دنیا تصادمِ تہذیب کی طرف بڑھ رہی ہے یا الہامی مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان با مقصد مکا لمے کی راہ ہموار ہو رہی ہے؟
اس میں کیا کلام ہے کہ سانحہ نیوزی لینڈ غیر معمولی حد تک تکلیف دہ ہے ۔ تاہم یہ بھی سچ ہے کہ اس حادثے سے پھوٹنے والے امکانات بھی معمولی نہیں ۔ اب یہ ہمارے اوپر منحصر ہے ہم مغرب کے لیے حرفِ دشنام لکھ لکھ کر صرف اپنا کتھارسس کرتے رہیں گے یا ہمارے اندر یہ خواہش اور اہلیت موجود ہے کہ لمحہِ موجود کے ریگزار میں سے امید اور امکان کا کوئی نخلستان تلاش کر سکیں ۔
مغرب کا مسلمانوں کے بارے میں رویہ تغیر پزیر رہا ہے، یہ کبھی یکساں نہیں رہا ۔ اس میں اتار چڑھاؤ آتے رہے۔ مغرب میں اسلاموفوبیا موجود ہے اور اس رجحان کی حوصلہ افزائی کے لیے مالی وسائل فراہم کیے جانے کے شواہد بھی موجود ہیں ۔ نائن الیون کے بعد اسلامو فوبیا اپنی انتہاء کو پہنچ گیا ۔ پوسٹ نائن الیون کا دور مسلمانوں کے لیے بہت ناسازگار تھا ۔ میڈیا نے مسلمانوں کا ایک خاص امیج بنا کر پیش کیا ، حتی کہ ویڈیو گیمز میں بھی دہشت گردوں کو اہتمام سے مسلمان بنا کر پیش کیا جاتا رہا ۔ یوں گویا ایک پوری نسل کو اسلاموفوبیا کے سائے میں پروان چڑھانے کی کوشش کی گئی ۔ اس کے خاطر خواہ نتائج برآمد ہوئے اور مغرب تو ایک طرف رہا خود مسلمان معاشروں میں مسلمانوں کے حق میں لکھنا مشکل نہیں تو ’’ آؤٹ آف فیشن‘‘ ضرور ہو گیا ۔ سانحہ کرائسٹ چرچ کے ساتھ ہی ، یہ عہد تمام ہو چکا ۔ اس کے اثرات ابھی یقیناًباقی رہیں گے ، وہ ایک لمحے میں ختم نہیں ہو سکتے لیکن تاریخ کا ورق الٹ چکا ہے اور مسلمانوں کے دکھ میں غم زدہ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم اپنے کردار سے بتا رہی ہیں کہ اب ہم ایک نئے عہد میں ہیں ۔ اس اعلان میں ان کا سماج ان کے ساتھ کھڑا ہے۔
مغرب کسی جغرافیائی تقسیم کا نام نہیں، یہ ایک تہذیب ہے۔ نیوزی لینڈ جغرافیائی طور پر فاصلے پر ہی کھڑا ہو، اس تہذیبی بیانیے میں وہ بھی مغرب میں شمار کیا جا ئے گا۔چنانچہ کرائسٹ چرچ مسجد میں ہونے والے حادثے کے بعد نیوزی لینڈ نے جس غیر معمولی انسان دوست رویے کا مظاہرہ کیا ، یہ مغربی سماج ہی کا رویہ قرار پائے گا۔ نیوزی لینڈ کے معاشرے نے بآواز بلند مظلوم مسلمانوں کا ساتھ دیا اور اس کا حق ادا کر دیا ۔ حکومت بھی پیچھے نہیں رہی ۔ وزیر اعظم نے سر پر دوپٹہ رکھا اور مسلمانوں کا دکھ ان کے چہرے پر مجسم تھا ۔ نیوزی لینڈ کی پارلیمان میں کارروائی کا آغاز تلاوت قرآن سے ہوا۔اس کے بعد وزیر اعظم جیسینڈا مخاطب ہوئیں ، انہوں نے کہا : السلام علیکم ۔ اس کے ساتھ ہی تاریخ نے ورق الٹ دیا ۔ سطحیت اور جذبات میں ڈوبے ہم لوگ سمجھ نہ پائیں تو یہ ایک الگ بات ہے۔
کل مسلمانوں کے حق میں بات کرنا مشکل تھا آج عالم یہ کہ آسٹریلوی سینیٹر مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتا ہے تو ایک غیر مسلم نوجوان اس کے سر پر انڈا دے مارتا ہے۔سترہ سال کے اس نوجوان کو قانونی امداد فراہم کرنے کے لیے 44 ہزار ڈالر اکٹھے ہو جاتے ہیں اور نوجوان یہ رقم شہداء کے اہل خانہ کو عطیہ کر دیتا ہے۔ یہ سب کیا ہے؟ یہ دو باتوں کا اعلان ہے۔ اول : اسلاموفوبیا اب ایک مقبول عام تصور نہیں رہا ، یہ ایک زوال پزیر سوچ ہے، حکمت سے کام لیا جائے توعین ممکن ہے اس کا وجود ہی باقی نہ رہے۔ دوم : مغرب کے سماج میں خیر کی ایک غیر معمولی قوت موجود ہے جسے مخاطب بنایا جائے تو امکانات کا ایک جہان آباد ہو سکتا ہے۔
مغرب کی حکومتوں اور مغرب کے سماج میں بہت فرق رہا ہے ۔ مغرب کی حکومتوں کا رویہ انسان دشمن رہا ہے اور دنیا کی تباہی میں ان کا بنیادی اور اہم کردار ہے۔ لیکن مغرب کے سماج کا معاملہ بالکل جدا ہے۔ اس سماج میں انسان دوستی اور خیر کی ایک غیر معمولی قوت موجود ہے۔ مسلمانوں سے ایک بڑی غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے مغربی سماج کو اس طرح مخاطب نہیں بنایا جیسے بنانا چاہیے تھا ۔ مغرب کا رویہ جیسے میں عرض کر چکا ہمارے بارے میں تغیر پزیر رہا ۔ لیکن ہم مغرب کے بارے یکسانیت کا شکار رہے۔ مغرب کو بالعموم دشمن ہی سمجھا گیا ۔ مغرب کے بارے میں رائے اس کے سیاسی کردار کو سامنے رکھ کر قائم کی گئی اور اس بات کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا کہ تہذیب انسانی کے ارتقاء میں مغربی سماج نے کیا غیر معمولی خدمات انجام دی ہیں۔
مغرب کا معاشرہ ہمارا دشمن نہیں ۔ مسلم معاشروں سے پناہ کی خاطر نکلے لوگوں میں سے کتنوں کو عرب ممالک نے جگہ دی اور کتنوں کو مغرب نے گلے لگایا ، کبھی حساب کر کے تو دیکھیے ۔ جس معاشرے میں خیر کی اتنی غیر معمولی قوت ہو وہ دشمن کیسے ہو سکتا ہے۔ اس معاشرے میں نہ صرف خیر غالب ہے بلکہ یہ اپنی حکومتوں سے بات منوانے کی قدرت بھی رکھتا ہے ۔ ایسے معاشرے کو مخاطب بنانے کی بجائے ہر وقت دشمن سمجھتے رہنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ نے دشمن کو یہاں ’ واک اوور‘ دے دیا ہے ۔ یہ بات بھی جان لینی چاہیے کہ اسلام کسی تہذیب کا دشمن یا حریف نہیں ، وہ سب کا خیر خواہ ہے ۔ آج نیوزی لینڈ کی پارلیمان میں تالیف قلوب کے لیے تلاوت قرآن ہوئی ، کیا عجب کل یہی گواہی وہاں صدق دل سے دی جانے لگے ۔اسلام پر ہماری کوئی اجارہ داری تو نہیں ۔ یہاں صرف کلمہ ہے اور وہاں صرف کلمہ نہیں ہے۔
مسلم دنیا کو بروئے کار آنا ہو گا ، یہی وقت ہے ۔ تصادم نہیں مکالمہ کیجیے۔ ماحول سازگار ہے ، بصیرت سے کام لیا جائے تو اینٹی سیمیٹسزم کی طرح اسلاموفوبیا کے خلاف بھی بین الاقوامی سطح پر قانون سازی کروائی جا سکتی ہے۔ مظلومیت کی قوت بہت بڑی قوت ہے۔ یہ غالبا پہلی دفعہ ہوا ہے کہ مسلمانوں پر ہونے والے ظلم پر مغربی معاشرے میں کوئی متبادل بیانیہ نہیں دیا جا سکا اور مغربی سماج مظلوم مسلمانوں کے لیے اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ کیا جذباتی رد عمل میں یہ موقع گنوا دیا جائے؟
میری رائے میں تصادم تہذیب کا خطرہ بے شک موجود ہے لیکن الہامی مذاہب کے درمیان با مقصد مکالمے کے امکانات تصادم کے خطرے سے کہیں زیادہ ہیں ۔ ان امکانات کو کھوجنے کا آغاز اپنے گھر سے ہو گا۔ سوال یہ ہے کیا ہم اپنے ملک میں اقلیتوں کے لیے ویسا ہی سائبان بن سکتے ہیں جیسا نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم مسلمانوں کے لیے بنی اور اس کا سماج اس کے ساتھ تھا ؟ امید موہوم کا چراغ ٹمٹماتا رہے یا بجھ جائے گا، اس کا انحصار اس سوال کے جواب پر ہو گا ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں