قلابازیاں۔۔محمد اسلم خان کھچی ایڈووکیٹ

اس وقت پوری ریاستی مشینری کورونا وائرس سے جنگ میں مشغول ہے۔ وزیر اعظم دن رات ایک کیے موذی وبا سے نمٹنے کیلئے کمر بستہ ہے۔ گورنمنٹ کی بہترین حکمت عملی سے ہم ابھی تک معاشی اور جانی نقصان سے بچے ہوئے ہیں لیکن دوسری طرف اقتدار کے ایوانوں میں سازشوں کا نہ تھمنے والا سلسلہ عروج پہ ہے۔ گورنمنٹ گرا کے نئی گورنمنٹ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مفاد پرست ٹولے ایک نئی کمین  گاہ کی تلاش میں ہیں۔ جہانگیر ترین اور شہباز شریف کے رابطے زبان زد عام ہیں۔ سب سے اہم بات رفیق برادران کی چوہدری پرویز الٰہی سے ملاقات ہے اور یہ ملاقات شہباز شریف کی آشیر باد سے ہوئی ہے۔ ایک دن پہلے رفیق برادران کی شہباز شریف سے ملاقات ہوتی ہے اور دوسرے دن چوہدری پرویز الہی سے ملاقات کا انتظام کر دیا جاتا ہے۔ سارے دکھ درد دشمنیاں بھلا کے یہ ملاقات 22 سال بعد ہوئی ہے۔

سسلین مافیا کی نئی صف بندی میں وزارت اعلیٰ کا سہرا چوہدری پرویز الٰہی کے سر پہ سجتا نظر آ رہا ہے۔ گو کہ ن لیگ کے ساتھ بڑی دشمنیاں ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار بیگم کلثوم نواز صاحبہ (اللہ ان کو جنت میں جگہ عطا فرمائے) انہیں منانے ان کے گھر گئیں تو دو گھنٹے تک ان کو گیٹ پہ کھڑا رکھا گیا۔ اس کے علاوہ ان کی اس وقت ٹوٹل دس سیٹیں ہیں۔ وزارت اعلیٰ قاف لیگ لے جائے۔ یہ ن لیگ کے سینے پہ مونگ دلنے والی بات ہے لیکن ن لیگ یہ سب برداشت کرنے کو تیار بیٹھی ہے۔ ان سیاست دانوں کی کوئی دشمنیاں نہیں ہوتیں۔ یہ بس مفادات کا کھیل ہوتا ہے۔
ہمارے ملک کی سیاسی دنیا میں چوہدری برادران کو بہت زیرک اور کامیاب سیاستدان تصور کیا جاتا ہے۔۔

پاکستانی سیاست میں کامیاب سیاستدان وہ کہلاتا ہے، جو سیاست کو ڈبل شاہ بننے کے لئے استعمال کرے، جو جتنا بڑا ڈبل شاہ ہوتا ہے، اسے اتنا ہی زیادہ کامیاب سیاستدان سمجھا جاتا ہے۔ وزیر آباد والے مرحوم ڈبل شاہ اور سیاسی ڈبل شاہوں میں فرق صرف اتنا ہے کہ مرحوم ڈبل شاہ لوگوں کو رقم ڈبل کرنے کے خواب دکھا کر ان سے رقوم لیتا تھا، جبکہ سیاسی ڈبل شاہ یہ کام بالواسطہ طور پر کرتے ہیں۔ وہ الیکشن سے پہلے عوام کو ترقی کے سہانے خواب دکھاتے ہیں، ان سے ووٹ لیتے ہیں اور پھر اپنی تجوریاں بھرنے میں لگ جاتے ہیں۔

پاکستانی سیاست میں اگر کسی کو سب سے چالاک سیاستدان کہا جا سکتا ہے تو وہ گجرات کے چوہدری برادران ہیں، جو ہمیشہ اپنے پتے بڑی ہوشیاری سے کھیلتے ہیں، کبھی اپنے دامن پر چھینٹا بھی نہیں آنے دیتے۔ ان پر الزامات بھی لگیں تو لوگ بھول جاتے ہیں۔چوہدری ظہورالہی کی بھٹو سے جگری دوستی سے لیکر قتل دشمنی تک کی داستان بہت افسوس ناک ہے۔جب تک بھٹو سے دوستی تھی تو ان کی تصویر اپنے ڈرائنگ روم میں سجالی لیکن جب دونوں کے درمیان اختلاف پیدا ہوا تو اس اختلاف نے ’’ دشمنی‘‘ کی شکل اختیار کر لی۔ بھٹو نے چوہدری ظہور الہی کو کوہلو جیل میں مروانے کی کوشش کی تو چوہدری ظہور الٰہی نے بھٹو سے دشمنی ان کو تختہ دار پر لٹکانے تک نبھائی ۔ بھٹو کو نواب احمد خان کے مقدمہ قتل پھانسی کی سزا سنائی گئی۔ چوہدری ظہور الہٰی جنرل ضیاالحق کی کابینہ کے رکن تھے جس نے بھٹو کی پھانسی کے فیصلے کی توثیق کی تھی ۔ کہا جاتا ہے جس قلم سے جنرل ضیا ء الحق نے بھٹو کو پھانسی دینے کے حکم پر دستخط کیے تھے وہ چوہدری ظہور الٰہی ے ان سے لیا تھا۔یہ قلم آج بھی چوہدری شجاعت حسین کے پاس محفوظ ہے لیکن وہ اس بارے میں لا علمی کا اظہار کرتے ہیں۔

گجرات کے چوہدری اپنے دشمن کو نہیں بھلاتے۔ وہ کار آج بھی چوہدری خاندان کے پاس گجرات میں محفوظ ہے جسے الذوالفقار کے دہشت گردوں نے کلاشنکوف کی گولیوں سے چھلنی کر دیا تھا۔
دوسروں کو فوجی نرسری کی پیداوار کہنے والے خود جنرل ضیاء الحق کی گود سے لے کر نواز شریف کے ساتھ اقتدار میں رہے،پرویز مشرف آئے تو ان کے اوپنر سیاسی کھلاڑی بننے میں ذرا تامل کا مظاہرہ نہ کیا، پھر پیپلز پارٹی آئی، پی پی پی اور گجرات کے چوہدریوں کے ملاپ کا تو کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا، یہ تو آگ اور پانی کے ملاپ کے مترادف تھا، کیوں کہ زرداری بھٹو کے داماد تھے تو دوسری جانب گجرات کے چوہدری برادران میں سے ایک یعنی چوہدری شجاعت چوہدری ظہور الٰہی کے بیٹے اور دوسرے پرویز الٰہی ان کے بھتیجے اور داماد، چوہدری ظہور الٰہی کے قتل کا الزام پی پی پی پر لگا تھا اور چوہدری برادران کی برسوں کی سیاست پی پی پی دشمنی پر مبنی تھی، لیکن پھر چشم فلک نے اس انہونی کو بھی ہونی میں بدلتے دیکھا اور بھٹو کے داماد کی حکومت میں چوہدری ظہور الٰہی کے داماد نائب وزیر اعظم بن گئے۔ چوہدری برادران پرویز مشرف کے سب سے قریب تھے۔ پرویز الٰہی کے پاس تو پنجاب کا اقتدار تھا، لیکن پھر بھی آپ دیکھیں کہ انہوں نے بڑی خوبصورتی سے مشرف پر پڑنے والا بوجھ اپنے اوپر نہ آنے دیا۔ مشرف کا ساتھ ہونے کے باوجود لال مسجد اور اکبر بگٹی کے قتل جیسے بھیانک واقعات میں ملوث رہے ۔حالاں کہ دونوں واقعات میں وہ مذاکرات میں پیش پیش تھے۔ پرویز مشرف کمزور ہونا شروع ہوئے تو انہوں نے بڑی خوبصورتی سے جنرل کیانی کے ساتھ خود کو ہم آہنگ کرنا شروع کردیا، مشرف کی خواہش کے برعکس افتخار چوہدری کے قافلے کو روکنے سے انکار کر دیا۔

سیاسی حکومتیں بحال ہونے کے بعد ملک میں پہلا بڑا مالیاتی  سکینڈل پنجاب کوآپریٹو  سکینڈل آیا تھا، یہ ڈبل شاہ طرز کی ہی واردات تھی۔ کو آپریٹو بینک کھول کر زیادہ منافع کا لالچ دے کر لوگوں کو پیسے جمع کرانے کی ترغیب دی گئی اور پھر اچانک پیسے لے کر انہیں بند کر دیا گیا۔ اس  سکینڈل میں سب سے زیادہ چوہدری برادران کا نام آیا تھا، لیکن انہوں نے بڑی حکمت سے خود کو نکال لیا۔ ان کی شوگر ملیں تھیں، لیکن جب انہیں لگا کہ پرویز مشرف کی رخصتی کا وقت قریب آرہا ہے اور آگے ان کے لئے مشکلات ہو سکتی ہیں تو انہوں نے پیشگی ملیں بیچ دیں۔ ان کے خلاف سرمایہ  سپین منتقل کرنے کی آوازیں سنائی تو دیں، مگر انہوں نے ان آوازوں کو توانا نہیں ہونے دیا اور آہستہ آہستہ خاموشی ہوگئی۔ این آئی سی ایل اور پنجاب بینک کیس میں تو ایک وقت میں مونس الٰہی اور پرویز الٰہی پھنستے نظر آرہے تھے، لیکن ن لیگ جیسی طاقتور مخالف جماعت کے ہوتے ہوئے بھی انہوں نے خود کو بچا لیا اور اب بھی نیب اگر کسی جماعت کے حوالے سے آپ کو خاموش نظر آئے گا تو وہ قائد لیگ ہوگی۔ یہی ان کی سیاست کی کامیابی ہے۔

چوہدری برادران کی سیاسی کامیابی کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ وہ فرنٹ پر آکر کھیلنے سے پرہیز کرتے ہیں، پھر رواداری ان کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ ہر ایک کے گھر جانے اور مدعو کرنے میں کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ ریاست کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں۔
سچی بات یہ ہے کہ یہ بھی اس سسلین مافیا کا حصہ ہیں۔ جس نے اس ملک کو کھوکھلا کیا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ یہ”میسنے ہیں “۔
لیکن اب دور بدل گیا ہے ، اب سوشل میڈیا اور اینڈرائیڈ کا دور آگیا، جس نے سیاست کو بھی بدل دیا ہے، اب مقبول سیاست ہی ملک میں چل سکتی ہے، جوڑ توڑ کی جگہ مقبول لیڈر کا دور آگیا ہے، ورنہ اگر پرانے دور کی پی ٹی سی ایل فون اور اخبارات والی روایتی سیاست ہوتی تو چوہدری برادران میں اتنی سیاسی مہارت ہے کہ وہ آج حکمران ہوتے، مگر اب بھی وہ اپنی مہارت کا مظاہرہ دکھاتے رہتے ہیں۔ پنجاب میں ان کی دس نشستیں ہیں، لیکن دو وزارتیں لے اڑے ہیں۔ اسپیکر شپ پہلے ہی ان کے پاس ہے۔

صوبے میں پرویز الٰہی خود کو طاقت کے ایک مرکز کے طور پر سامنے لارہے ہیں۔ اس میں عثمان بزدار جیسا بھلا مانس اور شریف انسان ان چالوں کو سمجھ کے مقابلہ کرنےکی کوشش کر رہا ہے ۔ گورنر پنجاب چوہدری سرور بھی آنکھیں کھلی رکھے ہوئے ہیں ۔ ان کے راستے میں رکاوٹ ہو سکتے ہیں، اسی لئے انہیں کارنر کرنے کے لئے بھی چوہدری برادران لگے رہتے ہیں۔ ویڈیو لیک کرانا بھی اسی کا حصہ تھا۔مولانا فضل الرحمان کے دھرنے کی سپانسرشپ کا کھرا بھی انکے گھر کو جاتا نظر آ رہا ہے۔
وفاق کو بلیک میل کرنے کا ہر حربہ آزمایا جا رہا ہے۔ ہر طرح سے حکومت میں رہ کے حکومت کو Destabilized کرنے کی کوشش کی جا رہی ہیں۔ دن بدن انکی وفاداریوں کی کلکاریاں سامنے آرہی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اگر سیاستدان کی تعریف ڈبل شاہ ہے، تو اس وقت ملک سب سے کامیاب ڈبل شاہ چوہدری برادران ہیں۔ جن کی نِت نئی قلابازیاں سامنے آرہی ہیں۔
لیکن میرا اندازہ ہے کہ عمران خان اس وقت شدید غصے میں ہے اور خوفناک لڑائی کے موڈ میں ہے۔ اس نے بھی ٹھان لی ہے کہ یا تو یہ سسٹم اسی طرح رواں دواں رہے گا یا پورا سسٹم ہی لپیٹ دیا جائے گا۔
دیکھتے ہیں۔۔۔۔ کیا ہوتا ہے ؟
اللہ رب العزت آپکو خوشیاں عطا فرمائے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply