اٹلی ہے دیکھنے کی چیز(قسط11)۔۔سلمیٰ اعوان

تریوی فاؤنٹین

o تریوی فاؤنٹین کے پانیوں کی پھوٹنے اور گرنے کی گنگناتی آوازیں آپ کو چونکاتی اور کِسی خوبصورت منظر کا دروازہ کھولنے کا اذن دیتی ہیں۔
o دائیں ہاتھ اور بائیں کندھے سے ہوتا ہوا سکہ پانیوں میں گرا اور میرے اندر نے کہا۔پروردگار میں روم دوبارہ آنا چاہتی ہوں۔

میرے خیال میں کسی بھی شہر سے تعارف لوکل بسوں، میٹرو یا پھر وہاں کی پبلک موڈ آف ٹرانسپورٹ میں ٹیکسی کا بھی اضافہ کر لیں، بہترین ذرائع ہیں۔ یہ بس مقامی تو تھی مگر سیاحوں کے لئے وقف تھی۔ تاہم شہر سے آشنائی کی صورت تو موجود تھی نا۔
میں نے سوچا تھاکچھ روم کا مزید دیدار ہوگا اور جب جی چاہے گا تب خیر سے تریویTrevi Fountain دیکھنے کے لئے اُتر جاؤں گی۔ اس کی بھی بڑی شہرت ہے کہ روم آکراسے نہ دیکھنا کچھ ایسا ہی ہے جیسے پرانے لاہور کے گلی کوچوں میں اتر کرمیاں صلاح الدین کی حویلی دیکھے بغیر بندہ باہر آ جائے۔
گائیڈ لڑکی نے پوچھا تھا۔ ”اگلا پروگرام کیا ہے؟“
جو دل میں تھا اُسے بتایا۔
مجھے محسوس ہواتھا جیسے وہ لڑکی مجھ بوڑھی عورت میں خصوصی دلچسپی لے رہی ہو۔
”وہاں تو رات کو جاؤ۔ اُسے تو برقی روشنیوں میں دیکھوگی تو لطف دوبالا ہو جائے گا۔“
میں نے بے بسی سے اُسے دیکھا اور کہا۔
”دراصل میں اکیلی ہوں۔ آپ کی گاڑی نے چھ بجے اُتار کر فارغ ہو جانا ہے۔“ ”ارے تو ٹیکسی لے لینا۔ چلو بولو ٹھہری ہوئی کہاں ہو؟“
میں نے بیگ سے ہوٹل کا کارڈ نکال کر اُسے دکھایا۔اُسے دیکھتے ہوئے اُس نے اپنا تعارف کروایا۔روم کے جنوبی شہر پوسٹینوPositano کی اُس سلونی سی نازنین ازولینونے فوراً کہا تھا۔
”آپ تو مرکز میں ٹھہری ہوئی ہیں۔کوئی مسئلہ ہی نہیں۔“
میرے ہوٹل والا کارڈ ہاتھ میں پکڑے پکڑے وہ ایک مسافر کی طرف متوجہ ہوئی جو اُس سے کچھ پُوچھ رہا تھا۔میں نے بھی نگاہوں کا رخ باہر پھیر لیا۔
سہ پہر کی دھوپ میں دوپہر والی تیزی تھی۔ اور سیاحوں کے پُروں میں بھی کچھ ویسی ہی شدت تھی۔ٹولیوں کی ٹولیاں یہاں وہاں گواچی گائیوں کی طرح گھومتی پھرتی تھیں۔ دریائے Tiber کے خوبصورت پُلوں پر سے گزرنا اورکناروں پر درختوں کی بہتات اور عمارتوں کے حسن سے مسرتیں کشید کرنے کا بھی ایک مزہ تھا۔ بیٹھے بیٹھے میں نے اولڈ سٹی والز کو دیکھا۔کچھ لوگ یہاں اُترے۔ کچھ چڑھے۔پورا دن چاہیے تھا اس کے لئے تو۔
قبل مسیح کے زمانوں کی اس یادگار کو دیکھنے کے لئے ازولینوAzzolino نے تھوڑی سی وضاحت کی تھی۔
پرانے وقتوں کی یہ حفاظتی دیواریں جب شہر اِن میں مقید ہوتے تھے۔یہ دیوار Servian اور چھٹے رومن بادشاہ سرویٹن نے بنائی اور اسی کے نام پر ہے۔ اور یلئینAurelianوالز، اوریلیئن شہنشاہ کا کارنامہ ہے۔تاریخ کے لیجنڈری لوگو ں کا کہنا ہے کہ روم شہر کی بنیادیں رمیولسRomulus اور رعمیس Remus نے کہیں قبل مسیح رکھی تھیں۔ہر دیوار اور دیواروں کی لمبی چوڑی تاریخ ہے۔
بس سٹاپ پر رکی ہوئی تھی۔ شاید یہاں کچھ دیر رُکنا تھا۔ازولینو اپنی ڈیوٹی میں مصروف ہوگئی تھی۔ پھر اُس نے میری طرف دیکھا اور کہا۔
”یہ بورگیز Borghese میوزیم ہے۔ آپ نے یہاں اُترنا ہے تو اُتر جائیے۔ اگلے پھیرے میں آپ کو لے لوں گی۔“
میں نے اپنی ٹانگوں کو دیکھا تھا۔
”نہیں میری بچی۔میں ابھی روم میں مزید دو دن ہوں۔ازولینونے مجھے اپنا موبائل نمبر دیا۔میری درخواست پر اُس نے خود ہی فیڈ کردیا۔مقصد تھا کہ کل میں اسی بس میں بیٹھوں جہاں اسکی ڈیوٹی ہے۔
تریوی فاؤنٹین کے بارے میں تھوڑی سی وضاحت اس وقت ہوئی جب اُس نے کہا۔
”ہم تریوی ڈسٹرکٹ میں داخل ہورہے ہیں اور یہ فوارہ تین سڑکوں کے جنکشن پر ہے۔ یہ زمانہ ماضی میں روم کے شہریوں کو پانی سپلائی کرنے کا ایک بہت بڑا خود ساختہ ذریعہ تھا۔پانی کے اِس تودے کو 1762میں نکولا سلوی جیسے ماہر تعمیرات نے باروق سٹائل دیتے ہوئے آرٹ کے رنگوں سے سجایا۔سلوی نے اِسے پوپ سے کرایے پر حاصل کیا تھا کہ وہ آب رسانی کے قدیم ترین ذرائع کی نمائش کرنے کا خواہش مند تھا۔
بس نے جہاں اُتارا۔ازولینونے بتایا تھا کہ تھوڑا پیدل چلنا اور پُوچھتی جانا۔ٹیکسی سٹینڈ کا بھی بتا دیا تھا۔
کیسی پیاری اور بیبی سی بچی ہے یہ ازولینو بھی۔تھوڑی سی سانولی ہے پر دل کی کتنی گوری ہے۔
اب پوچھنے پُوچھانے کے کام میں جُت گئی تھی۔تاہم زیادہ نہیں چلنا پڑا تھا کہ اس کے پانیوں کے پھوٹنے اور گرنے کی زوردار آوازیں آپ کو متوجہ کرتی،چونکاتی،ذہنی طور پر کِسی خوبصورت منظر کا دروازہ کھولنے کا اذن دیتی نظر آتی ہیں۔
سکوائر میں جونہی داخل ہوئی محسوس ہوا تھا جیسے کوئی گلوکار اونچے سروں میں گیت گاتا مجھے خوش آمدید کہہ رہا ہو۔
ٍ کیسی تھکن، کہاں کی تھکاوٹ؟نہال ہوگئی تھی۔موہ لینے،جذب کرلینے اور متحرک قدموں کو روک دینے والا منظر سامنے تھا۔بس لگتا تھا جیسے طلسم ہوش ربا کی دنیا میں داخل ہوگئی ہوں۔ سہ منزلہ کہیں چہار منزلہ عمارات کا تعمیری حُسن شام کی کرنوں کے طلائی رنگوں میں چمکتا تھا۔کہیں گاجری،کہیں چنبیلی، کہیں سرسوں،کہیں مٹیالے آسمانی رنگوں کی بہار لگی پڑی تھی۔
پس منظر میں جو محل تھا وہ بھی آن بان اور شان والا تھا۔سلوی نے اِسے تھیڑ کی صورت دی تھی۔اس کے منہ متّھے کو کیا کیا ماورائی روپ دئیے تھے۔صدقے جاؤں رومن آرٹسٹوں کے۔
واہ کیا دلربا سے منظر سامنے تھے۔ایک طرح اِدھر اُدھر بکھرے ہوئے،مگر گنگ کرنے والے کہ کھڑی بٹر بٹر اِنہیں تکے چلی جارہی تھی۔آنکھیں جیسے مدار پر چڑھ گئی تھیں۔گھوم رہی تھیں۔کبھی دائیں،کبھی بائیں،کبھی سامنے۔ دائیں بائیں پھیلی عمارتوں کے رنگ و روپ تو چلئیے خوبصورت تھے ہی مگرانسانوں اور جانوروں کو آرٹ کے کن کن سانچوں میں ڈھالا گیاتھا۔ مجسموں کے انداز اور چٹانوں پر اس کی وسعتوں کو کیسے گھیرے میں لیا گیا۔واقعی اِسے رات کو دیکھنے کا اپنا ہی ایک لُطف ہوگا۔
میں بینچ پر بیٹھ گئی تھی۔کیا پُرفسوں دنیا تھی مگر صرف محبت کرنے والوں کی کہ ہرسو نظارے تھے۔کہیں پانیوں میں کھڑے ننگے مجسموں کے اور کہیں زندہ رومیو جیولٹ کے۔
اگر یہ دنیا کا خوبصورت ترین باروق سٹائل کا فوارہ آرٹ کا ایک نادر شاہکار ہے تو وہیں یہ ایک خوبصورت روایت سے بھی جڑا ہوا ہے کہ اس میں اگر سکہ پھینکا جائے تو پھینکنے والا پھر روم آتاہے۔مزے کی یہ بات بھی کہ دو سکّے پھینکنے کا مطلب بہت جلد شادی اور تین سکے اگر پھینکے گئے تو لازمی طلاق۔اب اس میں جدّت کچھ یوں کرلی گئی ہے کہ سکے تو تین پھینکے جائیں مگر ایک اپنے دایاں ہاتھ سے دوسرے کے بائیں کندھے سے اچھال کر۔
خلقت تھی کہ موج مستیوں میں اُلجھی ہوئی۔بیٹھنے کے انتظامات بھی مزے کے تھے۔جہاں جی چاہے بیٹھو۔فوارے کے گردا گرد بنی سلیب پر بیٹھ کر سبزی مائل نیلگوں پانیوں میں ہاتھ ڈالو۔اور اِس بات کو اپنے کریڈٹ پر ڈال لو کہ روم کے پانیوں سے ہاتھ دھوئے ہیں۔
ایک فلم میں اب نام یاد نہیں اگر رنگیلے نے اس ڈائیلاگ پر بے حد داد سمیٹی تھی کہ میں نے تین سال تک ہانگ کانگ کے نلکوں کا پانی پیا ہے کوئی مذاق تھوڑی ہے تو آپ بھی کہہ سکتے ہیں کہ میں نے تین دن روم کے فواروں سے ہاتھ دھوئے ہیں۔کوئی مذاق تھوڑی ہے۔
میرے ساتھ ایک چُلبلا سا جوڑا بیٹھا ہوا تھا جن کے پاس اس کے بارے کتابچہ تھا۔میری دیکھنے کی خواہش پر انہوں نے اِسے میرے حوالے کردیا۔فوارے کی تاریخ کیسی دلچسپ اور رومانونی سے تصور کی حامل تھی۔
”تو کہتے ہیں۔میں نے خود کو سُنایا چند لمحوں کے لئیے چلونا اُس دنیا میں جو انیس19سو سال قبل مسیح کی تھی۔
وہ وقت جب سیزر کا بیٹا آگسٹس حکمران تھا۔رومن سپاہیوں کے ایک ٹولے کو دوران گشت پیاس لگی۔دراصل آگسٹس کے داماد اگرپاAgrippaنے روم کے گردونواح میں پانی کے فوارّے ڈھنڈونے کی ڈیوٹی انہیں سونپی تھی۔گرمی کے دن اور تپتا سورج۔پیاس نے حلق میں کانٹے اُگا دئیے۔پاگلوں کی طرح پانی کی تلاش میں اِدھر اُدھر گھومتے تھے کہ چاند چہرے جیسی ایک نوجوان کنواری لڑکی نظرآئی۔لڑکی مسکرائی اور اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔اسی چشمے پر وہ انہیں لے آئی۔جس کے ٹھنڈے میٹھے پانیوں سے انہوں نے پیاس بجھائی۔
وہاں اور بھی بہت کچھ تھا۔پھر کیا ہوا؟اور پھر یہ کیسے اپنی موجودہ شکل کو پہنچا۔اور میں نے خود سے کہا تھا۔
”ارے بھئی میں نے کچھ اِس چکر میں نہیں پڑنا۔لوگ تو پہلے ہی ناکوں ناک آئے پڑے ہیں میری تاریخ دانی سے۔ہاں بس اتنا ہی کافی ہے کہ دنیا میں کوئی ملک کوئی جگہ ایسی نہیں جس نے پانیوں کی طاقت کو نئی جنیاتی تعمیرات کے ساتھ اِس درجہ اہتمام سے منانے کا اہتمام کیا ہو۔ جیسا کہ روم نے کیا ہے۔ ہاں البتہ مختصر سا تعارف اتنا سا کافی ہے کہ مجسمے بحر،صحت،کثرت Abundance وغیرہ کے نمائندے ہیں۔بالکونیوں میں کھڑے مجسموں کی دل رباعی آنکھوں کو جگمگاتی ہے۔
میرے پاس بیٹھے جوڑے نے اپنے کندھوں کے اوپر سے سکہ اچھال کر پانیوں میں پھینکا۔مجھے یہ بھی پتہ چلا تھا کہ ہر روز ڈھیروں ڈھیر یہ سکے جو تقریباً 3000یورو کی مالیت کے ہوتے ہیں۔اِسے روم کی ایک سپر مارکیٹ کو دیا جاتا ہے جہاں غریب لوگ رعایت پر کھانے پینے کی چیزیں حاصل کرلیتے ہیں۔واہ کیا کہنے ہیں ایک رومانی اور روایتی حرکت کاتعمیری اور بہترین اخلاقی نمونہ اور کردار۔
کیسا رنگ رنگیلا سا مجمع بکھرا ہوا تھا۔ کہیں سیڑھیوں پر، کہیں سنگی بینچوں پر بیٹھا۔ شادی شدہ نئے نویلے جوڑے بھی بہتیرے تھے۔ شام بہت خوبصورت تھی۔کرنوں کی تپش بہت کم ہو گئی تھی۔ میں نے سوچ لیا تھا میں یہاں رات کا پہلا
پہر گزاروں گی۔ ٹیکسی سے واپسی کروں گی۔میں نے یہ منظر دیکھنے ہیں۔مڑ کون روم آتا ہے یا قسمت یا نصیب۔
میں اپنا کافی کا مگ بھروا لائی تھی۔فش سینڈوچز بھی ساتھ تھے۔ رات کی اپنی زُلفیں کھولنے سے قبل کے منظروں کی کوئی بوقلمونیاں تھیں۔میں کِسی فلمی سین کی طرح آنکھیں اس سکرین پر جمائے حیرتوں میں کنگ تھی۔ستاروں نے اپنے حُسن کی پوٹلی کھول کر یوں دھرتی پر اُچھالی تھی جیسے کوئی راجہ مہاراجہ جوش مسرت میں اپنے ہیرے جواہرات کے خزانوں سے مٹھیاں بھر بھر کر اپنی رعایا پر اُچھال دے۔سکوائر السپراؤں سے بھرا پڑا تھا۔ دھیرے دھیرے ماحول ایک سرمدی گیت میں ڈوب رہا تھا۔قہقوں کی برسات برس رہی تھی۔
میرے خیال میں فش سینڈوچ کی چھوٹی سے چھوٹی بائٹ اور کافی کے چھوٹے چھوٹے گھونٹوں سے میں بہتے وقت کے پاؤں میں کتنی دیر تک بند باندھ سکتی تھی۔چلو جتنی دیر بندھ سکتا ہے وہ تو باندھوں۔
پھر میں نے خود سے سوال کیا تھا۔
”میں بھی سکہ پھینکوں۔“
اندر نے اذن دیا۔تو ہرج کیا ہے۔کیا تم اِس ماحول میں دوبارہ سانس لینا نہیں چاہو گی؟
چاہوں گی۔ضرور چاہوں گی۔پرس سے سکّہ نکالا۔دائیں ہاتھ اور بائیں کندھے سے ہوتا ہوا وہ پانیوں میں گرا اور میرے اندر نے کہاتھا۔
”پروردگار میں روم پھر آنا چاہتی ہوں۔“

Advertisements
julia rana solicitors

٭٭٭

Facebook Comments