ویمپائرز اور زومبیز/ٹیپو بغلانی

فضل الرحمان نے حیرت سے کہا،”جو کچھ ہو رہا ہے، آپ لوگ بھی وہ سب جانتے ہیں لیکن پھر بھی کوشش ہوتی ہے کہ ہمارے منہ سے یہ سب کہلوا لیں”
انہوں نے پھر مزید کہا، ” میں تو کہہ رہا ہوں کہ یہ سب آخر کب تک چلے گا، حدود ضروری ہیں ورنہ تو پھر معمولات ٹھیک نہیں رہ سکتے”

کل صدر پاکستان نے خطاب کے دوران کہا،
” دو کروڑ سے اوپر نئے لوگ جمہوریت کے نظام کا حصہ بنے ہیں، اگر سسٹم ان کے حقوق محفوظ نہیں کر پاتا تو میں فکر مند ہوں کہ پھر یہ نوجوان کس طرف نکل جائے گا؟ ”

سماج کے متحرک لوگ سوشل میڈیا پر موجود ہیں، اس پلیٹ فارم کے ایک میڈیم ایکس / ٹوئٹر کو بند کر دیا گیا۔دوسرے فورمز پر متعدد طبقات پر پابندیاں ہیں اور جو چند ایک طبقات جعلی آئی ڈیز اور وی پی این کے ذریعے فعال ہیں انہیں مسلسل ہراساں کیا جاتا ہے۔

اگر مختلف طبقات کو آپس میں مکالمہ نہ کرنے دیا جائے گا، اختلافات کا حق دینا تہذیب کا خاصہ نہیں رہے گا ، بات چیت کرنے کو توہین اور عیب سمجھ لیا جائے گا اور سزائیں دی جانے لگیں گی تو ان کا ردعمل کیا ہو گا؟

پاکستان کسی شاہ کی سلطنت نہیں ہے، یہ جمہوری ریاست ہے۔جمہوری ریاست کا مالک شہری ہے، ہم شہری کو برائلر مرغی کی طرح پولٹری فارم میں بند کر کے نہیں پال سکتے، ہم شہری کو برائلر مرغی کی طرح سیل پر نہیں لگا سکتے، ہم شہری کو برائلر مرغی کی طرح ذبح کر کے کھرپے میں نہیں پھینک سکتے۔شہری اور برائلر مرغی کے درمیان آخر کچھ تو فرق بحال رکھنا پڑے گا۔

کبوتروں کے ڈربے میں بلی گھس جائے اور وہ آنکھیں بند کر لیں تو ہم کیا طے کر لیں گے کہ اب اُن کے درمیان بلی موجود نہیں ہے؟

سوال ہیں تو ان کے “تسلی بخش جوابات” دینا پڑیں گے۔
اعتراضات ہیں تو ان حصّوں پر ترمیم کی ضرورت ہے تا کہ وہ قابلِ قبول بنیں۔
ابہام ہے تو پھر واضح تشریح کرنے کی ضرورت پڑتی رہے گی جب تک کہ مغالطہ دور نہ ہو جائے۔

میرا بچہ مجھے کبھی کچھ دکھانا چاہے تو پہلے پیار سے آواز دیتا ہے،
میں اس آواز پر ریسپانس نہیں کرتا تو پھر وہ دوسری آواز دیتا ہے،
میں اس پر بھی ریسپانس نہ کروں تو وہ اونچی آواز میں قدرے ناراضی سے مجھے بلاتا ہے،
میں اس پر بھی ریسپانس نہ کروں تو وہ میرے پاس آ کر، میرے کندھوں سے لٹک جاتا ہے اور میرے چہرے کو اپنے دونوں ہاتھوں میں سمو کر اپنی طرف موڑ کر پیار سے کہتا ہے بابا اس طرف دیکھو۔۔

عوام بھی ریاست کے بچے ہیں اور طاقتوروں کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں مشغول ہیں،اور مجھے یقین ہے اگر انہیں توجہ نہیں ملتی تو وہ ہر حربہ آزمائیں گے۔

سماجیات اور معاشرت کا ایک پرانا دستور، آدمی کی نفسیات کو سمجھنے کے لیے یہاں مطالعہ کرتے ہیں۔

یہی دس پندرہ برس پہلے کی بات ہے، برادری میں شادی کو ہی اہمیت حاصل تھی، برادری سے باہر امکانات ہی نہ ہوا کرتے تھے۔ایسی شادیوں میں لڑکی اور لڑکے کو بالغ ہوتے ہی بیاہ دیا جاتا تھا اور لڑکے کا کیرئیر یا لڑکی کی تعلیم کے مطالبات نہیں ہوتے تھے اور نہ ہی ایسے تصورات تھے۔اہمیت تھی تو ان کی خانہ آبادی اور فطری طلب کی سیرابی کی بس۔

بہت سے ماہرین عمرانیات و سماجیات کے ساتھ ساتھ، ماہرین صحت و طب اور ماہرین انسانی حقوق نے اچانک سے ایسے رواج و رسوم پر قدغن لگانا شروع کر دیے،نتیجتاً آج ایسے اطوار جدید سماج نے معیوب بنا کر ممنوع قرار دے دیے اور بالآخر ان کو ترک کرتے ہی بنی۔

نوجوانی کی شادی اور بیاہ سے بڑھ کر خوبصورت بھلا کیا لطف و سرور ہو سکتا ہے۔ایسی ہی ایک شادی سے گزرے ہوئے بزرگ وڑائچ صاحب سے میں نے پوچھا “جب آپ دونوں ایک دوسرے کو سمجھتے نہیں ہوتے تو پھر ساری عمر ایک دوسرے سے نبھا کیسے جاتے ہیں”؟

وڑائچ صاحب نے میری طرف دیکھا اور کہا
“پُتر آپ کیا سمجھتے ہو کہ مرد اور عورت پہلے ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں اور پھر خوبصورتی سے متاثر ہو کر قریب آتے ہیں اور وفادار بن جاتے ہیں؟
نہیں ہرگز نہیں
جوانی خود بہت خوبصورت شئے ہے، اس جوانی میں بنے ہوئے رشتے اپنے آپ کو خود ہی مضبوط کرتے رہتے ہیں، اتنے مضبوط جو کسی رومانوی کتاب میں درج ہی نہیں ملیں گے۔”

اب اس رواج کا موازنہ جدید دور کی شادی سے کرتے ہیں جس میں مرد کو پہلے کیرئیر بنانا پڑتا ہے اور سماج میں نمایاں مقام پیدا کرنا پڑتا ہے چاہے وہ خوبرو اور دلکش ہے یا نہیں،یہ خوبیاں ثانوی ہیں۔
عورت کو اپنے آپ کو اس قابل بنانا پڑتا ہے کہ اس کے لیے بہترین سے بہترین رشتہ بھی ہاتھ باندھ کر دروازے پہ کھڑا ملے۔

کیا اس مقام تک پہنچنا آسان ہے؟
ہرگز نہیں، بال گر جاتے ہیں، چہرے پہ جھریاں آ جاتی ہیں، جوان بدن کی جھرجھراہٹ ٹھنڈی ہو جاتی ہے۔

اب یہاں سوال یہ پیدا ہوا کہ جب جوان جسم اپنے فطری اُبال سے پک چکے ہوتے ہیں، ان میں چاشنی اور رس بھر جاتا ہے، پکے ہوئے گرم جسم اپنی پیاس کی سیرابی کی جستجو میں تشنہ کامی سے تڑپ رہے ہوتے ہیں تو پھر کیا وہ کیرئیر بنانے تک اور اچھے رشتے کے دروازے پر ہاتھ باندھ کر کھڑے ہونے تک صبر کر پاتے ہیں؟

جواب ہے ہرگز نہیں.

فطرت کو روکا نہیں جا سکتا، جیسے پانی اپنا راستہ خود بناتا ہے ویسے ہی فطرت بھی اپنا راستہ خود بنا لیتی ہے۔

لوگ پھر نکل جاتے ہیں یہاں وہاں تا کہ اپنے آپ کو بہلا پھسلا سکیں، اب اس بہلانے پھسلانے میں سماجی جرائم بھی واقع ہو جاتے ہیں۔کہیں آشنا  پکڑے جاتے ہیں اور کارو کاری ہو جاتے ہیں، کہیں غیرت کے نام پر قتل ہو جاتے ہیں، کہیں انہیں فروخت کر دیا جاتا ہے، کہیں انہیں سزا کے طور پر کسی بدترین کے حوالے کر دیا جاتا ہے، کہیں مذہبی گناہ کی زد میں لا کر روند دیا جاتا ہے۔کہیں ناجائز اولادیں ایدھی کے دروازے پہ پڑی ہوتی ہیں۔کہیں اسقاطِ حمل ہو رہے ہوتے ہیں، کہیں شرفاء کی عزتیں موبائل ویڈیوز میں بھر جاتی ہیں، کہیں بلیک میلنگ سے تنگ آ کر خودکشیاں خبروں میں پڑھنے کو ملتی ہیں۔
ابھی بھی یہ فہرست مختصر ہے، نکات کہیں زیادہ ہیں۔۔۔

اکنامکس میں اپرچونیٹی کاسٹ کے نام سے ایک اصطلاح سلیبس کا حصہ رہتی ہے۔اس کی تعریف کچھ یوں ہے کہ وہ نقصان یا قیمت جو ہم ایک چیز کو نہ چُن کر اٹھاتے ہیں، کیونکہ اس کے بدلے ہم ایک ایسی چیز کو چن لیتے ہیں جس سے ہمیں دوسری قسم کا فائدہ مل رہا ہوتا ہے۔۔ہم کچھ بھی چُنتے ہیں ہمیں اس کی قیمت چکانا پڑتی ہے۔
یہاں پر اس بات کو اہمیت دی جانی چاہیے کہ جس چیز کو چھوڑ کر ہم نقصان اٹھا رہے ہیں کیا بدلے میں چُنی جانے والی چیز کا فائدہ ہمیں پہلی چیز کو چھوڑنے کے نقصان سے زیادہ مل رہا ہے یا کم؟

فضل الرحمٰن عوام اور طاقتور اداروں کے درمیان کون سی حدود کی بات کر رہے ہیں، یہ سمجھنا وقت کی ضرورت ہے، اسے مزید ٹالنے پر نقصان ہو گا۔

عارف علوی یہ کیا کہہ رہے ہیں کہ مایوس جوان کسی اور طرف نکل سکتا ہے۔
ہمیں بحث کرنا چاہیے کہ یہ “اور طرف” کیا کیا راستے ہو سکتے ہیں۔

سینیٹر مشتاق اگر کہہ رہے ہیں کہ بیلٹ کو بُلٹ نے چرا لیا، پرچی کو گولی کھا گئی تو ہمیں اس کی تشریح دینا پڑے گی۔

ہر بندہ آج ہر بات جانتا اور سمجھتا ہے، کبوتر کی طرح بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔

افرادی قوت رکھنے والا دنیا کا پانچواں بڑا ملک  بد ترین مایوسی اور بدحالی سے گزر رہا ہے، یہ سچ ہے، یہ ریکارڈ پر ہے۔
اگر ایسا ہے تو پھر یہی وقت ہے اسے سمجھنے کا۔۔

سینیٹ میں مختلف نمائندے کھڑے ہو کر، رو رو کر اگر یہ کہہ رہے ہیں کہ سسٹم انہیں ہراساں کر رہا ہے، سسٹم انہیں ڈپریشن میں رکھ رہا ہے، سسٹم نے انہیں زندہ لاش بنا دیا ہے تو ہمیں یہ ادراک رکھنا لازمی ہے کہ ڈپریشن میں مبتلا نفسیاتی و ذہنی مریض ان چیزوں کو بھی جائز اور باعث فخر سمجھ لیتے ہیں جو چیزیں عام حالات میں ابنارمل تصور ہوتی ہیں۔

ہمیں ادراک رکھنے کی ضرورت ہے کہ زندہ لاش کی اصطلاح زومبیز اور ویمپائرز کے لیے مختص ہے۔زومبیز اور ویمپائرز ایسے لوگ ہیں جو زندہ لوگوں کو خون پی کر اپنی پیاس بجھاتے ہیں اور خود کو زندہ رکھتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

زومبیز بننا اور ویمپائرز بننا بھی کیا ان راستوں میں سے ایک راستہ ہے جن کا تذکرہ صدرِ پاکستان اپنے خطاب میں کر رہے ہیں؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply