سعد رفیق کیوں ہارا؟-ناصر بٹ

اس الیکشن سے چند روز پہلے مجھے میسجز ملے کہ سعد رفیق ملنا چاہتے ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے سے میں یہ میل ملاقات ترک کر چکا تھا جس کی جو وجوہات ہیں وہ میں یہاں بیان نہیں کرنا چاہتا۔
میں ملنے کیوں نہیں گیا اسکی وجہ یہ تھی کہ میں نہیں سمجھتا تھا کہ اب اس وقت جب الیکشن میں دس بارہ روز بچے ہیں میرے پاس کچھ ایسا کہنے کو تھا جس سے انکی سیاسی طور پر ادنیٰ سی بھی مدد ہو سکتی تھی،ووٹ میں نے انہیں دینا ہی تھا کہ وہ پارٹی کے امیدوار تھے اور نواز شریف کے ٹکٹ ہولڈر اور اسکے علاوہ میں انکی کچھ مدد کر نہیں سکتا تھا۔

ہم جیسے لوگوں سے مل کر حلقے بارے اور عوامی سوچ بارے آگہی کا جب وقت تھا اس وقت سعد رفیق کے پاس وقت نہ تھا اور وہ بطور قومی لیڈر اپنا آپ منوانے نکلے ہوئے تھے اور پاکستان سنوارنے کی کوشش کر رہے تھے یہ انکی اپنی ترجیحات تھیں شاید وہ اب بھی یہی سوچتے ہوں   کہ وہ آئندہ بھی یہی کریں گے۔

سعد رفیق نے حلقے کے لیے بے شمار ترقیاتی کام کروائے ہیں، اس حوالے سے انکی کارکردگی پر سوال نہیں اٹھایا جا سکتا، تو پھر ایسا کیا مسئلہ تھا جو انہیں ایک گھٹیا سے آدمی کے ہاتھوں جس کی انتخابی سیاست الیکشن سے ڈیڑھ مہینہ پہلے شروع ہوئی تھی،جو حلقے کے جغرافیے بارے بھی نہیں جانتا تھا جس کا حلقے میں ایک بھی دفتر موجود نہیں تھا، اس نے کوئی ٹرانسپورٹ وغیرہ مہیا نہیں کی، کئی پولنگ سٹیشنز پر اسکے کیمپ تک موجود نہ تھے، اس نے سعد رفیق کو 38000 ووٹوں سے ہرا دیا۔

حلقے کی سیاست میں حلقہ بادشاہ گر ہوتا ہے اور وہی آپکو تاج پہناتا بھی ہے اور تاج اچھالتا بھی ہے، اگر حلقہ آپکی ترجیحات میں بہت نیچے چلا جائے اور ورکرز آپکی شکل دیکھنے کو ترس جائیں تو حلقہ بھی آپکو بھلا دیتا ہے۔

میں کافی سوچتا رہا کہ اس پر لکھوں یا نہ لکھوں کیونکہ یہ مشکل ہوتا ہے کہ کسی ہمدرد کی طرف سے بھی کسی غلطی کی نشاندہی سامنے آئے تو اس کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت بھی کر لیا جائے مگر میں سمجھتا ہوں کہ اب بھی اگر یہ نہ بتایا گیا تو یہ دوستی نہیں دشمنی ہو گی۔

میں وہ پہلا لکھاری تھا جس نے سعد رفیق کی ابتلاء کے دور میں ایک کالم لکھا تھا جس کا عنوان تھا “لوہے کا چنا” بعد میں وہ کالم صحافی نجم ولی خان نے اخبار میں بھی شائع کیا اور آج مجھے یہ لکھتے ہوئے افسوس ہو رہا ہے کہ
“سعدرفیق کیوں ہارے”

آمریت کے باغی اور ایک عوامی سیاستدان کی شہرت رکھنے والا سعدرفیق کس طرح اپنے ہی عوام اور ورکرز سے کٹ گیا یہ دیکھنا میرے لیے بہت افسوسناک تھا اور اس سے بھی افسوسناک یہ تھا کہ خود سعد رفیق کو اسکا احساس تک نہیں تھا۔

حلقے میں انکے ورکرز ان سے ناراض تھے مگر انکے پاس کوئی ذریعہ نہیں تھا کہ سعد رفیق تک اپنی ناراضگی پہنچا سکیں۔

سعد رفیق،انکے دونوں ایم پی اے ،سولہ کونسلرز سبھی سمجھتے تھے کہ جو ان کو پتہ ہے کسی اور کو نہیں  معلوم اور وہ سیاسی حرکیات کو سمجھنے کے چیمپئن ہیں۔

الیکشن سے چند روز پہلے ایک انٹرویو میں سعدرفیق کہہ رہے تھے کہ چونکہ مخالفت میں کوئی موجود ہی نہیں اس لیے الیکشن کا مزہ نہیں آ رہا۔

یہ وہ غلط فہمی تھی جو آخر تک موجود رہی اور ان کے سپورٹرز اور ووٹرز میں بھی در آئی تھی۔

سبھی کہہ رہے تھے کہ ٹرن آؤٹ   60،70 فیصد رہا تو پی ٹی آئی ہرا سکتی ہے مگر ٹرن آؤٹ 45 فیصد کے لگ بھگ رہا اور سعد رفیق38000 ووٹوں سے ہار گئے تو وجہ کیا بنی؟
وجہ یہ بنی کہ پی ٹی آئی ووٹرز تو ووٹ ڈال گئے مگر ن لیگ کا ووٹر نکلا ہی نہیں۔

اس سے زیادہ حلوہ بنا کے کوئی الیکشن کیا پیش کر سکتا ہے جتنا اس دفعہ ن لیگ کو بنا کے دیا گیا مگر آپ اسے کیش ہی نہ کروا سکے۔
خدا گواہ ہے کہ کوئی پوچھنے نہیں آیا کہ بھائی جی ووٹ ڈالنے گئے ہو یا نہیں۔
سب یہی سمجھتے رہے کہ الیکشن تو جیتا ہوا ہے کیا کرنا ہے جا کے۔

کیا سعدرفیق جیسا گھاگ سیاستدان یہ نہیں سمجھتا تھا کہ الیکشن تو الیکشن ڈے پر لڑا جاتا ہے؟

لوگ کہتے ہیں کہ حلقہ بندی میں تبدیلی بھی سعد رفیق کی شکست کی وجہ بنی ،تو عرض یہ ہے کہ تھوڑی ریسرچ کر لیں کہ نئے شامل ہونے والے علاقوں سے سعدرفیق کو کتنے ووٹ ملے اور مسلسل چلے آ رہے علاقوں سے کتنے۔

2018 کے الیکشن میں رزلٹ سنتے سعد رفیق کے ووٹوں کے ساتھ ساتھ ہمارے دل کی دھڑکنیں بھی کم زیادہ ہوتی تھیں اس دفعہ خدا جانتا ہے ایسی کوئی کیفیت موجود نہ تھی۔

یہ ہے وہ سینس آف اونر شپ جو ہم جیسے لوگوں میں بھی مر چکی تھی جو دن رات پارٹی کے حق میں مغزماری کرتے رہتے ہیں باقیوں کی تو بات ہی جانے دیں۔
جس ورکر سے ملو ،وہ ناراض،جس بندے سے بات کرو وہ یہی کہتا تھا کہ سعدرفیق الیکشن کے بعد کہاں گم ہو گیا۔

کیا سعدرفیق یہ سمجھتے ہیں کہ مہینے میں ایک دن والٹن روڈ والے دفتر میں آ کے بیٹھ جانا کافی تھا؟

معاف کیجیے گا آپ نے لوگوں کو بھلا دیا تو لوگوں نے آپ کو بھلا دیا، نہ آپ نے رابطے کا کوئی سلسلہ رکھا نہ ہر یونین کونسل میں اپنے کوئی ایسے لوگ مقرر کیے جو آپ سے رابطہ کروا سکیں یا ان غریبوں کے چھوٹے موٹے کام کروا سکیں۔

ایک طرف کروڑوں نوکریوں کے جھوٹ بولے جا رہے تھے تو دوسری طرف وزیر بننے کے بعد اپنی خیرمقدمی تقریر کا آغاز ،آپ اس بات سے کرتے ہیں کہ ہم یہاں نوکریاں دینے کے لیے نہیں آئے۔

میں وہاں موجود تھا جب سعدرفیق نے یہ کہا تو پورے ہال میں سکتہ طاری ہو گیا،آ پ نے یہ بھی فرمایا کہ ہمارے پاس ذاتی کام لے کے نہ آئیں۔

آپ کو اس بات کا جواب بھی دینا چاہیے تھا کہ عوام آپ کو منتخب کر کے اسمبلیوں میں بھیجتی ہے سسٹم میں موجود خرابیاں اگر آپ دور نہیں کرتے اور لوگ پولیس،واپڈا،محکمہ مال وغیرہ کے ظلم کا شکار ہوتے ہیں تو وہ اپنی فریاد لے کے کس کے پاس جائیں کیونکہآپ نے تو فرما دیا ہے کہ ہم ذاتی کام نہیں کرتے۔
ن لیگ سے تو لوگ ویسے بھی یہ توقع ہی نہیں رکھتے کہ وہ کسی کو نوکری دلوائے یا کسی کی ذاتی دادرسی کرے مگر یہ سب کہنا بھی کیوں ضروری تھا؟

حلقے میں پارٹی کی مضبوطی کے لیے سعدرفیق نے کیا کیا جو پارٹی سعدرفیق کا بوجھ اُٹھاتی؟
نہ کوئی مضبوط اور سرگرم تنظیم موجود تھی نہ اس نے الیکشن ڈے پر کوئی سرگرمی دکھائی۔
پارٹی کو ڈیفنڈ کرنا آپ ویسے اپنی توہین سمجھتے تھے اور کسی ٹی وی چینل پر اس لیے نہیں آتے تھے کہ وہاں آپ کو پارٹی کو ڈیفنڈ کرنا پڑتا۔

نہ ہم اس نئے سعدرفیق سے واقف تھے اور نہ اس سعدرفیق بارے وہ جذبات باقی رہے مگر اسکے باوجود آپکے لیے دعاگو رہے کہ اللہ تعالی آپکو سرخرو کرے مگر جو بگاڑ پیدا ہو چکا تھا وہ ہماری سوچ سے بڑا تھا۔ سولہ ماہ کی حکومت کا بگاڑ اس طرح کم ہو سکتا تھا کہ آپ اپنا عوامی انداز اختیار کرتے ،والٹن آفس بیٹھنے کی بجائے حلقے میں دو دن گھوم پھر کے لوگوں کے آنسو پونچھتے، جو مہنگائی اور غربت کی وجہ سے تھم نہ رہے تھے۔ مگر آپ پاکستان کو ٹھیک کرنے میں مصروف رہے پھر کیا ہوا کہ نہ آپ پاکستان ٹھیک کر سکے اور نہ حلقے کو ساتھ رکھ سکے۔

لوگ کہہ رہے ہیں کہ ن لیگ کو چاہیے کہ سعد رفیق کو کسی خالی نشست سے منتخب کروا کے اسمبلی میں بھیجے مگر ہمارا مشورہ یہ ہے کہ آپ ایسا ہرگز مت کیجیے گا۔

یہی آپکا حلقہ ہے۔ اسی حلقے نے آپ کو پلکوں پر بٹھایا تھا ،یہ آپ کے لوگ ہیں یہ ناراض ہیں تو انہیں منائیے،انکے دکھ درد سنیے اور اگلے چند سال ان سے جڑ جائیے، تاکہ اگلے الیکشن میں آپ کو کسی کو کہنا ہی نہ پڑے اور لوگ آپکا الیکشن اپنے سعد بھائی کا الیکشن سمجھ کر لڑ رہے ہوں، بجائے اسکے کہ کسی مانگے تانگے کی سیٹ پر جا کے الیکشن لڑیں ۔اور شاہد عباسی کی طرح ساری عمر یہ باتیں سنیں کہ حلقے سے مسترد ہو کر لاہور سے آ کے ممبر بن گیا۔

آپ ہمیں وہ سعدرفیق لوٹا دیں جو آمریت کا باغی اور لوگوں کا سعد بھائی تھا، ہم آپ پر وہ محبتیں نچھاور کرنے کو تیار ہیں جو ہم ہمیشہ بغیر کسی مفاد کے نچھاور کرتے آئے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ فیس بک وال

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply