حقیقی آزادی کا خواب۔۔ثاقب اکبر

حقیقی آزادی کا خواب دیکھنا تو چاہیے لیکن بقول اقبال:
یہ شہادت گہِ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا
ایک روحِ آزاد کو آزادی ہی کی تمنا سے سرشار رہنا چاہیے۔ اس سے کم تر تمنا ایک انسان کے لیے اپنے وجود کی کم تر قیمت لگانے کے مترادف ہے۔ آزادی جیسے ایک فرد کے لیے نعمت عظمیٰ ہے، اسی طرح ایک قوم کے لیے بھی یہی نعمت عظمیٰ ہے۔ آزادی یعنی ہر طرح کی غلامی سے نجات۔ لا الٰہ الا اللہ واقعاً انسان کو آزاد کر دیتا ہے۔ پھر اقبال یاد آتے ہیں:
وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات
خدا پرستی انسان کو ہر طرح کی غلامی سے آزاد کر دیتی ہے۔ کیسی خوبصورت پرستش ہے اور کیسی عظیم پرستش ہے، جو انسان کو ہزار طرح کی غلامی سے آزاد کر دیتی ہے، لیکن پھر وہی بات کہ آسان نہیں یہ فیصلہ کرنا کہ مجھے آزاد ہونا ہے اور آزاد رہنا ہے۔ اس کے لیے مشکلات اور سنگین مشکلات کے صحرائوں کو عبور کرنا ہوتا ہے۔

پاکستان کے موجودہ حالات کے تناظر میں حقیقی آزادی کے راستے میں حائل مشکلات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ فیصلہ تو یہی کرنا چاہیے کہ ہم حقیقی آزادی سے کم پر راضی نہیں ہوں گے، لیکن اس کا حقیقی آزادی کا مطلب کیا ہے، اسے بھی ضرور جان لینا چاہیے۔ بقول جگر مراد آبادی:
یہ عشق نہیں آساں اتنا ہی سمجھ لیجے
اِک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے
ضروری ہے کہ خرد کے علاوہ روح بھی حقیقی آزادی کی تمنا کرے، کیونکہ:
خرد نے کہہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں

پاکستان کے جوانوں میں آج استعمار سے آزادی کی تڑپ کا جذبہ جس انداز سے موجزن ہے، ہم نے اپنی حیاتِ مستعار میں پہلے اس سطح پر اور اتنا ہمہ گیر نہیں دیکھا۔ علاوہ ازیں پاکستان کا حاکم نظام جس انداز سے استعمار کی گرفت میں ہے، یہ امر بھی کبھی اتنا آشکار نہیں ہوا، جتنا آج ہوچکا ہے۔ اس نظام کی سجی ہوئی باندیاں ہمارے روشن ضمیر جوانوں کے سامنے عریاں ہوچکی ہیں اور ہمارے جوانوں کو ان سے گھن آرہی ہے۔ وہ جان چکے ہیں کہ اس ملک کے نظام کے کون کون سے بنیادی عناصر ہیں اور وہ کس کس طرح سے غلامی کا فریضہ خشوع و خضوع سے انجام دے رہے ہیں۔ اس اٹھان اور بیداری کا ایک روشن پہلو یہ بھی ہے کہ یہ تقریباً پورے ملک میں اور ملک کے ہر گوشے میں ایک ہی سطح پر دکھائی دیتا ہے اور اس کے مظاہر ہم گذشتہ کئی دنوں سے دیکھ رہے ہیں۔

تاہم اس کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ صرف عوام کی پسندیدہ حکومت کے برسراقتدار آنے سے منزل مراد نہیں مل جائے گی۔ اول تو استعمار کے غلام آسانی سے یہ کام کرنے نہیں دیں گے۔ انھوں نے فی الحال عوامی دبائو کی وجہ سے کچھ عقب نشینی اختیار کر بھی لی تو وہ پھر کسی اور انداز سے راستوں کو روکیں گے اور مشکلات پیدا کریں گے۔ اقتدار کی غلام گردشوں میں یہ کٹھ پتلیاں ہر طرف تماشا رچائے ہوئے ہیں۔ ان کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ معرکہ بھی ہمہ گیر ہے، یہ لڑائی چومکھی ہے۔ اس کے لیے بہت زیادہ حوصلہ درکار ہے، بہت شعور چاہیے، مسلسل بیداری کی ضرورت ہے۔ ظرافت کاری، حکمت اور جہادی ولولہ درکار ہے۔ اس کے لیے تاریخ سے بھی سبق سیکھنا ہے اور معاصر دنیا میں جن قوموں نے آزادی کی تمنا لے کر جدوجہد کی ہے، ان کے تجربات کو بھی سامنے رکھنا ہے۔

اس امر کا امکان موجود ہے کہ حقیقی آزادی کا خواب دکھانے والی قیادت بظاہر پھر سے حکومت میں آنے میں کامیاب ہو جائے، لیکن پھر آنے والی مشکلات کے لیے اس کا خود تیار رہنا اور قوم کو بھی تیار رکھنا اور قوم کا مسلسل ایثار اور قربانی کے راستے میں آگے بڑھتے رہنا ناگزیر ہوگا۔ پاکستان پر نئی پابندیاں لگائی جاسکتی ہیں۔ پاکستان کے بینکوں پر بھی پابندیاں لگ سکتی ہیں، بیرون ملک موجود پاکستانیوں کو نکالا بھی جاسکتا ہے اور ان کی ترسیلات زر میں رکاوٹیں بھی پیدا کی جاسکتی ہیں۔ مہنگائی کا نیا طوفان آسکتا ہے۔ پاکستان کی کرنسی پر بے پناہ دبائو پڑسکتا ہے۔ داخلی طور پر مخالفتوں کا نیا طوفان اٹھ سکتا ہے۔ ریاست کے طاقتور ستونوں کی طرف سے بھی مشکلات سامنے آسکتی ہیں۔ پراپیگنڈا اور کردارکشی کی خوفناک مہمات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ قوم کو بھوک اور پیاس کے دشت و صحرا سے گزرنا پڑ سکتا ہے۔ پاکستان کے ازلی دشمن ایسے موقع پر سوئے استفادہ کرسکتے ہیں اور بھی کئی اَن دیکھے مسائل پیش آسکتے ہیں۔ ان سب پہلوئوں پر آج ہی غور و فکر کر لینا چاہیے۔

لا الہ الا اللہ کہنے والوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ حقیقی آزادی کے راستے میں یہ مرحلہ بھی آتا ہے کہ سپاہی اپنے پیٹ پر ایک ایک پتھر باندھتے ہیں اور قائد و رہبر دو پتھر بابندھتا ہے۔ پھر کہیں جا کر حقیقی آزادی کے خواب کی تعبیر دکھائی دیتی ہے، کیا ہم اس کے لیے تیار ہیں؟ قرآن حکیم ایک سے زیادہ مقامات پر یہ کہتا ہے کہ کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ تم کہو گے کہ ہم ایمان لائے ہیں اور تمھیں آزمایا نہیں جائے گا۔؟ اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَكُوْۤا اَنْ یَّقُوْلُوْۤا اٰمَنَّا وَ هُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ (عنکبوت۲) “کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ انھیں اسی پر چھوڑ دیا جائے گا کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں اور انھیں آزمایا نہیں جائے گا؟” ان دنوں ہمسایہ ملک ایران کی مثال بہت دی جا رہی ہے کہ پچاس کی دہائی میں ڈاکٹر مصدق کی حکومت کا تختہ امریکہ نے کیسے پلٹا۔ ہمارے تجزیہ کار یہ کہہ رہے ہیں کہ وہی تمام حربے پاکستان میں حکومت کو پلٹنے کے لیے استعمال کیے گئے ہیں۔ البتہ ایران میں 1979ء میں جو انقلاب رونما ہوا اور ابھی تک باقی اور مستحکم ہے، اس کی اونچ نیچ کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔

وہ مستحکم تو ہے لیکن ایران کے عوام اب بھی اس حقیقی آزادی کی بھاری قیمت ادا کر رہے ہیں اور ہر روز نو بہ نو مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں، قربانیاں دے رہے ہیں اور اپنی قیادت کے ساتھ کھڑے ہیں۔ داخلی فتنہ سامانیاں بھی جاری رہتی ہیں اور خارجی مداخلتیں اور سازشیں بھی۔ یہ بھی بجا ہے کہ اس کے باوجود ایران نے زندگی کے بہت سے شعبوں میں حیران کن پیش رفت کی ہے اور یہ بھی درست ہے کہ خارجی طور پر بھی اپنے آپ کو مستحکم کیا ہے، اپنے انقلاب کا پیغام سرحدوں کے اس پار بڑی کامیابی سے پہنچایا ہے اور قوموں کے اندر یہ پیغام ایک تبدیلی کا باعث بن رہا ہے۔ استعمار کے خلاف مزاحمت زیادہ منظم اور وسیع تر ہوچکی ہے۔ استعمار کے لے پالک حکمران اس سے خوفزدہ ہیں، استعمار اسی خوف کو انقلاب کی پیش رفت کے راستے میں استعمال کرتا ہے۔ بہرحال معرکہ جاری ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

پاکستان میں حقیقی آزادی کا خواب دیکھنے والے کیا یہ سب جانتے ہیں؟ کیا وہ کٹھن منزلوں سے گزرنے اور خار مغیلاں سے بھرے صحرائوں کو عبور کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔؟ اسے پھر سوچ لیجیے اور پھر قدم آگے بڑھائیں۔ اگر واقعاً آپ سچے ہیں اور اپنے پورے وجدان سے حقیقی آزادی کے آرزو مند ہیں تو مشکلات سے گزر کر ضرور کامیابی کی منزل تک جا پہنچیں گے اور آپ کی مطلوبہ جنت اللہ کی مدد سے آپ کو مل جائے گی۔ یعنی آزاد، سرافراز، مقتدر اور خوشحال وطن۔ قرآن حکیم ہمیں یہی پیغام اور یہی بشارت دیتا ہے: “أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُم مَّثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِن قَبْلِكُم ۖ مَّسَّتْهُمُ الْبَأْسَاءُ وَالضَّرَّاءُ وَزُلْزِلُوا حَتَّىٰ يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ مَتَىٰ نَصْرُ اللَّهِ ۗ أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيبٌ” ‎(بقرہ۔۲۱۴) “کیا تم نے سمجھ رکھا ہے کہ تم جنت میں داخل ہو جائو گے اور تمھیں ان مرحلوں سے نہیں گزرنا پڑے گا، جن سے تم سے پہلے لوگ گزرے ہیں، جب ان پر مشکلیں اور مصیبتیں آئیں اور وہ ہلا دیے گئے، یہاں تک کہ رسول اور ان کے ساتھ ایمان لانے والے کہہ اٹھے کہ اللہ کی مدد کہاں ہے؟ جان لو کہ اللہ کی مدد قریب ہے۔”/بشکریہ اسلام ٹائمز

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply