سسٹم فورس اور عوامی سپرنگ/ٹیپو بغلانی

ایک طرف پنجاب اسمبلی میں مریم نواز نے وزارتِ اعلیٰ کا حلف اٹھا کر شد و مد کے ساتھ مسلسل تین گھنٹوں تک تقریر کی۔دوسری جانب زخم خوردہ اپوزیشن خلاف توقع اسمبلی ہال سے واک آؤٹ کر کے اپنی جانب سے بہت بڑا تیر مار گئی۔
ایسا کھلا میدان چھوڑ دینے کی توقع نہ تو مریم نواز کو تھی اور نہ ہی اپوزیشن جماعت کے ووٹرز کو کوئی امید تھی۔
عوام نے تو اپنی طرف سے “جیسے مردہ کے لیے ویسے فرشتے بھیجے تھے۔”لیکن فرشتوں نے تو گونگا اور اندھا بننے سے بھی بدتر کام کیا اور چپ چاپ کر ہَوا ہو گئے ۔
اپوزیشن جماعت کے ووٹرز ابھی تک اس پچھتاوے سے باہر نہیں نکلے تھے کہ سابقہ دور میں عمران خان نے قومی اسمبلی سے مستعفی اور دونوں صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کر کے سنگین سیاسی غلطی کی تھی۔
اسٹیبلشمنٹ کو بھی یہی روش سیخ پا کر گئی تھی اور اس کے بعد پی ٹی آئی پر جو مصائب اور ستم ڈھائے گئے ان کی وجہ بھی عمران خان کا سسٹم کا حصّہ نہ ہونا تشخیص  پایا۔

کل کا اسمبلی واک آؤٹ نفسیاتی و سیاسی طور پر عوام میں ناقابل ِ قبول ہوا، قدرے مایوسی بھی در آئی۔
ن لیگ نے بیان دیا ہے کہ پختون خوا اسمبلی میں وہ بھرپور مظاہرہ کریں گے اور تمام عہدوں کے لیے نامزدگی کے ساتھ ساتھ مقابلہ بھی کریں گے،جبکہ پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن کثیر تعداد کے باوجود ووٹنگ رزلٹ اناؤنسمنٹ پر صفر ووٹ لے کر سرخرو ہوئی۔

ہالی ووڈ فلم 300 میں سپہ سالار بیرونی حملہ آور سے مقابلہ کے لیے مختلف قصبہ جات اور بستیوں سے جنگجو جمع کرتا ہے، اسی دوران اسے ایک گاؤں کے جنگجوؤں سے تعارف کرایا جاتا ہے، ڈیمو لینے کے بعد  نتیجہ نکلا کہ یہ قبیلہ جنگ میں ماہر نہیں ہے فقط شور شرابہ  کر رہا ہے۔
سپہ سالار کو مشیر کمانڈر نے یہ مشورہ دیا کہ انہیں شور شرابہ  کرنے کے لیے ہی ساتھ رکھ لیں، ہنگامہ آرائی بھی جنگی حکمت عملی کا لازمی حصّہ ہے۔بقول سینئر صحافی ارشاد بھٹی، پی ٹی آئی ٹیم سی کے ساتھ الیکشن لڑی، یعنی کھمبے الیکشن میں کھڑے کیے گئے۔الیکشن کمیشن اور اسٹیبلشمنٹ کے پاس الیکشن سے قبل کی تمام عوامی اسلوبی انٹیلیجنس باہم مرتب و دستیاب تھی۔پہلے مرحلہ پر ٹیم اے کو الیکشن مقابلہ سے نااہل کر کے باز رکھا گیا۔
دوسرے مرحلہ پر جو چند ایک درجن کانے اور توتلے بچ گئے تھے انہیں فارم 47 کی مار دے کر اسمبلی سے دور بھگا دیا گیا۔

اس وقت اپوزیشن کے پاس خالص کھمبوں، اندھوں اور گونگوں کی بھرمار ہے جن کی مستقبل کی منصوبہ بندی آج کی واک آؤٹ حکمت عملی سے مکمل طور پر واضح ہو گئی۔

تحریک انصاف نے اس بار بھی زیادہ تر ایسے لوگوں کو ٹکٹس جاری کیے تھے جو ناتجربہ کار ہیں، اب ناتجربہ کار لوگوں کی نفسیات کا سوبھاؤ بالکل علیحدہ مسئلہ ہے۔
ٹیم بھلے سی کامیاب ہوئی لیکن باہر بیٹھا ووٹر اب بھی اے کلاس سے ہے۔ووٹر کو امید تھی کہ آج اپوزیشن لیڈر اپنے دس ہزار کارکنان کی قید بندی پر احتجاج ریکارڈ کرائے گا۔
اے کلاس ووٹر کو سی کلاس اپوزیشن سے امید تھی کہ الیکشن سے قبل امیدواروں پر ہوئے جبر و استعداد پر سیاہ علم بلند کیا جائے گا۔
جماعت کو انتخابی نشان سے محروم کرنے کے عدالتی شب خون پر واویلا مچایا جائے گا۔

ووٹر کی خواہش تھی کہ اپوزیشن لیڈر جماعت کے بانی کی سیاسی مقدمات میں قید بندی اور ان کی ازدواجی زندگی پر شرمناک حملوں پر آواز حق بلند ہوتی ہے۔زخم تو وقت پر بھریں گے بے شک لیکن کچھ مرہم ہی رکھنے کی جستجو نظر آ جاتی اے کاش۔
جن آوازوں کو بین کیا گیا ہے ان آوازوں کی یاد میں کچھ نعرے بلند ہو جاتے۔
کہیں سے کوئی دبے ہوئے جذبات کی ترجمانی ہو جاتی۔
کہیں سے مایوس دلوں کے لیے امید بہار کی نوید سامنے آ جاتی
لیکن ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔
اپوزیشن لیڈر کے طور پر جماعت کوئی ایسا جوشیلا اور غیرت مند نوجوان سامنے لائے
“جو خون کو گرما دے جو روح کو تڑپا دے”
60 سالہ اپوزیشن لیڈر بنانے کی کیا تُک بندی ہے بھلا۔
اتنی عمر کے شخص کے ہارمونل ٹیسٹ کرائیے تو رپورٹس میں نہ خوشی پیدا کرنے والا ہارمون ملے گا، نہ نیند لانے والا ہارمون کام کرتا ملے گا، نہ غم اور اداسی بھرنے والا ہارمون جاگ رہا ہو گا، نہ پیاس کا پتہ دینے والا ہارمون ڈیوٹی پر چوکنا ملے گا اور نہ بھوک بتانے والا ہارمون حاضر ڈیوٹی ہو گا۔
ووٹرز حیران ہیں کہ پی ٹی آئی کو 60 سالہ شخص میں مردانگی کے ہارمون کی سطح کا بھی ادراک ہے کیا؟
ٹیسٹسٹیرون لیول ٹیسٹ کرا لیجیے جناب اپوزیشن لیڈر صاحب باقاعدہ سرٹیفائڈ نامرد ثابت ہوں گے۔ایک ٹھنڈی مردہ روح ان لوگوں کی ترجمانی کے لیے مقرر ہوئی ہے جن کی تعداد 90 فیصد سے بھی بڑھ جاتی ہے۔ووٹرز کے علاوہ دو مزید گروپس بھی اس یتیمی میں رُلنے والے ہیں۔

ایک گروپ فارم 47 کا ڈسا ہوا ہے اور اس آس پر عدالتوں کی دروازوں پر بیٹھا ہے کہ اسمبلیوں میں پہنچنے والے ان کے بھائی ان کی داد رسی کو پہنچیں گے جبکہ ان کے بھائی نہایت ادب و احترام سے واک آؤٹنگ میں مشغول و مصروف ہیں۔
ایک گروپ خواتین و نوجوانوں پر مشتمل، جیلوں میں سڑ کر جسمانی و ذہنی اذیت جھیل رہا ہے۔جو بھی وہاں سے باہر نکلتا ہے زندہ لاش بن کر نکلتا ہے
انہوں نے یہ قربانیاں اسی دن کے لیے دیں تھیں کہ سسٹم میں ان کے نمائندے پہنچیں گے اور ان کے مصائب کم ہو کر راحت و سکون میں بدلیں گے۔
لیکن اپوزیشن نہایت دلجمعی اور محنت سے واک آؤٹنگ میں مصروف ہے۔
اگر یہ کھمبے نہیں بولتے، اگر یہ ٹیم سی نہیں کھیلتی، اگر یہ ناتجربہ کار اب بھی نہیں سیکھتے تو پھر اس فورم سے ووٹرز کی امیدیں تمام سمجھیں۔
ووٹرز کچھ اور سوچیں گے اور اپنے لیول پر منصوبہ بندی کریں گے۔
ایسے ووٹرز کا ساتھ، دوسرا گروپ فارم 47 کا متاثرہ گروپ، دے گا۔
فارم 47 اس وقت ابھی تک عدلیہ اور الیکشن کمیشن کے فورم سے قانونی طور پر بندھے ہونے کے سبب مصنوعی امید کو جھیل رہا ہے جبکہ وہاں سے آنے والا ریسپانس سب پر وا ہے
پھر بھی چونکہ ان مراحل سے گزرنا لازم ہے سو وہ گزر رہے ہیں۔
مگر یہ مرحلہ بھی تین ماہ میں یا چھ ماہ میں مکمل ہو چکا ہو گا۔
یہاں سے ناکام لوٹ کر گھر پہنچنے کے بعد،حلقوں میں ووٹرز کے درمیان لوٹ جانے پر، اصلی ہلچل دیکھنے کو ملے گی۔
فارم 45 والا بھی اسی حلقے کا ہے جس حلقے کا فارم 47 والا امیدوار ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

لوگوں کی اکثریت فارم 45 والے کے ہمراہ ہے، فارم 47 کے ساتھ اسلحہ اور باڑ والی کنکریٹ کی دیواریں ہیں۔فارم 47 والے نے ان ووٹرز کے درمیان آخر کو آنا ہے جن کے ووٹ چرا لیے گئے۔
سیالکوٹ میں ایک سائیکل چور کو شہریوں نے پکڑ کر زندہ جلا دیا تھا۔دوسرے کئی شہروں میں مسجد ٹوٹی چور پکڑے گئے، عوام نے ان کی داڑھی مونچھ مونڈ کر انہیں نجاست کے بھرے لوٹے پلا کر گدھوں پر بٹھا کر شہر گھمایا۔ووٹرز کی یہ نفسیات کوئی نیا انکشاف نہیں، یہ تو یہاں کی عوام کی نفسیات ہے۔
کتنے ہی لوگ ہیں جو عدالتوں کے انصاف سے مایوس ہو کر اپنا انصاف خود لینے پہنچ گئے اور بھری کچہری میں اپنے مجرموں پر بندوقیں کھولتے رہے۔
فزکس میں ایک مضمون لچک پر پڑھایا جاتا ہے۔
وضاحت کے لیے ایک لچکدار سپرنگ لیا جاتا ہے۔
پہلے ایک خاص قوت لگا کر سپرنگ کو کھینچ کر چھوڑا جائے تو سپرنگ پہلے کی طرح ہو جاتا ہے اور سکڑ جاتا ہے۔
اسے سپرنگ کی لچک کہتے ہیں۔
پھر ایک اور خاص قوت لگا کر سپرنگ کھینچا جاتا ہے اور جب قوت ہٹا کر سپرنگ کو آزاد چھوڑا جاتا ہے تو سپرنگ واپس نہیں سکڑتا بلکہ سیدھی تار کی طرح رویہ دکھاتا ہے۔
اسے سپرنگ کی لچک ٹوٹنے کا نکتہ قرار دیا جاتا ہے۔
عوام سسٹم کو لچکدار سمجھتی رہی ہے اور اسی لیے 2024 کے الیکشن میں اتنا بڑا ٹرن آؤٹ دیکھنے کو ملا لیکن جب عوام کی آنکھوں کے سامنے سسٹم نے الیکشن ہائی جیک کر لیا تو عوام نے اس کا گہرا نفسیاتی اثر لیا ہے۔
اب وہ یہ جان گئے کہ سسٹم غیر لچکدار ہے، بریکنگ پوائنٹ پہنچ چکا ہے، کچھ بھی کر لو سسٹم کا سپرنگ واپس نہیں سکڑے گا۔
ممکنہ دفاعی نفسیاتی رویہ یہ ہو گا کہ اوورسیز لوگ اپنی فیملیز کو باہر شفٹ کر لیں گے اور ملک کے اندر رہ جانے والے لوگ قانون سے مکمل بغاوت کر لیں گے۔
جرائم میں حددرجہ اضافہ ہو گا اور اخلاقی و سماجی اقدار بری طرح متاثر ہوں گی۔
پولرائزیشن موجود ہے، پولرائزیشن ہینڈل ہو سکتی ہے لیکن اس کے لیے سسٹم کو لچکدار ہونا پڑے گا۔
25 کروڑ کی آبادی پر مشتمل ریاست کسی بھی طور جنگل کے قانون کا سامنا نہیں کر سکے گی۔
کسی ایک ادارے کو آگے بڑھ کر عوام کا اعتماد بحال کرنا ہو گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply