سیاسی ہم آہنگی کی ضرورت/ محمد اسد شاہ

مولانا فضل الرحمٰن ان سیاست دانوں میں شامل ہیں جن کی تذلیل و تحقیر کرنے میں عمران خان نے کوئی کسر نہیں چھوڑی- حتیٰ کہ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ عمران نے زیادہ دشمنی میاں محمد نواز شریف کے خلاف اختیار کی یا مولانا فضل الرحمٰن کے خلاف- حقیقت یہ ہے کہ ایک شخص جو گزشتہ تقریباً 45 سال سے ، کرکٹر، پلے بوائے اور سیاست دان کی حیثیت سے دنیا بھر کے مشہور لوگوں میں شامل ہے ، وہ اپنی تقریروں میں سرعام ایسی زبان استعمال کرتا ہے جو مہذب لوگوں کے ہاں نجی محافل میں بھی استعمال نہیں کی جا سکتی – سیاست میں شائستگی تو ہمارے ملک میں پہلے مارشل لاء سے ہی زوال پذیر ہے- جنرل ایوب خان نے محترمہ فاطمہ جناح کے متعلق جو زبان استعمال کی ، وہ ہماری تاریخ کا شرم ناک باب ہے- ذوالفقار علی بھٹو ، جنرل ضیاء الحق ، بے نظیر بھٹو، میاں محمد نواز شریف اور جنرل پرویز مشرف بھی مخالفین کے خلاف سخت زبان استعمال کرتے رہے ، لیکن ایک حد سے آگے نہیں بڑھے- البتہ بے نظیر بھٹو کے خلاف قومی اسمبلی میں کھڑے ہو کر ایک انتہائی گھٹیا اصطلاح جس شخص نے استعمال کی، وہ تب خود کو کسی “چوتھے گیٹ” کا ملازم کہتا تھا لیکن گزشتہ تقریباً دو سال سے تو وہ کسی اور کا داروغہ بنا نظر آتا ہے –

Advertisements
julia rana solicitors

بات اور طرف نکل گئی- عمران نے سیاسی اختلاف رائے کو ذاتی دشمنی بنا دیا ، اور ذاتی دشمنی کے اظہار کے لیے زبان و بیان کی وہ پستیاں اختیار کیں کہ ہم جیسے طلبائے علم انگشت بہ دندان ہو گئے- جن جن سیاست دانوں کو عمران نے اپنے لیے اقتدار کی منزل تک پہنچنے میں رکاوٹ سمجھا، ان کی مقبولیت کو برباد کرنے کے لیے ان سب کے نام باقاعدہ بگاڑے، ان کے لیے تحقیر آمیز نام ایجاد کیے، ان کی نقلیں اتاریں، ان پر ذو معنی جملے کسے – محترمہ مریم نواز کے خلاف کے خلاف باقاعدہ کہانیاں گھڑی اور اس شدت سے پھیلائی گئیں کہ عمران کے حامی کو ان کہانیوں پر “ایمان” کی حد تک یقین کیے ہوئے ہیں- بے نظیر بھٹو جب تک زندہ تھیں، عمران نے ان کے لیے ایسی ہی زبان استعمال کی، ڈاکٹر کلثوم نواز کی بیماری اور وفات تک کا مذاق اڑایا، آصف علی زرداری بلاول زرداری کے خلاف عمران ناشائستہ زبان کی آخری حدوں تک پہنچ گیا- ایک جلسے میں سر پر دوپٹہ کر کے اور بولنے کے انداز کی نقلیں اتار کر بلاول کا مذاق اڑایا، مولانا فضل الرحمٰن کے کئی تحقیر آمیز نام رکھے، حتیٰ کہ سرعام تقریر میں اپنے حامیوں کو ہدایت جاری کی کہ وہ مولانا فضل الرحمٰن کے لیے “مولانا” کا لفظ استعمال نہ کریں- میاں محمد نواز شریف کا نام تو عمران کے لیے جیسے کسی “اندرونی درد” یا پرانے زخم جیسا ہے- گزشتہ تقریباً پندرہ سالوں میں عمران کی کوئی ایک بھی نجی گفتگو یا عوامی تقریر میاں صاحب کے خلاف شدید بغض کے اظہار سے خالی نہیں- عمران کا مسئلہ یہ ہے کہ اسے ہمیشہ سے ہر صورت اقتدار اور “اہمیت” کے حصول کا جنون ہے، لیکن اس مقصد کے لیے جن کارناموں کی ضرورت ہے، وہ اس کے دامن میں نہیں- کرکٹ کھیلنا یا ماضی میں ورلڈ کپ جیتنے والی کسی ٹیم کا کپتان ہونا یا عوام کے پیسوں سے ہسپتال بنانا کوئی ایسے حیرت انگیز کارنامے نہیں کہ جن کی بنیاد پر کسی شخص کو سیاسی قائد یا جمہوری حکمران بنایا جائے- ورلڈ کپ جیتنے، بل کہ ایک سے زیادہ بار جیتنے والے بہت سے کپتان اب بھی دنیا میں موجود ہیں- پاکستان سمیت دنیا بھر میں ایسے بے شمار لوگ بھی موجود ہیں جنھوں نے عوامی چندے، بل کہ ذاتی جیب سے بھی ہسپتال بنائے ہیں اور وہ بہت کامیابی سے انسانی خدمت بھی کر رہے ہیں- خود پاکستان میں سر گنگا رام سے میاں محمد شریف تک کئی لوگوں کے ذاتی جیبوں سے بنے ہوئے ہسپتال عرصہ ہائے دراز سے یہ کام کر رہے ہیں- البتہ سیاست میں عوام کو اپنے سیاسی کارنامے بتانا پڑتے ہیں یا ایسی سیاسی اقدار کو فروغ دینا ہوتا ہے کہ جن پر معاشرے فخر کر سکیں- لیکن جب کسی شخص کے پاس ایسا کچھ بھی نہ ہو تو آسان (لیکن گھٹیا ترین) راستہ گالم گلوچ، تحقیر، تذلیل اور کردار کشی کا ہوتا ہے- یہی راستہ امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ، اسرائیل میں نیتن یاہو اور بھارت میں نریندر مودی نے اپنایا اور مقبولیت پائی-
اس سب کے باوجود حیرت انگیز حد تک لائق تحسین رویہ اختیار کیا ہے میاں صاحب نے، مولانا فضل الرحمٰن نے اور بلاول زرداری نے-
بلاول زرداری گزشتہ دو ماہ سے لیول پلیئنگ فیلڈ کی اصطلاح استعمال کر کے نام لیے بغیر دراصل عمران کے لیے خصوصی سہولت مانگ رہے ہیں- جب کہ عمران کے خلاف نہایت سنگین نوعیت کے مقدمات زیر سماعت ہیں- اور یہ تو سب کو معلوم ہے کہ بلاول کے اس مطالبے کے پیچھے عمران کی محبت نہیں، بل کہ یہ خواہش ہے کہ مسلم لیگ نواز کے لیے مشکلات میں اضافہ کیا جائے- ورنہ جس طرح کے مقدمات عمران کے خلاف چل رہے ہیں، بالکل اسی طرح کے مقدمات نے کراچی، سکھر اور حیدرآباد جیسے بڑے شہروں میں الطاف حسین کی جماعت کے لیے سیاسی راستے عرصہ دراز سے بند کر رکھے ہیں- لیکن بلاول نے ان کے لیے لیول پلیئنگ فیلڈ کا مطالبہ تو کبھی نہیں کیا-
میاں صاحب نے چار سالہ جلاوطنی کے بعد لاہور میں تاریخی اجتماع سے خطاب کیا- مخالفین اس حقیقت کو مبہم بنانے لیے بہت زور لگا رہے ہیں اور عجیب مضحکہ خیز قسم کی باتیں پھیلا رہے ہیں، لیکن اس سے قبل پاکستان کی 76 سالہ تاریخ میں اس قدر بڑا اجتماع منعقد نہیں ہوا- مینار پاکستان کے گریٹر اقبال پارک میں جو لوگ سما سکے، ان کی گنتی تو ایک طرف، مختلف شہروں سے آنے والی تمام سڑکیں بھی اوسطاً تقریباً آٹھ سے دس کلومیٹر تک مسلم لیگ نواز کے ان کارکنوں سے بھری ہوئی تھیں، جو مختلف علاقوں سے میاں صاحب کے استقبال کے لیے آئے، لیکن ہجوم کی شدت اور جگہ کی قلت کے سبب مینار پاکستان گراؤنڈ تک نہ پہنچ سکے- اس اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے میاں صاحب نے اپنے بدترین مخالفین سمیت سب سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنے کی بات کی، بل کہ اپنے کارکنوں کو نصیحت کی کہ کسی بدزبانی کے جواب میں بدزبانی نہیں کرنا، کسی گالی کے جواب میں گالی نہیں دینا- اسی طرح مولانا فضل الرحمٰن نے بھی خندہ پیشانی سے پی ٹی آئی کے وفد کو ملاقات کا وقت دیا اور کسی قسم کا گلہ شکوہ تک نہیں کیا-
چلیں، جیل یاترا اور سزاؤں کے خوف سے ہی سہی، پی ٹی آئی قائدین کو دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ ملاقاتوں اور مذاکرات کی اہمیت کا احساس تو ہؤا- اللّہ کرے کہ ملکی مسائل کے حقیقی حل کے لیے وسیع تر سیاسی ہم آہنگی وجود میں آئے اور معاشرہ نفرت، غرور اور تکبر کے علم برداروں سے پاک ہو سکے-
پی ٹی آئی کے وفد کی مولانا فضل الرحمٰن کے در پہ حاضری اور اس کے پیچھے موجود حالات و واقعات پر تبصرہ کسی اگلے کالم میں، ان شاء اللّٰہ بالخیر !

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply