تعلیم کے بغیر تبلیغ کا اُسترا/نذر حافی

انسان ایک سماجی جاندار ہے یا نہیں؟ سماجی جاندار یعنی اس کی زندگی دوسرے انسانوں کے ساتھ میل جول پر منحصر ہے۔ منحصر ہونے سے مراد یہ ہے کہ جس طرح پانی کے بغیر مچھلی نہیں رہ سکتی، اسی طرح انسان سماج کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ایسا جاندار جو سماج کے بغیر نہ رہ سکے، اُسے انسان کہتے ہیں اور جو سماج کو نقصان پہنچائے، وہ انسان نما تو ہوسکتا ہے لیکن انسان نہیں۔ انسان نماء جیسے ریچھ، بندر، لنگور۔۔۔ کچھ انسان نماء ایسے ہیں جن کی دُم ہے اور کچھ ایسے ہیں، جن کی دُم نہیں۔ جیسے نشہ کرنے والا، چوری کرنے والا، جسم فروشی کرنے والا، دھوکہ دینے والا، رشوت لینے والا اور ظلم کرنے والا وغیرہ۔۔۔ یہ سب بغیر دُم کے انسان نُما جاندار ہیں لیکن انسان نہیں ہیں۔

جس طرح انسان ایک سوشل جاندار ہے، اُسی طرح اسلام ایک سوشل دین ہے۔ اسلام کی تعلیمات انسان کو سوشل بناتی ہیں۔ اسی لئے اسلام انسان کیلئے دینِ فطرت ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بانیِ اسلام حضرت محمد رسول اللہﷺ لوگوں سے پتھر کھاتے ہوئے تو نظر آتے ہیں لیکن پتھر مارتے ہوئے نہیں اور اسی طرح لوگوں کی گالیاں سہتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، لیکن دیتے ہوئے نہیں۔ آپ کی سیرت کا سب سے نمایاں پہلو تعلقاتِ عامہ ہے۔ بیماروں کی تیمارداری، ہمسائیوں سے حُسنِ سلوک، ناراض کو راضی کرنا، یتیموں کی کفالت، بیواوں کی سرپرستی، ان پڑھوں کو پڑھانا، سلام میں پہل، قیدیوں کے ساتھ عفو و درگزر، دشمنوں کے ساتھ مدارا، عربی و عجمی کا فرق ختم، قریشی اور حبشی کیلئے ایک ہی پیالہ اور ایک ہی نوالہ، والدین کے ساتھ احسان، عدالت کیلئے قیام ، بڑوں کا احترام نیز چھوٹوں سے شفقت۔۔۔ المختصر یہ کہ بانی اسلام سے بڑا کوئی سوشل لیڈر نہ کائنات میں پیدا ہوا ہے اور نہ پیدا ہوگا۔

اتنا بڑا سوشل لیڈر کہ اس کے پرچم نے سارے انسانی طبقات اور ہر طرح کی سوشل درجہ بندی کو مٹا کر سارے انسانوں کو بھائی بھائی بنا دیا اور اب قیامت تک جو لوگ بھی اس کے پرچم تلے آتے جائیں گے، وہ اتنے سوشل ہو جائیں گے کہ بھائی بھائی بنتے جائیں گے۔ انسان ایک سوشل جاندار ہے اور اسلام انسانی فطرت کے مطابق انسانوں کو اتنا سوشل بناتا ہے کہ وہ بھائی بھائی بن جاتے ہیں۔ جس طرح کچھ لوگ انسان نُما ہیں، اُسی طرح کچھ لوگ مسلمان نُما بھی ہیں۔ جو لوگ انسانی سماج کو نقصان دیتے ہیں، وہ انسان نُما ہیں لیکن انسان نہیں، اسی طرح جو لوگ اسلامی بھائی چارے کو نقصان دیتے ہیں، وہ بھی درحقیقت مسلمان نُما ہیں لیکن مسلمان نہیں۔

مسلمان نُما لوگوں کی مختلف اقسام ہیں:
1۔ خوارج 2۔ تکفیری 3۔ جہلا 4۔ استعمار کے لے پالک 5۔ غیر تعلیم یافتہ اور نیم تعلیم یافتہ مبلغ۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔ ان سب مسلمان نُما حضرات کی قدرِ مشترک مسلمانوں کے درمیان وحدتّ کے بجائے جدائی ڈالنا اور بھائی کو بھائی سے الگ کرنا ہے۔ مسلمانوں کو جدا اور الگ کرنے کے اس سلسلے میں غیر تعلیم یافتہ اور نیم تعلیم یافتہ مبلغین پیش پیش ہیں۔ خود تعلیم اور فلسفہ تعلیم کو سمجھے بغیر کسی دینی مدرسے میں کچھ سال پڑھنے یا کچھ تقریریں رٹنے کے بعد تبلیغ کرنے کا نتیجہ آج دیکھ لیجئے۔ اب مسلمانوں کی مساجد بھی اہلحدیث، بریلوی، شیعہ اور دیوبندی ہوگئی ہیں۔ مسلمان نمازِ جنازہ بھی ایک دوسرے کے پیچھے نہیں پڑھ سکتے۔ سنا ہے کہ قبرستان بھی جدا کرنے کی مہم زوروں پر ہے۔ پہلے ہی ایک دوسرے کی محافل میں جانے سے مسلمانوں کے نکاح ٹوٹ جاتے ہیں۔ کافی عرصے سے کوشش کی جا رہی ہے کہ ایک دوسرے کے قرآن مجید کے پاروں کی تعداد بھی کم یا زیادہ ثابت کرکے قرآن مجید بھی الگ الگ کر لئے جائیں۔

کچھ اسی طرح نمازِ تراویح کا اختلاف بھی ہے۔ سارے مسلمان بلاتفریق صدیوں سے رمضان المبارک کی راتوں میں مستحب نمازیں اور نوافل پڑھتے آرہے ہیں۔ نبی ؐ کے بعد خلیفہ اوّل کے دور میں بھی مسلمان یہ مستحب نماز بغیر جماعت کے پڑھتے رہے۔ خلیفہ دوّم کے زمانے میں اس نماز کو جماعت کے ساتھ پڑھنے کی ابتدا ہوئی۔ ماضی میں اصل مسئلہ فقط اس قدر زیرِ بحث رہتا تھا کہ آیا مستحب نماز جماعت کے ساتھ پڑھنا بدعت ہے یا نہیں اور رمضان المبارک کے نوافل کی رکعتوں کی تعداد کتنی ہے۔؟ اگرچہ اہلِ تشیع بھی رمضان المبارک کی یہ مستحب نمازیں بغیر جماعت کے آج بھی پڑھتے ہیں لیکن اُن کی اکثریّت یہ نہیں جانتی کہ اہلِ سُنّت اپنی اصطلاح میں اُسی نماز کو نمازِ تراویح کہتے ہیں۔ آج اہلِ تشیع کے ہاں یوں لگتا ہے کہ جیسے نمازِ تراویح پڑھنا کوئی معیوب فعل ہے۔

تعجب ہے کہ دینِ اسلام تو دنیا کا سوشل ترین دین ہے، لیکن اب اس کی مناسبتیں اور تہوار بھی مسلمان اکٹھے نہیں منا سکتے۔ اب ستائیس رجب کو یہ بحث چھیڑ دی جاتی ہے کہ یہ مبعث کی شب ہے نہ کہ شبِ معراج۔ حالانکہ جو لوگ اسے شبِ مبعث کہتے ہیں، انہی کہ ہاں یہ روایت بھی موجود ہے کہ شبِ مبعث، رمضان المبارک میں ہے۔ دوسری بات یہ کہ مبعث خود معراج کی ایک نوع ہے۔ یہ دونوں چیزیں قابلِ جمع ہیں لیکن ہمیں جمع کرنے کے بجائے تفریق کرنے کے پیسے جو ملتے ہیں۔ جب فرقوں کو الگ الگ کرنے سے ہی ہمارے غیر تعلیم یافتہ اور نیم مبلغین کی دال روٹی وابستہ ہے تو پھر نکاح، جنازے، عیدیں، غم، خوشی، رشتے ناتے، ان سب پر جھگڑا تو ہوگا۔

آگے پندرہ شعبان کے دِن کا انتظار کیجئے۔ یار لوگوں کا کہنا ہے کہ اسے شبِ برائت نہ کہیں بلکہ نیمہ شعبان یا حضرت امام مہدی ؑ کی ولادت کا دِن کہیں، حالانکہ یہ دونوں باتیں قابلِ جمع ہیں۔ شبِ برائت یعنی حاجات کے پورا ہونے اور تقدیر کے سنورنے کی شب۔ کسے یہ معلوم نہیں کہ اس وقت عالمِ انسانیّت کی سب سے بڑی حاجت اور انسانوں کی تقدیر سنورنے کا سب سے اہم سِرّ “حضرت امام مہدی ؑ کا ظہور” ہے، لیکن الفاظ کے گورکھ دھندے سے اس شب میں بھی مسلمانوں کو ایک دوسرے سے جدا کرنے کا مکمل انتظام کیا جا چکا ہے۔ یہ کوشش جاری ہے کہ لوگوں کو باور کرایا جائے کہ مسلمانوں کے امام مہدی ؑ بھی الگ الگ ہیں۔۔۔۔ خدا کیلئے غیر تعلیم یافتہ لوگوں سے تبلیغ کا اُسترا لے لیجئے، ورنہ اگر حالات یہی رہے تو وہ دِن دور نہیں کہ جب آپ بچے کا ختنہ کرنے کیلئے، اُسترا خریدنے کسی دُکان پر جائیں گے تو اُسترے کے اوپر لکھا ہُوا ہوگا کہ یہ صرف اہلحدیث بچوں کیلئے ہے۔۔۔ یہ صرف شیعہ بچوں کیلئے ہے۔۔۔ یہ صرف بریلوی بچوں کیلئے ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

 نوٹ:تحریر میں بیان کردہ  خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، مکالمہ  ویب کا ان سے اتفاق  ضروری نہیں  اور نہ ہی یہ خیالات ادارے کی پالیسی کا اظہار ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply