روحانیت اور روحانیات/ڈاکٹر اظہر وحید

الفاظ معانی کے سفر میں ایک سواری کا کام کرتے ہیں۔ ہر سواری کا ایک رخ ہوتا ہے۔ اگر کوئی مسافر اپنے سفر میں کسی غلط سواری کا انتخاب کر بیٹھے تو وہ اپنی مطلوبہ منزل سے قریب ہونے کے بجائے ہر گزرتے لمحے کے ساتھ منزل سے دُور ہوتا چلا جائے گا۔ کہلائے گا وہ مسافر ہی۔۔۔ لیکن درحقیقت بھٹکا ہوا راہی ہو گا! معانی کے سفر میں ہر لفظ بنیادی طور پر ایک اصطلاح ہوا کرتی ہے۔ جس طرح کوئی چہرہ کسی چہرے کا متبادل نہیں، اسی طرح کوئی لفظ کسی لفظ کا مترادف نہیں۔

روحانیت اور روحانیات میں فرق جاننے کے لیے روح Soul اور ”پران“ (spirit) میں فرق جاننا ضروری ہے۔ حسنِ اتفاق سے ہندی اور انگریزی میں اِن دو حقائق کے لیے الگ الفاظ موجود ہیں۔ روح سے پہلے ”پران“ کو سمجھنا ضروری ہے۔ عام محاورہ ہے۔۔۔ ”نین پران سلامت“ میڈیکل اصطلاح میں یوں سمجھ لیں کہ ”پران“ کی حیثیت جسمانی وجود کو کنٹرول کرنے کے لحاظ سے وہی ہے جو ہمارے نروس سسٹم کی ہوتی ہے۔ کمپیوٹر جاننے والوں کو اس کی مثال ہارڈ ویئر اور سوفٹ وئیر کی اصطلاحات میں سمجھائی جا سکتی ہے۔ ہمارے جسم کے ہارڈ وئیر کو ہماری سپرٹ spirit کا سوفٹ وئیر کنٹرول کرتا ہے۔ ایک جسم کے لیے ایک ہی سپرٹ درکار ہوتی ہے، یہ اس جسم کے لیے خاص ترتیب دی جاتی ہے، یعنی یہ اس جسم کی spirit personalized یا سوفٹ وئیر ہے۔ عناصر میں حسنِ ترتیب اسی ”پران“ کی وجہ سے ہے، یہ نکل جائے تو عناصر کی ترتیب پریشان ہو جاتی ہے، نتیجہ موت۔ یہ سپرٹ ہمارے وجود ہی کا حصہ ہے، لیکن ہم اس کی کارفرمائیوں اور طاقتوں سے ناواقف ہوتے ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے عام کمپیوٹر استعمال کرنے والا شخص اس کی بہت سی پوشیدہ فائلوں Hidden files سے بے خبر ہوتا ہے، حالانکہ وہ انہی فائل کی مدد سے اپنے کمپیوٹر کا نقشہ بدل سکتا ہے اور اپنے ہارڈوئیر سے وہ کام لے سکتا ہے جس کا تصور کوئی عام آدمی نہیں کر سکتا۔ سپرٹ یا ”پران“ ہمارے ہی وجود کی ایک پوشیدہ طاقت Occult power ہوتی ہے۔ کچھ لوگ ریاضت اور محنت سے ان قوتوں کا پتہ لگا لیتے ہیں اور ان کے استعمال سے حواس خمسہ سے باہر Extra sensory perception حاصل کر لیتے ہیں۔ کشفِ کُونی، یعنی زمان و مکان کے پردوں کا کسی حد تک چاک ہو جانا، اِسی زمرے میں آتا ہے۔ کشف کُونی کوئی روحانی کرامت نہیں، بلکہ ایک Occult science ہے، اس کا مظاہرہ کوئی بھی غیر مسلم بدھ بھکشو، سنت، راہب کر سکتا ہے۔ کسی کو آنکھوں آنکھوں میں رام کر لینا، کسی کی جیب میں پڑے ہوئے نوٹوں کے نمبر بتا دینا، بغیر دیکھے یہ بتا دینا کہ فلاں کس رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے ہے، یہ سب کشفِ کونی کی ذیل میں آتا ہے۔ یہ سپرٹ کی ٹیکنالوجی ہے۔ اہلِ حق ایسی صلاحیتوں اور طاقتوں کے حصول و وصول کو روحانیات، یا spiritualismکا نام دیتے ہیں۔ اس کا تعلق روحانیت، عرفان، یا تصوف سے ہرگز نہیں۔

تصوف یا عرفانیات چیزے دگر ہے۔ اس کا تعلق روح Soul سے ہے۔۔۔ اور اپنی روح میں سے کچھ اس کے اندر پھونک دیا۔۔۔ اسی کے سبب وجودِ آدم مسجودِ ملائک ٹھہرتا ہے۔ اس تک رسائی باطنی کثافتوں سے نجات، یعنی تزکیہ نفس کے راستے سے ہے۔ ایک تزکیہ شدہ انسان ہی اپنی روح کی لطافت تک پہنچتا ہے، اور وہ تجلّیہ شدہ روح ہی روحِ کائنات سے مکالمہ کرتی ہے۔ تزکیہِ نفس، تصفیہِ قلب اور تجلّیہِ روح ہی عرفانِ ذات کا راستہ ہیں۔ عرفانِ ذاتِ خود، عرفانِ خدا سے متصل ہے۔۔۔ من عرف نفسہ فقد عرف ربہ۔

عرفانِ ذاتِ حق انسان کو طالبِ حق بناتی ہے، اسے اشیا اور اشیا کی محبت سے نکالتی ہے۔ نفس کی کثافتوں سے نجات ایک طالبِ حق کا مطمع نظر ہوتا ہے۔ ہوائے نفس ہی اس کے راستے کا پتھر ہے۔ یہ بھاری پتھر اُٹھ جائے تو امارہ، لوامہ میں اور لوامہ مطمئنہ کی حالت میں منتقل ہو جاتا ہے۔ نفسِ مطمئنہ ہی کو آواز آتی ہے۔۔۔ ”اے نفسِ مطمئنہ!۔۔۔ داخل ہو جاؤ میرے خاص بندوں میں“۔

کہاں راضی بہ رضا حالتِ نفسِ مطمئنہ اور کہاں منہ زور نفسِ امارہ کی من مانیاں … کہاں خلوت گزینی، قناعت و بے نیازی اور کہاں شہرت اور دولت کے حصول و وصول کی خاطر شعبدہ بازیاں! محاورے سچ بولتے ہیں … کجا رام رام، کجا ٹیں ٹیں!

کلمے کے بغیر تصوف کا تصور نہیں۔ پاک اور ناپاک میں فرق ہے۔ حلال اور حرام میں فرق رہے گا۔ جاننے والا اور نہ جاننے والا برابر نہیں ہو سکتے … ماننے والا اور نہ ماننے والا بھی کیسے برابر ہو سکتے ہیں؟ تصوف درجہ احسان ہے۔ معروف حدیثِ جبریلؑ کے مطابق درجہِ احسان، درجہِ اسلام اور ایمان کے بعد میسر آتا ہے۔۔۔ درجہِ احسان یہ ہے کہ تُو اپنے رب کی عبادت ایسے کرے جیسے تو اُس کو دیکھ رہا ہے۔ یہ مقامِ مشاہدہ ہے۔ یہ مشاہدہِ موجودات نہیں، بلکہ ذات اور جلوہِ ذات ہے۔ روحانیات کا طلبگار فطرت تک پہنچ سکتا ہے، فاطر تک نہیں۔ فطرت صفات کا مظاہرہ ہے، فاطر ذات ہے۔۔۔ اور انسان مظہرِ ذات۔ ذات تک کوئی ذات ہی پہنچاتی ہے۔ نفس کا تزکیہ کوئی ذی نفس ہی کرتا ہے۔ اسی لیے تصوف سلسلہ دَر سلسلہ چلتا ہے۔ یہ سلسلہ دَر سلسلہ۔۔۔درِ علمؓ تک پہنچتا ہے، یہیں سے شہرِ علمؐ میں داخلے کا اذن ملتا ہے … اور پھر طالب ِ علم ذاتِ العلم سے واصل ہوتا ہے۔ یہاں کتاب نہیں بلکہ صاحبِ کتاب سے رابطہ مقصود ہوتا ہے۔ کتاب کا صاحب ایک ذات ہے۔۔۔ ذات کا ذات سے رابطہ ہے۔ کائنات اور اس کائنات میں مہمان انسان کی معنویت ذاتی رابطوں کے بغیر دریافت نہیں ہوتی۔ فری لانس تصوف کا تصور خارج اَز حقیقت بھی ہے اور خارج اَز بحث بھی۔

مستشرقین کے ہاں روحانیت اور روحانیات کی کچھ ایسی تخصیص نہیں۔ وہ ریسرچ کے لوگ ہیں۔ ریسرچ اور سرچ میں فرق ہوتا ہے۔ تحقیق اور تلاش میں فرق رہے گا۔ تحقیق برائے مخلوق ہوتی ہے، تلاش خالق کی ہوتی ہے … اور برائے ذاتِ خالق! اپنی تحقیق کے دوران میں جب انہوں نے اہل مشرق کے ہاں تصوف کی اصطلاح دیکھی تو اسے اپنے ہاں رائج spiritualism کا مترادف سمجھا۔ یہاں سے انہوں نے mysticism کا لفظ ایجاد کر لیا … اور ہمارے سادہ لوح لوگوں نے اہلِ مغرب کی مرعوبیت کے زیر اثر، تصوف کا لفظ چھوڑ کر mysticism کا لفظ اپنا لیا … اور یوں اُس تصوف کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہو گئے جو اصحابِ صفّہ کا ورثہ تھا۔ وہ اُس تصوف سے ناواقف رہ گئے جس کا تعلق ”صفا“، یعنی باطن کی صفائی کے ساتھ تھا۔
مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ تصوف کے لیے mysticism کا لفظ بولنے سے سختی سے منع کیا کرتے۔ آپؒ فرماتے کہ ”تصوف کوئی اِزمism نہیں، یہ شریعتِ اسلام سے الگ کوئی نظام نہیں۔ یعنی تصوف شریعت ہی کی حقیقت ہے، جو ہر شخص پر جدا جدا وارد ہو گی۔ تصوف میں ہمیں احکامِ شریعت کی حکمت اور معرفت سے آگاہی حاصل ہوتی ہے۔ دین کا ظاہر شریعت ہے اور اس کا باطن طریقت۔ مرشد ارشاد فرماتے: ’’طریقت شریعت باالمحبت ہے“۔

Advertisements
julia rana solicitors london

صوفیا اگرچہ روحانیات کے علوم بھی جانتے ہیں لیکن ان کا تعارف روحانیت ہے، روحانیات نہیں۔ ان کی پہچان عرفانِ حق ہے، کوئی ماورائی قوت و دسترس نہیں۔ عامل اور کامل میں فرق ہوتا ہے۔ عاملین اور عارفین میں فرق رہے گا۔ جس طرح ہر مومن مسلمان ہوتا ہے، لیکن ہر مسلمان لازم نہیں کہ مومن بھی ہو … جس طرح ہر عارف عالم بھی ہوتا لیکن ہر عالم عارف نہیں ہوتا … اسی طرح ہر صوفی خدمت انسانیت کو افضل عبادت جانتا ہے، لیکن ہر خدمت کرنے والا، philanthropist صوفی نہیں ہوتا۔ ہر صوفی مرقعِ اخلاق بھی ہوتا ہے، لیکن ہر اخلاق برتنے والا لازم نہیں کہ صوفی بھی ہو۔ ہر صوفی مثبت سوچ کا حامل ہوتا ہے، لیکن ہر مثبت سوچ کا پرچارک صوفی نہیں۔ گنگا رام، نیلسن منڈیلا اور اسٹیفن کووئے … ہر کسی کا اپنے اپنے شعبے میں ایک مقام ہے اور ان کے مقام کا احترام ہر ذی شعور پر واجب ہے … لیکن انہیں اہلِ تصوف ثابت کرنا قرینِ عقل نہیں، کیونکہ تصوف ان کا شعبہ ہے، نہ مطالبہ!!۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply