سیدہ رابعہ کا تعلق فیصل آباد سے ہے، آپ کی لکھی ہوئی دل دہلا دینے والی داستان ”بیڑی اور بنیان” میں راجو اور اس کے بدقسمت شوہر اصغر کی ہنگامہ خیز کہانی کے ذریعے غربت اور کشمکش کی تلخ حقیقتوں کو بیان کیا گیا ہے۔ افسانچے کا آغاز کرتے ہوئے سیدہ رابعہ لکھتی ہیں کہ ”خدا غارت کرے ایسی غربت کو جو غریب کو بدکار اور بے حیا بننے پر مجبور کر دے۔ ارے یہ رجو اور اس کا نکما نالائق شوہر، جب دیکھو دن رات کتوں کی طرح لڑتے رہتے ہیں اور بچے بیچارے، کونوں کھدروں سے بلونگڑوں کی طرح سر نکالے سب چپ چاپ ڈرے سہمے تماشا دیکھتے ہیں۔ “کہاں مر گئی تھی؟؟؟ لا پیسے دے، آج پہلی تاریخ ہے۔ کل سے پورا بدن درد کر رہا ہے کمبخت۔” “تیرے لیے کماتی ہوں میں؟؟؟ جا دفع ہو۔ نکل میرے گھر سے۔ مر جا کہیں جا کر نشئی کی اولاد۔ کہاں سے میرے پلے پڑ گیا تو۔ بدبودار گند کا ڈھیر”۔
مصنفہ نے اپنے افسانچے میں ایک بے سہارا، بے بس اور لاچار جوڑے کی زندگی کے چیلنجوں سے نبرد آزما ہونے کی ایک واضح تصویر پینٹ کی ہے، ان کی مسلسل لڑائی مالی مشکلات سے پیدا ہونے والی مایوسی کی بازگشت سے سامنے آتی ہے۔ ان کے بچے ماں باپ کے گھریلو جھگڑوں کے لیے ہر وقت تیار کھڑے ہیں اور خاموشی سے کونوں میں سائے کی طرح کھلتے تماشے کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ مصنفہ لکھتی ہیں کہ ”گند کا ڈھیر بول رہی ہے مجھے، چل اندر چل تجھے بتاؤں، اصغر رجو کو چوٹی سے گھسیٹتا ہوا اندر لے گیا اور باہر نکلتے وقت اس کے چہرے پر واہیات ہنسی اور ہاتھوں میں بوتل کے پیسے تھے۔ پے در پے 7 بچوں نے 25 سالہ رجو کو 50 سال کا بنا دیا تھا، 2 بچے تو گود کے تھے۔ سوائے کوکھ کے ہر چیز اس کی سوکھ چکی تھی اور وہ خود سوکڑے کی مریض لگتی تھی”۔
“پہلی تاریخ” کو رقم کے لئے راجو کی درخواست اور اس کے شوہر کے مسترد کرنے والے جواب کی تصویر کشی ان کے حالات کی سختی کو بے نقاب کرتی ہے۔ جیسے ہی اصغر راجو کو اندر گھسیٹتا ہے، داستان ایک گہرا موڑ لیتی ہے، جس میں سر کی چوٹ کے ساتھ ایک خوفناک موڑ ظاہر ہوتا ہے جو شراب نوشی کی وجہ سے پرتشدد انجام کو سامنے لاتا ہے۔ سیدہ رابعہ لکھتی ہیں کہ ”اصغر کی موت بظاہر تو زیادہ پینے کی وجہ سے ہوئی تھی مگر جن لوگوں نے اسے غسل دیا ان کا کہنا تھا کہ سر پر گہری چوٹ لگی تھی۔ جو یقیناً نشے میں چُور کہیں گرنے کی وجہ سے لگ گئی ہو گی۔ ‘رجو، صغراں کہاں ہے؟ وہ آج تیرے ساتھ نہیں آئی؟ باپ مر گیا ہے تو کیا اب کام کاج سے چھٹی کرنی اس نے؟”۔ “نہیں باجی اس کی طبیعت نہیں ٹھیک، ایک دو دن تک آ جائے گی۔ اچھا رجو۔۔۔ کچھ چھوڑ کر مرا ہے تیرا شوہر یا ماسی سکینہ کی طرح تیری باقی کی زندگی اس کا قرض چکانے میں گزرے گی؟؟؟”۔ نہیں باجی، شکر ہے کوئی قرض نہیں تھا۔ وہ باجی بلقیس کو کیا بتاتی کہ چند آدھ سلگائی بیڑی اور خون آلودہ گندی بنیان۔ جو اس نے اپنے کچے کمرے کے کونے میں قارون کا خزانہ سمجھ کر دفنا دی تھی کہ کہیں اس کی صغراں کو باقی زندگی جیل میں نہ گزارنی پڑے”۔
سیدہ رابعہ کی یہ کہانی سات حیاتیاتی بچوں اور دو گود لیے ہوئے بچوں کے بوجھ کے ساتھ آگے بڑھتی ہے، راجو وقت سے پہلے بوڑھا ہو جاتا ہے۔ اس کے لاغر جسم کے علاوہ ہر چیز کے سوکھنے کی منظر کشی ایک ایسی زندگی کی تصویر کشی کرتی ہے جس میں جیورنبل کا خاتمہ ہوتا ہے۔ چونکہ اصغر کی موت ابہام میں گھری ہوئی ہے، اس لیے داستان ایک المناک انجام کی نشاندہی کرتی ہے۔
اصغر کے انتقال کے بعد صغران کی عدم موجودگی کا ذکر کہانی میں ایک اور باب کا اضافہ کرتا ہے۔ اور راجو کا جواب بیڑیوں اور خون آلود بنیان کے انکشاف کے ساتھ ایک چھپی ہوئی سچائی سے پردہ اٹھاتا ہے۔ جیسا کہ بنیان کو قارون کے خزانے سے تشبیہ دی گئی ہے، ایک پُرجوش علامت بن جاتا ہے، راجو کے اپنے چھوٹے بچے کو جیل کی زندگی سے بچانے کے لیے کیے گئے اقدامات ماں کی قربانی سے سامنے آتے ہیں۔
فیصل آبادی مصنفہ سیدہ رابعہ نے مہارت کے ساتھ ایک ایسی کہانی بنائی ہے جو افسانے سے ماورا ایک بہترین اور سچی کہانی لگتی ہے یہ کہانی غربت کی بیڑیوں میں جکڑے ہوئے لوگوں کو درپیش تلخ حقیقتوں پر روشنی ڈالتی ہے۔ کہانی قارئین کو چیلنج کرتی ہے کہ وہ ان گہرائیوں پر غور کریں جن میں کوئی مستقبل کی جھلک کو محفوظ بنانے کے لیے ایسی معاشرتی کہانیاں لکھ کر محفوظ کرسکتا ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں