• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • مقبولیت اور اہلیت کے پیمانے۔۔ڈاکٹر چوہدری ابرار ماجد

مقبولیت اور اہلیت کے پیمانے۔۔ڈاکٹر چوہدری ابرار ماجد

چند ماہ پہلے عمران خان کی مقبولیت کا یہ حال تھا کہ مہنگائی، بیروزگاری اور غربت کی وجہ سے ان کی اپنی جماعت کے ممبران ان کو چھوڑکر دوسری جماعتوں میں شمولیت کے لئے بے چین تھے اور تمام سیاسی جماعتیں ان کی غیر مقبولی اور نااہلی کو کیش کر رہے تھے اور عمران خاں اپنی حکومت کو مہمان دیکھ رہے تھے۔

پھر اچانک بڑے ڈرامائی انداز میں اسمبلی کے اندر تبدیلی دیکھنے کو ملی اور اعداد وشمار حکومت کی تبدیلی کا پتہ دینے لگے، تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی، عمران خان اور ان کے رفقاء جارحیت پر اتر آئے، آئین بے بس ہوتا ہوا دکھائی دینے لگا پھر ریاستی اداروں کےحرکت میں آنے سے حکومت میں تبدیلی آخر کار کامیاب ہوگئی۔

نئی حکومت نے آتے ہی معاشی بارودی سرنگیں بچھی ہوئی ہونے کا شوروغوغا شروع کردیا، ہنگامی طور پر عالمی مدد کے لئے دورے کئے گئے مگر کچھ حاصل ہوتا ہوا دکھائی نہ دیا تو پھر پوری کی پوری صلاحیتیں قرض کے حصول پر صرف کردیں اور مہنگائی ماضی کی تاریخ کے ریکارڈ توڑے لگی۔ اور یوں مقبولیت کا رخ بھی اپنی سمتیں بدلنے لگا۔ چند ماہ قبل عوام جن حالات کی بے بسی کا تحریک انصاف کو ذمہ دار ٹھہرا رہے تھے ان کو جب ریلیف نہ ملا تو ان کی توپوں کا رخ پی ڈی ایم کی طرف ہوگیا اور عمران خان کی مقبولیت کا گراف پھر سے اوپر جانے لگا۔ یوں پی ڈی ایم کو حکومت کے ساتھ ساتھ عوامی غیض و غضب بھی مل گیا۔ وہ سارے کا سارا غیر مقبولی اور نا اہلی کا بوجھ جو تحریک انصاف کے کاندھوں پر تھا وہ پی ڈی ایم کے کاندھوں پرآن پڑا۔

اس ساری صورتحال کا زیادہ نقصان مسلم لیگ نون کے کھاتے میں پڑگیا اورعمران خان نے اپنی حکومت کے جانے کو عالمی سازش کے ساتھ جوڑ کر عوامی پروپگنڈا کے زریعے سے عوام کی ہمدردیاں حاصل کرلیں۔ اور جو ممبران اپنی وفاداریوں کو تبدیلی کرکے نواز شریف کے ساتھ ملے تھے ان کو عوام نے مسترد کر دیا اور یوں عمران خان کی مقبولیت کی ڈھارس بندھ گئی اور انہوں نے اپنی اس مقبولیت کو کیش کرنے کا بہترین موقعہ جان کر الیکشن کے مطالبے کی مہم کو تیز کردیا جس نے پی ڈی ایم کو حواس باختہ کر دیا۔ ایک طرف مہنگائی کا بوجھ اور دوسری طرف ضمنی الیکشنز میں ہار سے شرمندگی اور اوپر سے عوامی دباؤ نے پی ڈی ایم کے اعصاب کو شل کرکے رکھ دیا۔

اس سارے سیاسی کھیل میں نقصان ملک کا ہوا کہ سیاسی عدم استحکام سے پہلے سے ہی کمزور معیشت ہچکولے کھانے لگی اور اس سے حکومت کو کمزور کرنے کے موقعہ سے مزید فائدہ اٹھانےکے لئے عمران خان اور ان کی جماعت نے اپنی کوششوں کو اور تیز کردیا۔ حکومت کو ایسی صورتحال میں مشکل فیصلے کرنے پڑے جس سے حکومت کی مقبولیت میں مزید کمی آئی جس کا فائدہ عمران خان کو ہوا اور اس صورتحال نے نواز شریف کی اپنی مقبولیت تباہ ہوتے دیکھ کر پریشانی میں مبتلا کر دیا یوں وہ اور ان کے حامی اپنی ہی حکومت کے نقاد بن کر سامنے آگئے۔

اس کے اثرات اداروں تک بھی جا پہنچے اور وہاں سے بھی مقبولیت کی ہوا کے رخ کے اثرات نظر آنے لگے اور حکومتی سرگرمیوں میں مداخلت اور فیصلوں کے زریعے سے مقبولیت کی ہوا کی ہمدردیوں نے آخر حکومت کےصبر کے پیمانے کو لبریز کردیا اور یوں حکومت نے بھی برابر ی کی بنیاد کا بیانہ بلند کر دیا جس سے اداروں کو تنقید کانشانہ بننا پڑا اوریوں کچھ مزاہمت کی پالیسی سے اداروں کو احسا س ہوا اور ان کے تیور بدلے۔

تو اس ساری صورتحال سے اندازہ یہ ہوتا ہے کہ جماعتوں کی عوامی ہمدردی کا ایک طبقہ تو ایسا ہوتا ہے جو نظریاتی طور پر ان کے ساتھ ہوتا ہے مگر زیادہ تر وہ لوگ ہوتے ہیں جو حالات سے تنگ آکر اپنے غصہ کا اظہار دکھا رہے ہوتے ہیں جس کی بنیاد کارکردگی اور اہلیت ہوتی ہے اور اس کا اندازہ حکومت میں ہوتے ہوئے ہی لگایا جاسکتا ہے۔ اور چونکہ زیادہ تر ملکی سطح کی مالی پالیسیز اور قانون سازی مرکزی حکومت کی ذمہ داریوں میں شامل ہوتا ہے لہذا مہنگائی، بیروزگاری اور غربت کے اثرات کو مرکزی حکومت کو ہی برداشت کرنا پڑتا ہے۔

دوسری بات جو دیکھنے میں آئی ہے وہ پروپیگنڈا ہے۔ آج کل سوشل میڈیا کا دور ہے اور اس کے زریعے سے عوامی رائے کو ہمور کرنے کا فن جو زیادہ جانتا ہے وہ سیاسی ہوا کے رخ کو بدلنے کی صلاحیت کے زریعے سے زیادہ فوائد حاصل کرنے کی پوزیشن میں ہوتا ہے۔ جس میں بہرحال تحریک انصاف دوسری جماعتوں سے کافی آگےلگتی ہے۔ اور سوشل میڈیا کا تجاویزانہ انداز عوام کو ورغلائے رکھنے میں کافی ممدو معاون ثابت ہوتا ہے۔

ایک اور وجہ جو موجودہ حالات کو دیکھ کر محسوس ہوتی ہے وہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ ہے۔ چونکہ سوشل میڈیا کے زریعے سے آج کل کسی بھی راز کو پوشیدہ رکھنا انتہائی مشکل ہوگیا ہے لہذا سٹیبلشمنٹ کی دخل اندازیوں سے عوام بیزار دکھائی دیتے ہیں اور جو بھی ان کی مخالفت کا نعرہ لے کر چلتا ہے اس بیزار طبقے کی راہنمائیاں اس کے ساتھ ہوجاتی ہیں۔ نواز شریف نے جب ووٹ کو عز ت دو کا نعرہ لگایا تو اس کو بھی پزیرائی ملی اور اب عمران خان کو بھی اس کا فائدہ مل رہا ہے حالانکہ عوام جانتے ہیں کہ سب سیاستدان مجبوراً یا شوقیہ اس سارے عمل کا حصہ رہے ہیں مگر پھر بھی عوام اس بیانیے پر لبیک کہتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔

اسی طرح اس میں بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کی مخاف سوچ کا وقتی فائدہ بھی عمران خان نے امریکہ کے خلاف نعرہ لگا کر حاصل کیا اور پاکستان کی تاریخ میں شائد ہی کوئی ایسا سیاسی قائد ہو جس نے بہت ساری عوامی نفسیات کا ایک وقت میں فائدہ لیا ہو۔ مختلف ادوار میں مختلف کارڈز تو تمام سیاسی قائدین اور سیاسی جماعتیں کھیلتی رہی ہیں مگر عمران خان نے یہ تمام فائدے یکمشت لئے۔ جن میں اِیَّاکَ نَعبُدُ وَ اِیَّاکَ نَستَعِینُ سے لے کر ریاست مدینہ تک سے مسلمانوں کے جزبات کو اپنی طرف مائل کیا اور پھر مختلف فرقوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لئے تمام مکاتب فکر کے علماءکو اپنے ساتھ لگائے رکھا۔ تسبیح اور درباروں پر سجدوں کو بھی کیش کروانے کی کوشش کی گئی اور یہ سب ایک خاص وقت پر ہوتا رہا جو اس کی سیاسی نسبت کی طرف اشارہ کرتا ہے جس کا انکشاف آخر اسلامی ٹچ کی تجویز سے کھل کر سامنے بھی آگیا اور جو سارے کا سارے “گلاں نال لاہور بنانے” تک محدود رہا حلانکہ ان کے چار سالہ دور حکومت میں کہیں بھی ان کے اور ان کے وزراء کے عمل میں اس کی جھلک نہیں ملتی۔

اسی طرح مخلوط طرز سیاست اور جلسوں کا ماحول لبرل طبقات کو سامان فرحت مہیا کئے ہوئے ہے اور وہاں قوالیوں، نغموں اور اللہ ہو کے صداؤں کا امتزاج ہر کسی کو ساماں تسکین مہیا کئے ہوئے ہے۔ جلسے جلوسوں سے عوامی رائے ہموار کرنے میں مدد تو ملتی ہے مگر ان سے عوامی مینڈٹ کا اندازہ لگانا انتہائی مشکل ہے کیوں کہ عوام اس کو زریعہ تفریح سمجھتے ہیں اور اکثریتی عوام وہ ہی ہوتی ہے جو تمام سیاسی جماعتوں کے جلسوں میں پہنچی ہوتی ہے اور ان کا ووٹ ہمیشہ جزبات کی لہروں کے حوالے ہوتا ہے اس میں شعور اور سمجھ بوجھ کا تعلق کم ہی ہوتا ہے۔ جسکا اندازہ کئی سالوں تک جنرل ضاءالحق کی برسی پر بڑے بڑے جلسوں اور جئے بھٹو کے نعرے سے لگایا جاسکتا ہے۔ جن کی ہمردریاں ضیاء الحق اور بھٹو دونوں کے شہادت پر ان کے ساتھ تھیں جس کا محور ہمدردی ہے نہ کہ ان کی کارکردگی اور یہ ہمدردیاں کسی بھی دوسرے لاجک کو تسلیم کرنے کے لئے تیار ہی نہیں۔

اسی طرح عمران خان کی کارکردگی اتنا میٹر نہیں کرتی جتنا انکا کرکٹ کا ورلڈ کپ۔ اس عوام کے نزدیک انکے یو ٹرن اور جھوٹ اتنا مسئلہ نہیں جتنا دوسری سیاسی جماعتوں کا خلاف بغض اہمیت کا حامل ہے۔ اس طبقے کے نزدیک چور چور کا نعرہ لگا دینا ہی کافی ہے۔

یہاں کارکردگیاں نہیں دیکھی جاتیں بلکہ یہاں بیانیے دیکھے جاتے ہیں۔ یہاں اچھے برے میں تمیز نہیں دیکھی جاتی بلکہ جارحانہ انداز سیاست دیکھی جاتی ہے کہ کس کی سیاست میں مولاجٹ والا کتنا جوش و جذبہ ہے۔ یوں جن کا جارحانہ انداز سیاست اور جذبات سے کھیلتی بے راہ روی ہی پورے کا پورا سیاسی اثاثہ ہو ان سے اداروں کی توقیر یا سیاسی مخالفین سے با اخلاق رویوں کی امید کیسے کی جاسکتی ہے۔

جس مقبولیت کی بنیا حقائق اور شعور نہ ہو بلکہ بغض، انا پرستی اور ہٹ دھرمی ہو وہ کبھی پائیدار نہیں ہوتی اور نہ ہی ایسی مقبولت کے بلبوتے پر کوئی انقلابوں کی امیدیں لگائی جاسکتی ہیں۔

بھٹو کو اگراس کی مقبولیت نہیں بچا سکی تو اور کوئی کس باغ کی مولی ہے۔ جس طرح سے تین دفعہ کے وزیر اعظم کو نااہل کرکےملک کے قوانیں اور نظام انصاف کو دنیا کے سامنے پیش کیا گیا اور ایک وزیر اعظم کو کھڑے کھڑے نظام انصاف کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ جب کوئی چیف جسٹس کی سیٹ پر بیٹھ کر یہ فرمائے کہ دو تین ایم پی ایز کی چھٹی کروانا تو اس کے لئے کوئی مسئلہ ہی نہیں اور اس کا مقصد صرف اور صرف مقبولیت کی بھوک ہو۔

افسوس تو اس بات پر ہے کہ اس طرح کے کردار پھر ریٹائرمنٹ کے بعد قوم سے منہ تو چھپاتے ہی پھرتے ہیں مگر ملک و قوم کے چہروں پر جو داغ چھوڑ جاتے ہیں وہ تکلیف دہ ہوتے ہیں۔ اور ہم نے نہ تو ایسے کرداروں سے کچھ سیکھا اور نہ ہی آگے کوئی آثار نظر آتے ہیں۔

جہاں عدالتی فیصلوں کے بھی مختلف فلیورز ہوتے ہیں جن کا تعلق انصاف سے نہیں بلکہ انصاف کی اداوں سے ہوتا ہے جو کرداروں کے ساتھ ساتھ بدلتی رہتی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

کون کتنا اہل یا مقبول ہے یہ کسی سے چھپا ہوا نہیں اور نہ ہی ان کرداروں کے بارے کوئی شک و شبہ باقی ہے مگر جب تک عوام کی سوچ نہیں بدلے گی اس وقت تک ان کرداروں سے چھٹکارہ اور بہتری کی توقع ممکن نہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply