الحادِ جدید کا فتنہ / حمزہ ابراہیم

مسلم جدت پسندی

مسلمان معاشروں پر جب مغربی اقوام نے اپنا تسلط قائم کیا تو اس کو سمجھنے کی کوشش میں بعض افراد نے مغرب کا سفر کیا اور مغربی مفکرین کی کتب کا سرسری مطالعہ کیا۔ اس سے وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ مغرب کی ترقی کا راز دین کے بارے اس کے رویے میں مضمر ہے۔ یہ نہایت محدود معلومات کی بنا پر اخذ کیا گیا نتیجہ تھا، جس میں ان کے احساس کمتری کا بھی دخل تھا۔ چنانچہ انہوں نے اپنے معاشرے میں جدید علوم متعارف کرانے کے بجائے دین پر طبع آزمائی  کی۔ کچھ نے اسے مٹا دینا چاہا تو کچھ نے اس کی عجیب و غریب تشریحات کیں، جن سے دین سادہ نہ رہا اور اس کو سمجھنا پیچیدہ تر ہو گیا۔ جدت پسند مفکرین نے اجتہاد کی کھڑکی سے وہ کچھ نکالنا چاہا جو نہیں نکل سکتا تھا۔ مثلاً علامہ اقبال نے بیسویں صدی کے بدلے ہوئے زمانے میں پرانی خلافت کے احیاء پر زور دیا۔ وہ جدید وطنیت، یعنی نیشنلزم، پر بہت اچھی تنقید بھی کرتے ہیں مگر مسولینی جیسے ظالم مداری (demagogue) کی تعریفیں بھی کرتے ہیں۔ پارلیمنٹ سے جدید قومی ریاست کے مسائل اجتہاد کے ذریعے حل کرنے کی امید بھی رکھتے ہیں جبکہ ان مسائل کا اجتہاد  سے کوئی حل نکالنا ممکن نہیں ہے۔ مُلا پر تنقید کرتے ہیں مگر پیرِ رومی کے مرید کہلاتے ہیں۔ یہ ہمارے جدت پسند مفکرین کے ذہنی الجھاؤ کی ایک مثال ہے۔

اسلامسٹ بمقابلہ کمیونسٹ

ایک اور گروہ جس نے دین کو ترقی کا مخالف سمجھا وہ کمیونسٹ تھے۔ مسلمان معاشروں کے اکثر کمیونسٹ نیم خواندہ افراد تھے۔ انہوں نے کمیونزم کو بھی ٹھیک سے نہیں سمجھا تھا۔ مارکس کے بہت سے نظریات درست نہ تھے۔ جدید علوم کے اکثر اصول مارکس (متوفیٰ 1883ء) کی وفات کے بعد دریافت ہوئے ہیں۔ ان حضرات کی جہالت کی انتہاء یہ تھی کہ یہ صوفیوں کو استبداد کے خلاف لڑنے والے ہیرو قرار دیتے رہے، جبکہ یہ ساتھ ہی خود کو سائنس کا حامی بھی کہتے تھے۔ مغرب کے کمیونسٹوں میں کم از کم اتنی عقل تھی کہ انہوں نے وہاں کے صوفیوں کو ترقی پسندی کا رہنما نہیں بنایا۔

بہرحال کمیونزم کے پروپیگنڈے کے توڑ کیلئے مغرب نے مسلم معاشروں میں اپنے اتحادیوں سے مولانا مودودی کے افکار کی ترویج کروائی۔ کمیونزم کے مقابلے میں مختلف تنظیمیں بنیں جن کو کمیونسٹوں کی تنظیموں کی طرز پر بنایا گیا اور انہی کی طرح کا گروہی تشدد سکھایا گیا۔ یوں مسلم دنیا بڑی طاقتوں کی زور آزمائی کا اکھاڑہ بن کر رہ گئی۔ تاریخ سے پتا چلتا ہے کہ سرد جنگ کے دوران دوسروں کو مغرب کا ایجنٹ کہنے والے بہت سے سیاسی علما  خود مغرب کے آلۂ کار تھے۔

انقلابِ فرانس کا منفی پہلو

حقیقت یہ ہے کہ مغرب میں دینی اداروں کے خلاف پُرتشدد کاروائیاں صرف انقلابِ فرانس کے دوران ہوئیں اور اس قتل و غارت نے فرانس کو فائدہ پہنچانے کے بجائے ایک اور قسم کے استبداد میں گرفتار کیا۔ آج بھی فرانس کا سیکولرازم اس دین دشمنی سے متاثر ہے۔ آج کے دور میں توہین آمیز خاکے شائع کرنا اسی شدت پسندی کا تسلسل ہے، انکا اظہارِرائے کی آزادی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ باقی مغربی معاشروں کا سیکولرازم مختلف ہے۔ امریکہ میں آج بھی سب سے زیادہ چندہ دینی اداروں کو ملتا ہے۔ آج بھی وہاں عجیب و غریب نظریات والے فرقے پوری آزادی سے تبلیغ کرتے ہیں۔

مسلمانوں میں پاپائیت نہیں تھی

مسلمان جدت پسندوں کی ایک اور غلطی اسلام اور مسیحیت میں موجود ایک بنیادی فرق کی طرف متوجہ نہ ہونا تھا۔ قرآن میں پاپائیت کی سخت مذمت آئی ہے۔ سورہ توبہ کی آیت 31 میں ارشاد رب العزت ہے: ”انہوں نے اپنے عالموں اور درویشوں کو اللہ کے سوا خدا بنا لیا ہے اور مسیح مریم کے بیٹے کو بھی، حالانکہ انہیں حکم یہی ہوا تھا کہ ایک اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں۔“

اسلام میں علما  کوئی الگ طبقہ نہیں تھے۔ مسلمانوں میں دینی تعلیم کا نظام آزاد تھا، ہر مسلمان دین کا علم سیکھ سکتا تھا۔ عالمِ دین کو خدا اور عوام کے بیچ واسطے کا کردار نہیں دیا گیا تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ آخرت کی بخشش علما  کی رضامندی سے مشروط ہوتی یا نکاح علما  کی آشیرباد کے بغیر ناجائز قرار پاتا۔ علما  کا کام صرف دین بیان کرنا تھا۔ وہ شادی کیا کرتے تھے، عام لوگوں کی طرح کاروبار کرتے اور مختلف شعبوں سے وابستہ ہوتے تھے۔

ہاں صوفی خود کو اللہ اور عوام کے بیچ روحانی وسیلہ بنا کر پیش کرتے تھے مگر وہ بھی کسی منظم ادارے کی شکل میں نہ تھے۔ علما انبیاؑ کے وارث سمجھے جاتے تھے، آئمہ ؑ کے وارث نہ تھے۔ علما  کو ایک استحصالی طبقہ قرار دے کر نشانہ بنانا اور اس طبقے کے خاتمے کو ترقی کا لازمہ قرار دینا درست نہیں تھا۔ یہی غلط فہمی تھی جس کی وجہ سے علامہ اقبال نے وہابیت کو مارٹن لوتھر کی اصلاحات سے تشبیہ دی۔ ردِعمل میں مسلم علما  میں بھی ایسے گروہ بن گئے جو خود کو پاپائے روم کی طرح خدا کا نمائندہ قرار دینے لگے۔ اب اگر بعض مسلم ممالک میں پاپائیت ہے تو یہ جدت پسندوں کی دین ہے۔

جدید الحاد

انسان کی مہذب زندگی کی بنیاد دین ہے۔ الحادِ جدید سے مراد دین سے نفرت کی وہ شکل ہے جو جدید دور میں سامنے آئی ہے۔ دین کو ناپسند کرنے والے اور اسے برا سمجھنے والے لوگ ہر زمانے میں رہے ہیں۔ لیکن جدید دور میں چونکہ مختلف علاقوں میں رہنے والوں کا آپس میں رابطہ اور گروہ بندی ممکن ہوئی ہے تو الحاد ایک فرقے کی شکل میں سامنے آیا ہے۔ اس الحاد میں شدت زیادہ ہے کیونکہ اس میں گروہ کا تعصب بھی شامل ہو گیا ہے۔ یہ حضرات انسانی فطرت میں دین کی ضرورت کا انکار کر کے غلطی کے مرتکب ہو رہے ہیں اور سائنس کا بہانہ بنا کر خدا کا انکار کرنا چاہتے ہیں۔ جبکہ خدا کی صفات عددی نہیں ہیں اور اس لئے اس کی ذات تک رسائی انسان کیلئے ناممکن ہے۔ انسانی دماغ اعداد کی شکل میں سوچتا ہے، الفاظ کے پیچھے بھی اعداد کارفرما ہوتے ہیں۔ لہٰذا  خدا کے بارے جاننے سے سائنس اور فلسفہ عاجز ہیں۔

بعض اوقات یہ حضرات یونانی تصورِ خدا کو رد کر کے دین کے تصورِ خدا کے انکار کا نتیجہ لیتے ہیں جبکہ دین کا تصورِ خدا اس سے مختلف ہے جو یونانی فلسفیوں نے پیش کیا۔ یہ جدید علوم کا نام تو لیتے ہیں مگر لوگوں کو جدید علوم سکھانے کے بجائے تصورِ خدا کو رد کرنے کی بحث میں الجھا کر ان کو علم سے دور کر رہے ہیں۔ جدید ملحدین کا ایک مسئلہ دہشتگردوں کے جرائم کو دین کے ذمے لگانا ہے جبکہ محققین ان جرائم کے پیچھے دہشتگردوں کے سیاسی مقاصد اور دین کی غلط تشریح کا سراغ لگا چکے ہیں۔

کلٹ (cult) کی نفسیات اور جدید الحاد

بیسویں صدی میں کاغذ اور پرنٹنگ پریس کے عام ہونے نے آئیڈیالوجی کی بنیاد پر لوگوں کی نظریاتی قبیلوں میں تقسیم کا ایک نیا عمل شروع کیا۔ جدید قبائل نسل کے بجائے سوچ کی بنیاد پر بنے۔ بعض لوگوں نے دین کو بھی آئیڈیالوجی سمجھ کر تنظیمیں بنائیں جبکہ یہ حقیقت کے خلاف تھا۔ دین میں مباحات کا میدان وسیع ہے اور تکفیر کی مذمت کی گئی ہے۔ آئیڈیالوجی کا مطلب یہ تھا کہ کچھ مشخص و محدود  نظریات علم کا مکمل احاطہ کرتے ہیں اور وہی کامیابی کا واحد راستہ ہیں۔ عنقریب یہ نظریات دنیا کو فتح کر لیں گے۔ جو متفق نہ ہو اسے جینے کا کوئی حق نہیں۔ بھانت بھانت کے ازم آ گئے۔ کمیونزم اور اس کے خلاف بننے والی مذہبی تنظیمیں، دونوں کلٹ کی صفات کی حامل تھیں۔ چنانچہ ان کا حصہ بننے والا اپنے دماغ کو خاص چاردیواری میں بند رکھتا۔ احمق لوگوں کیلئے کلٹ سے وابستگی ذہنی سکون کا ذریعہ ہوتی، کیونکہ وہ انکے سب سوالوں کے سادہ جواب مہیا کرتی اور کتابیں پڑھنے کی محنت سے جان چھڑاتی۔ سائنس کو بھی مارکسزم کے اصولوں کا پابند بنانے کی کوشش کی گئی۔ اسی طرح اسلامسٹ حضرات کی طرف سے مولانا مودودی کی اسلام فہمی مکمل ضابطۂ حیات کہلائی اور اختلاف رکھنے والے نام نہاد مسلمان کہلائے۔ قبائلی طرز کا تعصب نظریاتی لوگوں کی پہچان بن گیا۔

سوشل میڈیا نے کلٹ سازی کے عمل کو مزید تقویت پہنچائی ہے جس کا مظاہرہ داعش کی طرف سے سوشل میڈیا کے استعمال کی صورت میں دیکھا جا سکتا ہے۔ آج بھی مختلف نظریاتی تنطیموں میں مخالفین کو دشمن اور انسانیت سے گرا ہوا جانور سمجھا جاتا ہے۔ دوسروں کی جاسوسی اور آپس میں کھسر پھسر پر وقت برباد کیا جاتا ہے۔ کارکنان کے اذہان کو قابو میں رکھنے کیلئے مسلسل اور سستا لٹریچر شائع کیا جاتا ہے اور انہیں دوسروں کی تحقیقات پڑھنے سے روکا جاتا ہے۔ جو ان سے الگ ہو اسے غدار اور دشمن کا ایجنٹ سمجھا جاتا ہے۔ اس پر تہمتیں لگائی جاتی ہیں اور اس کے مبینہ انحراف پر اس کے ماضی کے بارے طرح طرح کی قیاس آرائیاں کی جاتی ہیں۔ اختلاف رکھنے والے کی فکر کو سمجھنے سے زیادہ دشمن قبیلے کی مبینہ سازش کو سمجھنے کی کوشش فرمائی جاتی ہے۔

جدید الحاد بھی کلٹ کی صفات رکھتا ہے۔ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ عنقریب ساری دنیا پر چھا جائیں گے۔ جو ان سے متفق نہ ہو وہ انسانی حقوق نہیں رکھتا ہے۔سوشل میڈیا پر الحاد کے کرشماتی قائدین بھی ظاہر ہو چکے ہیں جن کےپیروکار ان کے گرد منظم ہو رہے ہیں۔ ان کی سوچ ہی علم کی معراج سمجھی جاتی ہے۔ پروفیسر رچرڈ ڈاکنز وغیرہ ان کے مولانا مودودی ہیں کہ جن کی فکر مکمل ضابطۂ حیات سمجھی جاتی ہے اور ان سے اختلاف رکھنے والے کی روشن فکری اور سائنس دانی مشکوک قرار پاتی ہے۔ اس زمانے میں، جب علم اتنا وسیع ہو چکا ہے، کسی نظریاتی قبیلے میں خود کو شامل کر لینا بیوقوفی ہے۔

الحاد کا بے جا خوف

جدید ملحدین کے مقابلے کے نام پر کچھ لوگ انہی کی طرح گروہ بندی کر کے اسلام کا دفاع کرنا چاہتے ہیں۔ ملحدین سے مناظروں کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ شاید وہ سمجھتے ہیں کہ لڑائی کا ماحول ان کو فائدہ پہنچائے گا۔ اس سے ممکن ہے ان کو چندے بھی مل جائیں اور یوٹیوب پر سبسکرائبرز بھی ہاتھ آئیں۔ البتہ اس سے الحادِ جدید کو اور ہَوا ملے گی۔ کچھ لوگ اِدھر، کچھ اُدھر ہو جائیں گے اور گروہی تعصب ان کی واپسی کا راستہ بند کر دے گا۔ تحریکِ خلافت کے بعد سے سیاسی علماء نے دین کو خطرے سے بچانے کے نام پر جتنے گروہ بنائے وہ تشدد اور جہالت کا شکار ہوئے اور ان کی وجہ سے دین بدنام ہی ہوا ہے۔ الحادِ جدید کا مقابلہ دھڑے بندی کے ماحول کو ختم کرنے، جدید علوم کو الحاد سے الگ رکھنے اور علمی تحقیقات کو صحیح شکل میں عوام تک پہنچانے سے ہی ہو سکتا ہے۔

یہ اہم ترین  نکتہ ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ الحاد انسانی فطرت کے خلاف ہے۔ لہٰذا  اس کے وسیع پیمانے پر پھیلنے اور غلبے کے امکانات بہت کم ہیں۔ ایسے میں الحاد کا خوف پھیلانا درست نہ ہو گا۔ معاشرے میں سنسنی کا ماحول بن جائے تو ایسی غیر فطری چیزوں کو پھلنے پھولنے کا زیادہ موقع ملتا ہے۔ جدید الحاد چونکہ کلٹ کی صفات رکھتا ہے لہٰذا وہ گھن گرج کے ساتھ چھا جانے کے دعوے کر رہا ہے، لیکن ان دعوؤں کی حیثیت قبائلی جنگوں میں پڑھے جانے والے رجز سے زیادہ نہیں ہے۔

جدید تعلیم اور الحاد لازم و ملزوم نہیں

جدید علوم کی تشکیل میں مسلم دنیا کا بھی حصہ ہے، یہ انسان کی مشترکہ میراث ہیں۔ جدید علوم نے پچھلی کئی صدیوں میں مغرب سے دین کو ختم نہیں کیا تو آئندہ بھی دین کی جگہ نہیں لیں گے۔ جدید علوم پر الحاد کی اجارہ داری کو تسلیم کرنا اور یونیورسٹیوں کو الحاد کے قلعے سمجھنا نادانی ہے۔ اس سے ہماری نوجوان نسل بھی جدید علوم سے دور  ہو جائے گی۔ باقی دنیا تو جدید علوم میں آگے بڑھتی رہے گی، نقصان صرف ہمارا ہو گا۔

پھکی فروش حکیموں سے ہوشیار رہنا بھی ضروری ہے۔ ہمارے ہاں جب کوئی مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو کچھ لوگ اس کے حل کے نام پر اپنا پرانا چورن نئی پیکنگ میں بیچنا شروع ہو جاتے ہیں۔کرونا آیا تو بعض لوگوں نے اسلامی طب کے نام پر وہ دوائیں کرونا کی روک تھام کیلئے تجویز کیں جو پہلے کسی وبا کے خلاف کارگر ثابت نہ ہوئی تھیں۔ اب الحاد کے مقابلے کے نام پر کچھ لوگ اسلامی فلسفے کا بزنس شروع کر چکے ہیں۔ دین کے نام پر یونانی فلسفے یا تصوف کی توہمات پھیلانے سے دین کی بدنامی ہو گی۔ پچھلے دو سو سال کی تاریخ میں یہ فلسفہ کسی علمی محاذ پر کام نہیں آیا۔ حال میں بھی ایران میں ملاصدرا کا فلسفہ الحاد کا مقابلہ کرنے میں ناکام ہے۔

مغرب زدگی درست نہیں

روشن فکر افراد کیلئے ضروری ہے کہ مغرب کی نقالی کے بجائے اسے ٹھیک سے سمجھا جائے۔ ہر معاشرے کیلئے ترقی کا ایک ہی راستہ تجویز کرنا درست نہیں۔ اسی طرح مغرب کا بغض اور اس کے خلاف تعصب اور نفرت بھی درست نہیں ہے۔ ترقی بہت پیچیدہ عمل ہے۔ بدقسمتی سے جدت پسندوں کی شدت پسندی اور اس کے ردِعمل نے مسلم معاشروں میں برداشت کو ختم کر دیا ہے۔ اس کا ہماری معیشت پر بہت بُرا اثر پڑا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

 نوٹ:تحریر میں بیان کردہ  خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، مکالمہ  ویب کا ان سے اتفاق  ضروری نہیں  اور نہ ہی یہ خیالات ادارے کی پالیسی کا اظہار ہیں۔

Facebook Comments

حمزہ ابراہیم
ادائے خاص سے غالبؔ ہوا ہے نکتہ سرا § صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply