• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کان لگا کر ذرا اسرائیل کی یہ صدا سُن لیجیے۔۔۔اسد مفتی

کان لگا کر ذرا اسرائیل کی یہ صدا سُن لیجیے۔۔۔اسد مفتی

ایک تحقیق کے مطابق گزشتہ برس برطانیہ میں سامی مخالف حملے ریکارڈ سطح پر پہنچ گئے۔نسلی منافرت کے واقعات جن میں قتل کی دھمکیوں سے لے کر جسمانی حملے شامل ہیں ،میں30فیصد اضافہ کے بعد ان کی تعداد 600 تک پہنچ گئی ہے۔برطانیہ میں یہودیوں کی حفاظت کے معاملے پر مشورہ دینے والے کمیونٹی سکیورٹی ٹرسٹ کے مارک کارڈنر کا کہنا تھا کہ گزشتہ65 برس میں (جب سے ایسے واقعات کی مانیٹرنگ کی جارہی ہے(کے دوران یہ بدترن اعدادو شمار ہیں،اس کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی تناؤ  کا الزام برطانوی یہودیوں کو دیا جاتا ہے،اور بعض اوقات ان پر حملے کیے جاتے ہیں،جب کہ اس حوالے سے ان پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔

ادھر بین الاقوامی یہودی کا نگریس(WJC)  نے ایک رپورٹ جاری کی ہے، “یورپ میں اسلام کا فروغ”کے نام سے جاری اس سروے رپورٹ میں یہودی کانگریس نے لکھا ہے کہ 2018 تک یورپ میں مسلمانوں کے احوال و کوائف میں غیر معمولی آبادیاتی انقلاب رونما ہوگا۔اس سروے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آج کل یورپ اورامریکہ میں مذہب اسلام کو زبردست فروغ حاصل ہورہا ہے۔حالیہ عرصہ میں یورپ کے مسلمان قابل لحاظ حد تک سیاسی طاقت کی نمائندگی کررہے ہیں اگر مستحکم سیاسی نمائندگی کا یہی حال رہا تو 2020میں یورپ کی عام آبادی میں ان کی شرح تناسب 10فیصد ہوگا۔یہاں یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ میرے ملک ہالینڈ کی جملہ آبادی میں مسلمانوں کی شرح تناسب ابھی سے 10فیصد تک پہنچ گئی ہے۔

میرے حساب سے یورپ میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعدا د سے یہودی عالمی کا نگریس دو وجوہ کی بنا پر تشویش میں مبتلا ہے۔۔۔پہلی وجہ سیاسی ہے،جو ایک یورپی ممالک میں “یہودی کالونیوں اور ان کے سیاسی نظریات و اثرات کی اہمیت اور پوزیشن سے تعلق رکھتی ہے تو دوسری طرف ان یورپی ممالک کے موقف سے تعلق رکھتی ہے جہاں آنے والے دنوں میں “عرب صیہونی کشمکش پر مسلمانوں کے موقف اور ان کے وزن میں گراں قدر اضافہ کی وجہ سے اثر پڑے گا۔

رپورٹ کے مطابق یہودی کالونیوں اور ان کے سیاسی اثرات پر انتخابات میں منفی اثر کا پڑنا فطری ہے،کہ دن بدن وہاں مسلمانوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔اس سے ان کا سیاسی وزن بڑھ رہا ہے،یورپی سیاسی جماعتوں اور قانون ساز شخصیات کے حامل موثر ترین رول ادا کرنے کا موقف بھی مستحکم ہورہا ہے۔یہاں تک کہ یورپی ممالک میں حکومتیں اور سیاسی جماعتیں اسلام سے بڑھتی ہوئی لوگوں کی دلچسپی کو تسلیم کرتے ہوئے علاقائی مسائل میں سیاسی موقف کے یقین کے ساتھ اس لحاظ کرنے پر مجبور ہیں۔

رپورٹ میں برطانیہ میں ہوئے گزشتہ انتخابات کی مثال دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ برطانیہ کی مسلم اکثریتی علاقوں میں اسرائیلی موقف رکھنے والے امیدواروں کے خلاف ہزاروں پمفلٹ اور کتابچے تقسیم کیے گئے اور امریکہ کی طرف سے اسرائیل کو ملنے والی اقتصادی اور فوجی امداد کو نشانہ بنایا گیا،اور اسرائیل کی ناروا،ظالمانہ،صیہونیت حکمت عملی کی نشاندہی کی گئی۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جس میں عرب اور غیر عرب دونوں شامل ہیں نے مارکس اینڈ سپنسر جیسے ڈیپارٹمنٹل سٹور وں کا بائیکاٹ کرنے کے لیے مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ ان کے منافع سے ایک حصے سے اسرائیل کی مدد کی جاتی ہے،جس سے اسرائیل کے مظالم اور بڑھ جائیں گے،اور فلسطینیوں پر اس کے جورو ستم کا شکنجہ اور کَس دیا جائے گا۔

یہودی   عالمی کانگریس کی تشویش کی دوسری وجہ”امن و سلامتی کو لاحق ہونے والا خطرہ ہے کہ یورپی ممالک میں اسلام کا فروغ یہودیت کے لیے خطرہ “اور سکیورٹی کے لیے رسک ہے،رپورٹ میں اس بات کی بھی واضح طور پر نشاندہی کی گئی ہے کہ مسلم انتہا پسند حلقوں کی غالب اکثریت یہود مخالف سرگرمیوں میں حصہ لیتی رہتی ہے،یہی وجہ ہے کہ جب بھی فلسطین میں اسرائیل اپنی کارروائیوں میں تیزی لاتا ہے مغربی یورپ میں یہودیوں کے خلاف رونما ہونے والے واقعات و حادثات کی تعداد میں تین گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔(واضح رہے کہ یہ رپورٹ حالیہ غزہ پر بمباری سے قبل مرتب کی گئی ہے)۔اور اکثریتی مزاحمتی واقعات میں یہودیوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔

اسرائیلی تجزیہ نگاروں،حیات دانوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ دس برسوں میں مسلم برادری کے سیاسی وزن میں نمایاں اضافہ ہوا ہے،اور امریکہ و برطانیہ کے انتخابات میں اس کا موقف اس بات کا متقاضی ہے کہ یہودی تنظیمیں اور ادارے خواب ِ غفلت سے جاگیں اور اسلامی رجحان کے تدارک کی تیاری کریں۔یہودی و اسرائیلی تجزیہ نگاروں نے اس بات پر زور دے کر کہا ہے کہ یورپ میں یہودیوں کی تعداد میں کمی اور مسلمانوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ کے باعث یورپ کے یہودی تشویش میں مبتلا ہوگئے ہیں،انہیں خطرہ لاحق ہوگیا ہے کہ یورپ میں ہونے والی آبادیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات یہودی باشندوں پر ضرور مرتب ہوں گے۔اور مسلمانوں کا یہ انتباہ پیش نظر رہنا چاہیے کہ وہ ماضی کے مقابلے می اب زیادہ منظم کارگر،منصوبہ بند اور موثر شکل میں سامنے آئیں گے۔

یہی وجہ ہے کہ صیہونی لیڈروں  نے ایک نیا نعرہ بلند کیا ہے،کہ دنیا بھر کے یہودیوں کو فلسطین میں لاکر بسایا جائے گا۔میرے حساب سے صیہونی نظریہ آج کے دور میں صرف یہودی قومیت اور یہودی سامراجیت ہی کی اجارہ کا نظریہ نہیں ہے بلکہ نسل پرستی او ر سوشلسٹ دشمنی پر بھی مبنی ہے۔
5جولائی1950کو اسرائیل نے یہ قانون بنایا کہ دنیا  بھر کے یہودی اسرائیل شہر یت لے سکتے ہیں،صیہونی دانشوروں اور مفکروں نے یہ عجیب و غریب منطق بھی پیش کی کہ وہ یہودیوں کے علاوہ فلسطین میں رہنے والے باقی عربوں کو وہاں کا شہری تسلیم نہیں کرتے۔ اس نرالی منطق کے مطابق اقلیت میں یہودی تو فلسطینی قرار پائے اور اکثریت عربوں کو ’’مہاجر‘‘ بنا دیا گیا چونکہ یہ فیصلہ یکم اپریل 1951میں کیا گیا اس لئے یہ کوئی پہلی اپریل کا روایتی مذاق نہیں تھا بلکہ اسرائیل کا ایک سنجیدہ اقدام تھا اس دن سے اسرائیلی حکومت نے عرب دشمنی کا کھل کر اظہار کیا اور عرب علاقوں پر اپنا حق جتانے کی پروپیگنڈہ مہم تیز کر دی۔

حقیقت تو یہ ہے کہ اسرائیلی حکومت نے معرضِ وجود میں آتے ہی عربوں اور فلسطینیوں کے خلاف جارحانہ کارروائی کا آغاز کر دیا تھا۔ کسی بھی حوالے سے دیکھا جائے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہودی اس ریاست کو صرف یہودیوں کے لئے مخصوص کرنا چاہتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے کہ نازی یہودیوں کو بےدخل کر کے جرمنی کو صرف نازیوں کی ریاست بنانا چاہتے تھے۔ صیہونیت اس بات کا دعویٰ بھی کرتی ہے کہ دنیا بھر کے یہودی اسرائیل کے قدیم باشندے ہیں اور یہودی قوم ایک مشترکہ جذبے، مسلسل جدوجہد، ایک مذہب اور ایک مخصوص تاریخ کی مالک ہے۔ صیہونی مفکر یہودیت کو بھی بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ کیا واقعی ایسا ہے؟ میں بھی سوچتا ہوں آپ بھی سوچئے……

بلند بانگ ہیں دعوے یہ پارسائی کے

Advertisements
julia rana solicitors

فرشتے سارے ہیں کوئی تو یاں بشر ٹھہرے

Facebook Comments

اسد مفتی
اسد مفتی سینیئر صحافی، استاد اور معروف کالم نویس ہیں۔ آپ ہالینڈ میں مقیم ہیں اور روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply