے فش اور اس کے لیے چکن برگر و فرائز اور کوک کا کین لیکر اس کی جانب بڑھی۔ بینچ پر بیٹھ کر اس سے ہائے ہیلو کی۔
ہائے ینگ لیڈی!  مجھے پتہ تھا کہ تم ضرور آؤ گی۔
کیا ؟کیا کہا تم نے؟ میں  نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا۔
ہاں تم نے پچھلے ہفتے اسی بنچ پر بیٹھ کر میرا تفصیلی جائزہ لیا تھا نا، اس نے ہنستے ہوئے کہا۔
ارے تمہیں یاد ہے؟ میں نے اپنی خفت مٹانے کی کوشش میں مسکراتے ہوئے کہا۔
یس، خوب صورت خواتین کو کوئی بد ذوق ہی بھلا سکتا ہے۔
میں نے بے ساختہ قہقہہ لگاتے ہوئے کہا کہ آ جاؤ اس سے پہلے کہ  برگر ٹھنڈا اور کوک گرم ہو جائے۔ آج موسم قدرے ابر آلود سو ٹھنڈی ہوا قدرے تیکھی تھی۔ اس نے بھی اپنی فوجی جیکٹ کی زپ اوپر تک چڑھائی ہوئی تھی اور ٹوپی سے حتی المقدور کانوں کو ڈھانپنے کی کوشش بھی۔
تم میرے بارے میں متجسس ہو نا؟
اس نے کوک کا لمبا گھونٹ بھرتے ہوئے پوچھا۔
ہاں، میں تم سے غلط بیانی نہیں کروں گی، میں ایک قلم کار بھی ہوں اور وہاں اپنی کیوبکل کی کھڑکی سے تمہیں اکثر دیکھتی ہوں اور تمہاری کہانی جاننا چاہتی ہوں۔ میں نے اپنی آفس کی بلڈنگ کی طرف انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے جواب دیا۔
واؤ  ! وہ کھل کے ہنسا۔

میری کہانی خاص ہے بھی اور نہیں بھی۔ جیسا کہ میری جیکٹ اور ٹوپی سے تم نے جان ہی لیا ہوا گا کہ میں ایکس آرمی آفیسر ہوں۔ میں نے اپنی جوانی کے بائیس سال امریکن آرمی کو دیے۔ میں سنائپر تھا۔ اس نے مجھے بغور دیکھتے ہوئے اپنے لفظوں کے اثرات کو میرے چہرے پر کھوجا۔ یہ حقیقت ہے کہ لفظ سنائپر سنتے ہی میری ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ دوڑ گئی تھی۔ پہلے میں نے اعراق اور پھر افغانستان میں خدمات انجام دیں۔ میرے ہاتھ سات نامور لوگوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں اور اب اس ڈھلتی عمر میں، میں پچھتاؤوں کی چتا میں جل رہا ہوں۔ اوائل جوانی میں آرمی میں بھرتی ہونا اس قدر تھرلنگ thrilling لگتا ہے کہ آپ کچھ سوچنے سمجھنے کے قابل ہی نہیں رہتے۔ اعراق نے مجھے اتنا نہیں ہلایا تھا جتنا افغانستان میں میرے آخری ہدف نے۔ بس اس آخری شوٹنگ کے بعد میں کسی جوگا نہیں رہا۔ میری ذہنی حالت اتنی ابتر ہوئی کہ مجھے فوج سے چھٹکارا مل گیا۔ برسوں میرا ماہر نفسیات سے علاج ہوا مگر سب بے سود۔ میرا آخری ہدف میرے دماغ سے نکلتا ہی نہیں تھا اور روز رات میرے بستر کے پائنتی آکر کھڑا ہو جاتا ہے۔ گھبرا کر میں نے گھر چھوڑ دیا اور اب میں کھلے آسمان تلے کہیں بھی لیٹ جاتا ہوں مگر وہ روز رات پابندی سے آنا ہی نہیں بھولتا۔ میں نے اپنے سارے فوجی اعزازات دریا برد کر دیے اور میں ضمیر کی چبھن سے بچنے کے لیے پنشن بھی نہیں لیتا مگر مجھے سکون نہیں۔

مجھے اب کینسر ہے اور میں جانتا ہوں کہ میں عنقریب بے کسی کی موت مروں گا۔ میں خدا پرست نہیں مگر یہ بھی مانتا ہوں کہ دنیا میں کیے گئے عمل کا حساب تو دینا ہی پڑتا ہے۔ میں نے اپنے ڈاکٹر سے پوچھا تھا کہ میرا، مرنے کے بعد کیا انجام ہو گا؟
جہنم تو یقینی ہے اور شاید میرے لیے سات جہنم ہوں  گی۔ میرے ڈاکٹر نے مجھے تسلی دی کہ یہ سب تو جنگ کا حصہ ہے اور تم نے جو بھی کیا اپنی ڈیوٹی کی بجا آوری کے تحت کیا۔ مگر میں کیا کروں کہ مجھے قرار نہیں؟
اس نے بے قراری سے اپنا سینہ مسلتے ہوئے کہا۔ میں اب پیتا بھی نہیں کہ کچھ دیر ہی سہی مدحوش ہو کر سب کچھ بھول جاؤں۔ میں وہ  بدبد نصیب ہوں جو بھول کر بھی اس واقعے کو نہیں بھولتا۔ جو میں نے کیا ہے خدا نہ کرے کہ اس کا آدھا بھی کوئی شخص کرے۔

کاش کاش!  کبھی بھی کسی کو پسٹل کا ٹریگر نہ دبانا پڑے کہ مرنے والے کے ساتھ ساتھ مارنے والا بھی وقفے وقفے تھوڑا تھوڑا مرتا رہتا ہے۔
میں سکتے کی سی کیفیت میں اس کی روداد دل خراش سن رہی تھی۔ اعراق اور افغانستان کے ذکر نے میرے دل کو لہو لہو کیا کہ وہ میرے ہی لوگ تھے۔
وہ اب برگر کھانا بھول چکا تھا اور خلا میں ایک غیر مرئی نقطے کو گھورتے ہوئے ایک ٹرانس کی کیفیت میں اس واقعے کا ذکر کر رہا تھا۔
میں قندھار میں پوسٹڈ تھا اور اس شام حسب معمول ٹاور پر اپنی ڈیوٹی نبھا رہا تھا جب مجھے اطلاع ملی کہ ایک سات آٹھ برس کا بچہ ایک بیک پیک میں C2 لیکر بیرئیر کے پار آ چکا ہے، جانے کیسے اس نے چیک پوسٹ والوں کو غچہ دیا ؟ اس کا بھید تو اسنفر ڈاگSniffer dogنے کھولا۔ اب مجھے حکم تھا کہ میں اسے نشانے پر لے لوں۔

مگر یہ تو بچہ ہے؟
میں نے ہچکچاتے ہوئے کہا
ہاں مگر دشمن کا۔
مجھے شوٹ کرنے کی تاکید کے ساتھ جواب آیا۔

گولی چلانے کے بعد میں تیزی سے ٹاور سے اترا اور دوڑتے ہوئے اس کے پاس پہنچا۔ موت اس پر اپنے منحوس پنجے گاڑ رہی تھی اور وہ آخری دموں پر تھا۔ میں نے اسے اپنی گود میں لے لیا۔ گولی گردن پر لگی تھی اور اس کے بھل بھل ابلتے خون نے میری وردی کو لہو رنگ کر دیا تھا ۔ اس کی شربتی آنکھوں سے ایک قطرہ آنسو کا ڈھلکا اور وہ آخری بار پھڑک کر ساکت ہو گیا۔
میرے اور ساتھی بھی تب تک قریب آ چکے تھے۔ میں نے اسے زمین پر لٹایا اور اسے سلوٹ کیا کہ وہ ننھا مجاہد تھا۔
بس اس دن کے بعد سے میری نیند مجھ سے روٹھ گئی اور میں آنکھیں نہیں بند کر سکتا۔ بس اب اسٹیٹ اسٹیٹ مارا مارا پھرتا  ہوں، آج یہاں، جانے کل کہاں؟

Advertisements
julia rana solicitors

اب جلدی ہی نیویارک بھی چھوٹنے کو ہے۔
جانے میرا اگلا پڑاؤ کہاں ہے؟
میں کہ اپنی آخری منزل کی تلاش میں ہوں، ابدی سکون کی لوبھ میں مبتلا مگر جو شاید وہاں بھی نہیں، کہیں بھی نہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply