“اپنا پیغامِ محبت ہے سو جہاں تک پہنچے”

آج سے چار سال پہلے 6 جنوری کی رات کو ایک عجیب بے چینی نے آ گهیرا، کروٹ پر کروٹ بدلتا رہا لیکن نیند تهی کہ آنے کا نام نہیں لے رہی! اسی کیفیت میں اچانک ٹیلیویژن چلایا تو خبر مزید پریشان کرنے والی تهی کہ “قاضی صاحب”اب ہم میں نہیں رہے.قاضی صاحب سے ایک انسیت تهی، ایک شفیق انسان تهے. میرے گهر کو انہوں نے میزبانی کا اعزاز بخشا تها. گئے تو انتہائی دکهی کر گئے.الله انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے. خیر وقت چلتا رہا اور 2017 بهی آن پہنچا. گذشتہ صبح بهی جیسے ہی بیدار ہوا تو خبر منہ چڑا رہی تهی کہ اوم پوری صاحب بهی داغ مفارقت دے گئے.
حق مغفرے کرے عجب آزاد مرد تھا.
ایسے میں اپنی وال کا بیک کور تبدیل کیا، قاضی بابا اور اوم پوری صاحب کی تصاویر کو ایک ساتهہ جوڑ کر لگادیا. جس پر روایتی غازی چڑھ دوڑے، ایک صاحب کہتے ہیں ،اس دن کے علاوہ ان میں کوئی قدر مشترک بتائیے، پهر دوسرے صاحب، صاحبِ علم ہیں. 11 سال تک قرآن، حدیث اور فقہ پڑهتے رہے. کہتے ہیں،کمتر فنکار کے ساتھ قاضی کی تصویر کیوں شیئر کی،. اب میں کیا بتاؤں کہ زبان کم تروں والی کس کی ہے اوم پوری صاحب کی یا ان صاحبِ قرآن، حدیث، فقہ اور نہ جانے کیا کیا. ایک اور صاحب عنقریب دستارِ فضیلت کہیں یا دستارِ جہالت سر پر سجانے والے ہیں، جنہوں نے سوائے ماں بہن کے کچھ لذیذ گالیوں سے نوازا. (اگر وہ ماں بہن کی گالیاں دے دیتے تو بهی دیں میری بلا سے). کیا کرتا! ایک ہی وقت میں دو الگ الگ تصاویر لگاتا! ممکن ہے ایسا؟ نہیں، تو پهر. پهر کیا رہنے دیتا!
کیوں صاحب کیا دکھ کو محسوس کروں تو کیا اپنی آئی ڈی سے بهی اظہار نہ کروں! بهلا کرتا کیا! یمراج کو ای میل کرتا کہ آج کے دن ٹهہر جا، یہ تاریخ ٹهیک نہیں اوم پوری کے لیے، کیونکہ یہ تاریخ صرف عزرائیل کے لیے مقرر ہے کہ وہ صرف مسلمانوں کو ہی مارسکتا ہے. ہندو لوگوں کے لیے کسی اور تاریخ کی اپائنٹمنٹ لے لینا.
خیر اس بحث کو چهوڑیں، پریشانی کی بات یہ کہ آخر یہ اہل مدارس کیوں اتنے پست ذہن ہیں! پهر اگر ان سے بات کی جائے تو بجائے معقول جواب دینے کے گالیوں پر اتر آتے ہیں. ان کی غلطیوں کی نشاندہی کی جائے تو یہودی، سیکولر اور کافر کافر پکارنے میں دیر نہیں لگتی ان کو. وہ دن دور نہیں جب آپ کے ان رویوں کی وجہ سے مجھ جیسا کمزور ایمان والا آدمی اپنا ایمان مزید کهو بیٹهے.
خدارا اب بهی وقت ہے، آؤ ہم جیسے راندہ درگاہ لوگوں کو گلے لگاؤ، مبادہ دیر نہ ہوجائے کہیں. مباحثے بہت کیے ہم نے،آؤ مکالمہ کریں،کچھ نہیں تو اپنے عالم ہونے کے ناطے اپنے علم کا بهرم رکھ لیں. ان تفرقوں میں بٹ کر ہم نے کیا حاصل کیا ہے اگر ہو سکے تو ضرور ہمیں آگاہ کیجیے تاکہ ہم بهی مزید تفرقے ڈال کر اس امت کو فائدہ پہنچا سکیں.
آخر میں ان صاحب کو عرض کرتا چلوں، جو پوچهتے ہیں کہ ان شخصیات میں قدر مشترک کیا تهی.
وہ دونوں انسان میرے لیے محبت کا ایک استعارہ تهے.
قاضی بابا کی امت مسلمہ کو متحد کرنے کی عملی جدوجہد سے کون واقف نہیں. اور رہی بات اوم پوری صاحب کی تو ان کی دو ایسی جاہل قوموں کے درمیان کہ جن کا روزمرہ کا مژدہ صرف اور صرف لڑ مرنا ہے ان کے درمیان صلح کی باتیں کیا بهول گئے آپ!
خیر اللہ ہم سب کو ہدایت دے.

Advertisements
julia rana solicitors london

وما علینا الا البلاغ.

Facebook Comments

نجیب بهٹو
سماجی رویہ سے دلبرداشتہ ہوکر "مکالمہ "کے ذریعے سماج سدھارنے کا عزم رکھتا ہوں، علم و ادب کا ادنی عاشق

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply