ایک طرح کا پاگل پن/محمد عامر حسینی

ممبئی سے تعلق رکھنے والے فکشن نگار رحمان عباس کا ناول ‘ایک طرح کا پاگل پن’ بیک وقت پاکستان اور بھارت سے 2023ء کے اختتام پر دسمبر کے آخری ہفتے میں شائع ہوا۔اس ناول کی تقریب رونمائی حیدرآباد میں سالانہ ‘ایاز میلو’ میں کی گئی۔ راقم الحروف اس تقریب رونمائی کے پروگرام کی نظامت کے فرائض سرانجام دے رہا تھا۔ ناول پر گفتگو کے لیے سندھ یونیورسٹی کی پروفیسر امر سندھو بنفس نفیس تقریب میں موجود تھیں۔رحمان عباس وڈیو لنک سے ممبئی سے شریک ہوئے۔

رحمان عباس سے سوالات

میں نے اس موقع پر رحمان عباس اور پروفیسر امر سندھو سے کل ملاکر چھے سوالات کیے۔ رحمن عباس نے بعد میں‌ وٹس ایپ پر میرے ساتھ مختصر بات چیت میں کہا کہ سوالات بہت سخت تھے لیکن انہیں بہت مزا آیا۔ میں  نے ان سوالات کو تیار کرتے وقت ایک تو رحمان عباس کی طرف سے ناول کی اشاعت کا اعلان ہونے کے  ساتھ ہی ان کے فن پر اور ان کے نظریات پر ‘جدیدیت’ کے علمبرداروں کے ایک حلقے کی جانب سے شدید تنقید کے سامنے آنے کو مد نظر رکھا تھا ۔ ساتھ ساتھ میں نے خود رحمان عباس کی خود اپنی ‘جدیدیت’ کے زیر اثر اردو فکشن پر تنقید کو مد نظر رکھا۔

محبت پر کسی نے انصاف نہ کیا؟

رحمان عباس نے اپنے ناول کے بنیادی اور مرکزی خیال’محبت’ کو لے کر اردو فکشن کے بارے میں‌یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ اردو میں ‘محبت’ کے موضوع سے کما حقہ انصاف کرنے والا ناول آج تک لکھا ہی نہیں گیا. ہاں وہ یہ ضرور کہتے ہیں کہ چند ایک فکشن لکھنے والوں کی کہانیاں اور افسانے ایسے ہیں جنھیں کہا جاسکتا ہے کہ وہ محبت کے موضوع کے ساتھ قدرے انصاف کرنے والے اردو فکشن میں شمار کی جاسکتی ہیں. میرے لیے ناول کو اس جہت سے دیکھنا ایک نئی بات تھی میں نے اردو فکشن پر اب تک جتنے بڑے ناقدین کو پڑھا ہے ان سب کی طرف سے میں نے اردو ناول میں ‘محب’ کے موصوع پر اس طرح کے تنقیدی جملے کبھی پڑھے اور نہ ہی سنے۔ یہ ایک ایسی جہت ہے جس کی جانب رحمان عباس نے توجہ مبذول کرائی اور میں نے اسی حوالے سے ان کے سامنے سوال رکھا تو ان کا کہنا تھا کہ یہ اتنا بڑا سوال ہے کہ اس پر الگ سے پروگرام رکھنے کی ضرورت ہے۔

رحمان عباس بزدل ہیں؟

اپنے جواب میں انھوں نے بات کو اگے بڑھایا اور اردو ناول نگاروں کے بارے میں یہ دعوی بھی کر ڈالا کہ ‘محبت نگاری’ میں وہ بزدل ثابت ہوئے ہیں۔ “ایک طرح کا پاگل پن” میں ہمیں ایک جگہ یہ بھی پڑھنے کو ملتا ہے کہ محبت کی انتہا ‘بدن’ ہے اور یہ محبت کے بارے میں عام طور پر مجاز سے حقیقت کے نوفلاطونی کلیشے کو الٹاتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ رحمان عباس نے اس سے جڑے سوال کا جواب بھی دیا۔

رحمان عباس جدیدیت کے زیر اثر کہانی میں ‘تجرید محض’ کے سخت مخالف ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کہانی سے ‘کہانی پن’ کو غائب کردینا کہانی سے سخت ناانصافی ہے۔ انھوں نے میری طرف سے کیے گئے سوال کا جواب بھی دیا اورجدیدیت پر ان کی تنقید کو پڑھنے کے بعد مجھے لگتا ہے کہ ان کے ناول جدیدیت کی طرف سے ‘کہانی پن’ کے خاتمے کا جواب بھی ہیں. یہ میرا اپنا احساس ہے جو غلط بھی ہوسکتا ہے۔

میں ناول کا ایک ایسا قاری ہوں جس کے نزدیک ناول پڑھنے کا بنیادی مقصد ‘ادبی مسرت’ کا حصول ہوتا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ رحمان عباس بھی ایسے قاری کو کسی بھی لکھنے والا کا سب سے بڑا اثاثہ خیال کرتے ہیں۔ میں نے اس ناول کو تین مرتبہ پڑھا. پہلی بار سچی بات ہے کہ میں نے اسے بطور قاری کے نہیں پڑھا بلکہ صرف ایاز میلو میں اس کتاب کی تقریب رونمائی کی نظامت کے لیے۔ اس دوران میں نے یہ بھی جائزہ لیا کہ دنیا میں بڑے بڑے ادیبوں نے اپنے کسی لکھے ناول کو ‘ازسر نو تشکیل’ دیا تو کن اثرات اور احساسات کے زیر اثر اور ان کا نتیجہ کیا نکلا۔

میرے لیے اس پہلو پر غور و خوض کرنے سے یہ انکشاف ہوا کہ اکثر ایسے تجربات نہایت کامیاب رہے اور ان سے تازگی کی خوشبو آتے قارئین کی اکثریت نے محسوس کی۔ اورسن اسکاٹ کارڈ نے اپنے ناول “اینڈرز گیم” کو “اینڈرز شیڈو” میں ایک مختلف کردار کے نقطہ نظر سے دوبارہ لکھا. اگرچہ واقعات “اینڈرز گیم” کے واقعات سے ملتے جلتے ہیں لیکن کہانی ایک نیا زاویہ پیش کرتی ہے۔ ارگریٹ ایٹ ووڈ نے اپنے ڈاسٹوپیئن کلاسک “دی ہینڈ میڈز ٹیل” کو “دی ٹیسٹامنٹس” کے سیکوئل کے ساتھ دوبارہ پیش کیا۔ پہلے ناول کے واقعات کے 15 سال بعد بنائی گئی فلم ‘دی ٹیسٹامنٹس’ میں تین مختلف خواتین کرداروں کے نقطہ نظر پیش کیے گئے ہیں جو ایٹ ووڈ کی تخلیق کردہ دنیا پر پھیلے ہوئے ہیں۔ آرتھر گولڈن نے رچرڈ سوم کے بارے میں ایک تاریخی ناول “دی سنی ان سپلنڈر” لکھ کر اپنے ناول “میموریز آف اے گیشا” کو ایک معنی میں دوبارہ پیش کیا۔ اگرچہ یہ براہ راست دوبارہ تحریر نہیں ہے لیکن یہ مصنف کی مختلف تاریخی ادوار اور اصناف کو تلاش کرنے کی صلاحیت کو ظاہر کرتا ہے۔ رحمان عباس نے ‘ممنوعہ محبت کی کہانی’ ناول 2009ء میں لکھا تھا. اس ناول کو دوبارہ لکھنے اور اس کی ایک نئی شکل پیش کرنے کا خیال انہیں سری لنکن فکشن نگار شہیان کرونا تلک ناول ‘سیون مونز آف مالی المیڈا’ کو پڑھنے کے دوران آیا . 2022ء میں بنگلور لٹریچر فیسٹوئل میں ان سے ملاقات اور بات چیت کے دوران اس ناول کے مطالعے کی تحریک ملی تھی. کرونا تلک نے یہ ناول پہلے ‘چیٹس ود دا ڈیڈ’ کے عنوان سے شایع کیا تھا. 2009ء سے 2023ء تک بھارتی سماج تیزی سے بہت سی تبدیلیوں سے گزرا ہے اور کوکنی سماج میں بھی کافی تبدیلیاں دیکھنے کو ملی ہیں اور مجموعی طور پر پورا مہارشٹر تبدیلیوں کے ایک بڑے سلسلے سے گزرا ہے۔ رحمان عباس کے ناول میں عبدالعزیز کا جو انجام ہوا اس کو ّرھتے ہوئے مجھے ڈییرہ اسماعیل خان کے شاعر و ادیب جمشید نایاب کا رہ رہ کر خیال آیا. ایسے ہی ملتان میں راشد الرحمان ایڈوکیٹ، ولی خان یونیورسٹی چارسدہ میں مشعال خان، لاہور میں سابق گورنر سلمان تاثیر، اسلام آباد میں ساق وفاقی وزیر ملک شہباز بھٹی اور خود بنگلور میں معروف ترقی پسند خاتون صحافی گوری لنکیش کے قتل کی کہانیاں نظروں میں گھوم گئیں. کوکن میں عرب ریاستوں میں روزی روٹی کی تلاش میں جانے والوں کی مذہب کو لیکر اپنی مقامی ثقافت کے بارے میں حسیت کیسے رجعت پرستانہ انداز میں 180 درجے میں بدلی اور دیکھتے ہی دیکھتے ‘مراٹھی’ زبان ‘غیر اسلامی’ اور ‘کافروں کی زبان’ ٹھہر گئی . اس کی جگہ زبردستی ‘اردو’ نے لے لی؟ یہ ایک ایسا منظر نامہ ہے جو ہمیں صرف کوکن میں ہی نہیں بلکہ پورے انڈین برصغیر میں جگہ جگہ نظر آتا ہے۔ بنگلہ دیش، پاکستان، بھارت،مالدیپ، سری لنکا، بھوٹان اور نیپال سب ممالک کی مسلمان آبادیاں اس سے متاثر ہوئی ہیں. ردعمل میں خود ہندوتوا کا ابھار بھی کچھ ایسی ہی رجعت پرستانہ تبدیلی کا اشارہ ہے۔

اس ناول میں مقامی ثقافتوں، زبان اور مذہب کے مقامی ثقافتوں سے ہم آہنگ ہوکر بننے والے نقوش کو جدید بنیاد پرستی اور عالمی اسلامی تبلیغی حسیت کی جانب سے پیش آنے والے چیلنچز کو اجاگر کرنے والی کہانی کوکن کے ایک گاؤں سورل کے زریعے سے سامنے لائی گئی ہے۔ ناول کی کہانی کی ‘تہہ داری’ ایک ایسا وصف ہوا کرتا ہے جو ناول کی بار بار قرآت پر مجبور کرتا ہے۔ رحمان عباس کے ناولوں میں یہ خوبی پائی جاتی ہے. ‘ایک طرح کا پاگل پن’ بھی اس تہہ داری سے خالی نہیں ہے۔ اس کا بنیادی تھیم بے شک ‘محبت’ ہے جو اس ناول کے راوی کی زبان میں ‘محبت ایک طرح کے پاگل پن کی سب سے سنجیدہ اور دلچسپ شکل ہے’ لیکن اس میں کئی ذیلی تھیم بھی ہیں جو اس ناول کی ‘تہہ داری’ میں اضافہ کرتے ہیں. مجھے اس ناول میں ‘شریفہ پاؤسکر’ کا کردار بھی بہت دلچسپ اور زبردست لگا. میرے سامنے گزشتہ بیس سالوں میں ہندوستان کی جامعات کے سماجی، سیاسی اور ادبی منظرنامے پر ابھر کر سامنے آنے والے کئی ایسی طالبات کے نام آئے جو ہندوستان کی کئی ایک ریاستوں کے دور دراز مضافاتی شہروں یا گاؤوں سے کسی بڑے شہر کی جامعہ میں پہنچیں اور ان کی کایا کلپ ہوئی اور ہندوستانی انٹیلیجینٹسیا کی ریڈیکل ترقی پسندانہ پرتوں میں شمار ہوئیں۔

رحمان عباس کا یہ ناول کہیں کہیں ‘میجک رئیلزم’ کی تکنیک کے استعمال سے اور خوبصورت ہوجاتا ہے اور اس کے لیے عباس نے انسپائریشن گیبرئیل گارشیا مارکیز سے لی ہے جس کے ناول ‘ لو ان دا ٹائم آف کالرا’ (وبا کے دنوں میں محبت) سے ایک اقتباس بھی اس کتاب میں شامل ہے.

For they lived long enough to know that love was always love any time, any place, but it was more solid the closer it came to death.

(وہ یہ جاننے کے لیے کافی عرصہ تک جئے کہ محبت ہمیشہ کسی بھی وقت، کسی بھی جگہ محبت ہوا کرتی ہے لیکن یہ موت کے قریب آنے کے ساتھ ساتھ اور زیادہ مضبوط ہوجاتی ہے)

رحمان عباس نے ایاز میلو میں میرے سوال کے جواب میں ‘محبت’ پر لکھے بڑے ناولوں میں سے جس ناول کا خصوصی طور پر ذکر کیا وہ ناول لیو ٹالسٹائی کا ‘اینا کریننا” تھا . پھر دوسرا ناول انھوں نے مارکیز کا ‘وبا کے دنوں میں محبت’ اور ایک اور ناول تھا . گستاؤ فلابیر کا ‘مادام بواری اور میں نے رحمان عباس کے منہ سے یہ سب سننے سے پہلے ان کے ناول ‘ایک طرح کا پاگل پن’ پڑھتے ہوئے ان ہی تین ناول کا تصور کیا تھا. رحمان عباس کے ناولوں میں منظرنگاری ایسی ہے جس کو بعض لوگوں نے طنز کے پیرائے میں ‘سینمائی تکنیک’ کے استعمال کا نام دیا ہےلیکن میرے نزدیک یہ رحمان عباس کے ناولوں کی خامی نہیں خوبی ہے اور ان کے ناولوں کی قبولیت میں اس تکنیک کا بھی کردار ہے۔

سیاست طاقتور یا ناول ؟

رحمان عباس کا خیال ہے کہ ناول اپنے اثر اور دائرہ کار کے لحاظ سے سیاست سے کہیں زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔ دوسرے معنوں میں ناول تبدیلی کے ایک میڈیم کے طور پر زبردست کردارادا کرسکتا ہے۔ ایک ایسا وقت جب ہندوستان ہو یا پاکستان یا بنگلہ دیش وہاں پر دایاں بازو کا بنیاد پرستانہ پاگل پن سارے سماج کو نفرت اور دشمنی کے گڑھے میں دھکیلنے کے لیے کوشاں ہو ایسے میں اگر کوئی ‘محبت کے پاگل پن کی سنجیدہ اور دلچسپ شکل’ کو ناول کے راستے آگے بڑھاتا ہے تو یہ امید کی جاسکتی ہے کہ ناول ایسی کوششوں کو ناکام بنانے میں اپنا کردار ادا کرسکتا ہے۔ میرے لیے ‘ایاز میلو’ میں اس ناول کی تقریب رونمائی کی نظامت ایک اعزاز کا سبب رہے گی. اس کے لیے میں ایاز میلو جیدرآباد کی انتظامیہ خاص طور پر پروفیسر امر سندھو، پروفیسر عرفانہ ملاح کا شکر گزار ہوں کیونکہ اس تقریب کے شرکا جن میں ہر عمر کے مرد و خواتین بڑی تعداد میں موجود تھے جنھوں نے اس دوران اردو ناول سے جڑے اہم ترین مباحث کو دلچسپی سے سنا.

فکشن کا نیا دور

پاک و ہند کے سماج میں فکشن زرخیزی کے نئے دور سے گزر رہا ہے. اس راستے سے بہت سارے ٹیبوز، کلیشوں کو چیلنج کیا جارہا ہے۔ یہ چیلنچ صرف انگریزی کے راستے سے ہی نہیں ہورہا بلکہ اردو، ہندی، مراٹھی، ملیالم، تیلگو، پنجابی ، سندھی، سرائیکی، بلوچی اور بنگالی سمیت مقامی زبانوں میں بھی ہورہا ہے۔ ان زبانوں میں دنیا بھر کے اہم فکشن نگاروں کے تراجم بھی اہم کردار ادا کررہے ہیں. اردو ناول نگاروں میں علی اکبر ناط‍ق، رحمان عباس، خالد جاوید، صفدر نوید زیدی، سید کاشف رضا، خالد فتح محمد، رفاقت حیات، جیم عباسی ، حفیظ خان،اشعر نجمی (میری کم علمی کہ اردو ناول نگاری میں اس دور کی خواتین کے ناموں سے ناواقف ہوں اگرچہ میں نے افسانہ اور کہانی کے میدان میں درجنوں انتہائی شاندار فکشن لکھنے والیوں کو پڑھا ہے) نمایاں ہیں. مجھے امید ہے کہ ناول جہاں ہمارے سماج میں قاری کے لیے ادبی مسرت کے سامان میسر کررہا ہے وہیں یہ سماجی بدلاؤ میعامر حسینیں بھی اپنا کردار ادا کرے گا.۔

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ  خبر والے

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply