ٹارگٹ ،ٹارگٹ ،ٹارگٹ۔کرنل ضیا شہزاد/قسط15

آئی ایم نان سوئمر!
جون جولائی کے دن تھے اور نوشہرہ کا تپتا ہوا موسم۔ہمارے ڈویژن کی ایک انفنٹری یونٹ نے دو ماہ کی سرمائی جنگی مشقوں کے لئے دریائے کابل کے کنارے کیمپ کیا ہوا تھا اور ہم ان کے ساتھ بطورِ آرٹلری آبزرور موجود تھے۔ یہاں دن رات تیر کر دریا پار کرنے کی پریکٹس کی جاتی تھی۔ ستم بالائے ستم یہ کہ نان سوئمر حضرات کو خصوصی طور پر تختہ مشق بنایاجاتا تھا۔ دن یونہی گزر رہے تھے کہ ایک دن اچانک پتہ چلا کہ بریگیڈ کمانڈر مشقوں کا جائزہ لینے کے لئے پہنچ رہے ہیں۔

یہ سننا تھا کہ پریکٹس کو گویا پر لگ گئے۔ سی او نے چن چن کر اچھے سوئمر علیحدہ کیے ۔ ان سب کو پہلےمرحلے میں دریا عبور کر کے دوسرے کنارے پر موجود فرضی دشمن سے دو بدو جنگ کر نا تھی۔مقررہ روز بریگیڈ کمانڈر تشریف لائے۔ انہیں نقشوں اور چارٹ کی مدد سے اس مشق کی غرض و غایت سمجھائی گئی۔ عملی مظاہرے کا وقت ہوا تو کمپنی نے ایک جگہ اکٹھا ہونا شروع کیا۔ کمپنی کمانڈر نے ایک ولولہ انگیز تقریر کرکے اپنے جوانوں کا لہو گرمایا اور ان کو بلاخوف و خطر آتشِ نمرود میں کود پڑنے کی تلقین کی۔ کمانڈر سمیت سب نے تالیاں بجا کر داد دی۔ جوانوں کا مورال آسمان کو چھو رہا تھا۔ سب لوگ بھاگ کر کنارے پر پہنچے اور دریا میں چھلانگیں لگا دیں۔ چشمِ زدن میں سب دریا کے پار تھے اور وہاں پر دشمن پر حملہ کر کے دادِ تحسین وصول کر رہے تھے۔

اچانک بریگیڈ کمانڈر کی نظر کمپنی کمانڈر پر پڑی جو کہ ابھی تک اسی کنارے پر موجود تھے۔ کمانڈر نے حیران ہو کر پوچھا’’میجر اسلم! آپ ابھی تک ادھر ہی کیوں موجود ہیں‘‘جواب آیا ’’سر ، آئی ایم نان سوئمر‘‘۔ اس کے بعد چراغوں میں تیل اور روشنی دونوں غائب ہو گئے۔ہوا یوں تھا کہ میجر صاحب ایک روز قبل ہی چھٹیاں گزار کر واپس پہنچے تھے اور پریکٹس میں حصہ نہیں لے سکے تھے۔ سی او نے سمجھا کہ وہ سوئمر ہیں اس لئے ان کو کمپنی کی کمانڈ سونپ دی گئی تھی۔
اس کے بعد پورا مہینہ میجر صاحب نے نیکر پہن کر دریا میں ڈبکیاں کھاتے ہوئے گزارا۔

گدھوں کا کاروبار!
12 اکتوبر 1999 کی شام کو ہم یونٹ کے ہمراہ جہلم کے ایکسرسائز ایریا میں مقیم تھے کہ اچانک اطلاع ملی کہ فوج نے حکومت کی باگ دوڑ سنبھال لی ہے۔ ایکسرسائز کے اختتام کا اعلان ہوگیا اور ہمیں فی الفور ہری پور پہنچنے کا حکم ملا۔ ہری پور پہنچ کر دو تین دن معاملات پر کنٹرول حاصل کرنے میں گزر گئے۔ کچھ دنوں بعد صورتحال معمول پر آگئی اور یونٹ نے مانیٹرنگ ٹیمیں تشکیل دے کر سرکاری محکموں کی کارکردگی کی براہ راست نگرانی شروع کر دی۔ سول حکومت اور پولیس کے اہلکار بھی ہمارے ساتھ اس ڈیوٹی میں شریک تھے۔مسائل کا ایک انبار تھا، جبکہ وسائل وہی نہ ہونے کے برابر۔دوسری جانب عوام کی توقعات کو ہ ہمالیہ سے بھی بلند ہو چکی تھیں ۔ ان کے نزدیک ہر معاملے کا آسان حل یہی تھا کہ اسے فوج کے روبرو پیش کر دیا جائے۔ چنانچہ ہمارے دفاتر کے باہر ہر وقت ان گنت لوگوں کا تانتا بندھا رہتا۔ ہم نے اپنے قیام کے دوران بھرپور کوشش کی کہ الجھے ہوئے مسائل کے حل کے لئے اقدامات کئے جائیں۔اس سلسلے میں ہمیں مقامی انتظامیہ، علاقہ معززین اور عوام کا بھرپور تعاون بھی حاصل رہا۔

یہ روٹین یوں تو بے حد تھکا دینے والی تھی لیکن بسا اوقات اس میں سے بھی ایسے ایسے شگوفے کھلتے ہوتے کہ ہم ہنستے ہنستے چکرا کر گرجاتے۔ ایک دن ایک پچاس پچپن سالہ خاتون تشریف لائیں اور شکایت کی کہ میں جب گلی سے گزرتی ہوں تو چار افراد مجھے چھیڑتے ہیں۔ آپ انہیں کیفر کردار تک پہنچائیں۔ ہم نے بی بی سے تفصیل پوچھنے کے بعد انسپکٹر بشیر کو طلب کیا اور اسے فی الفور ان چاروں افراد کو ہمارے سامنے پیش کرنے کا حکم جاری کیا۔ بشیر اپنے ساتھ پانچ سپاہی بھی لے کر گیا اور تھوڑی دیر میں ان چاروں کو لے کر ہمارے روبرو حاضر ہوگیا۔ ہم نے غور سے دیکھا تو چاروں کی عمریں ساٹھ سے ستر سال کے درمیان نکلیں۔ ایک بابا تو چلنے پھرنے سے بھی قاصر تھا اور اس کو چارپائی پر ڈال کر لایا گیا تھا۔ ہم نے سمجھا کہ بشیر کسی غلط فہمی کا شکار ہو کر غلط بندوں کو پکڑ کر لے آیا ہے لیکن بی بی نے بھی ملزموں کو شناخت کر لیا تو شک کی گنجائش باقی نہ رہی۔ تفتیش کرنے پر معلوم ہوا کہ ان بابوں نے اس بی بی کو کہیں بیس تیس سال پہلے چھیڑا تھا جس کا حساب وہ آج چکانا چاہتی تھی۔ مقدمہ دلچسپ تھا اور ہمیں سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا فیصلہ کیا جائے۔ بہرحال کافی سوچ بچار کے بعد ہم نے یونٹ کے خطیب صاحب کو بلایا اور چاروں بابوں کو اس حکم کے ساتھ ان کے حوالے کیا کہ ان سے دعائے قنوت سن کر چھوڑ دیا جائے۔خود سننے کی جسارت اس لئے نہیں کی کہ ہمیں خود بھی اچھی طرح سے نہیں آتی تھی۔

ایک روز ہمیں ایک شخص کے خلاف شکایت موصول ہوئی کہ وہ غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث ہے۔ ہم نے فوراً اس علاقے کے ایس ایچ او کو طلب کیا اور مذکورہ شخص کو گرفتار کرنے کا حکم دیا۔ ایس ایچ او کہنے لگا ’’سر اس شخص کو گرفتار کرنا خطرے سے خالی نہیں وہ انتہائی بااثر آدمی ہے‘‘۔
ہم نے غصے سے پوچھا ’’آخر یہ بااثر آدمی کیا کاروبار کرتا ہے۔‘‘ جواب ملا ’’سر وہ گدھوں کا کاروبار کرتا ہے۔‘‘

بِل وِل
مئی 1998 میں ہماری شادی ہوئی۔ ہم فیملی کو پشاور شفٹ کرنے کا سوچ رہے تھے لیکن مشکل یہ آن پڑی کہ فوج کے اصول کے مطابق میریڈ اکاموڈیشن اور الاؤنسز کے لئے بلوغت کی حد 26 سال مقرر ہے جس سے ہم ابھی بھی تقریباً دو سال کے فاصلے پر تھے۔ ایک سینئر بزرگوار سے مشورہ کیا تو انہوں نے پہلے تو جلدی شادی کرنے کے نقصانات تفصیل سے بیان کیے اور پھر دیر تک ہمیں اس بھیانک غلطی پر سرزنش کرتے رہے ۔ جواب میں ہم نے دیر سے شادی کرنے کے نقصانات گنوانا شروع کیے جو ان کے بیان کیے گئے نقصانات سے کہیں زیادہ تھے۔ بات بڑھنے لگی تو ہم نے جلدی سے ان کے لئے چائے کا آرڈر دیا اور کہا کہ مقدر میں جو لکھا تھا وہ ہو گیااب آپ ہمیں مشورہ دیں کہ اس مشکل کا حل کیسے نکالا جائے۔

bilwil.jpg?ver=1.0بزرگوار نے خشمگیں نگاہوں سے ہمیں گھورا اور ویٹر کو ہمارے حساب میں چائے کے ساتھ سموسے اور مٹھائی بھی لانے کے لئے کہا ۔ انہوں نے سگریٹ کا ایک لمبا کش لیا اور فرمانے لگے ’’برخوردار !تمہارا مسئلہ صرف جی او سی ہی حل کر سکتا ہے۔‘‘ ہم نے عرض کی کہ جی او سی کے کرنے کے لئے ہزاروں کام ہیں یہ بات ان تک کیسے پہنچائی جائے کہ ایک نوآموز کیپٹن کتنی بڑی مشکل میں گرفتار ہے۔ بزرگوار پورا سموسہ یکبار منہ میں ڈالتے ہوئے بولے ’’اس کے لئے جی او سی کودرخواست  دینا پڑے گی۔‘‘ ہم نے ان سے یہ نیک کام بھی اپنے مبارک ہاتھوں سے کرنے کی درخواست کی جو انہوں نے قبول کر لی۔ چنانچہ کیپٹن ضیا شہزاد کی جانب سے میجر جنرل منیر حفیظ کو خط تحریر کیا گیا جس میں تمام مصائب و آلام کا ذکر کرتے ہوئے ان سے ایک عدد گھر الاٹ کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔

چند دنوں بعد جنرل صاحب کا جوابی خط موصول ہوا جس میں ہمیں شادی کی مبارکباد کے ساتھ ساتھ گھر الاٹ کرنے کی خوشخبری بھی سنائی گئی تھی۔ یہ سن کر ہم پر تو شادی مرگ کی کیفیت طاری ہو گئی۔ فوراً ڈیو ہیڈکوارٹرز سے رابطہ کر کے گھر کا الاٹمنٹ لیٹر لیا ۔ جب موقع پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ یہ گھر قدامت اور جسامت دونوں کے لحاظ سے اپنی مثال آپ تھا۔ انگریزوں کے زمانے کا تعمیر شدہ یہ گھر ایک وسیع رقبے پر پھیلا ہوا تھا۔ اس کا لان ہی طول و عرض میں فٹبال گراؤنڈ سے کیا کم ہو گا۔ کمروں کی تعداد اور ان کی لمبائی چوڑائی بھی اپنی مثال آپ تھی۔ پتہ چلا کہ لوگ اس گھر کو لینا اس لئے بھی پسند نہیں کرتے کہ اس کی دیکھ بھال اور سجاوٹ کے لئے بہت زیادہ تردد درکار تھا۔ ہم چونکہ انکار کرنے کی پوزیشن میں بالکل بھی نہیں تھے۔ اس لئے ہم نے ان باتوں کی طرف بالکل بھی دھیان نہیں دیا اور گھر میں شفٹ ہو گئے۔ اب یوں تھا کہ اس گھر میں موجود دس کمروں میں سے ہم بمشکل ایک کمرہ اور کچن استعمال کر رہے تھے۔

دن ہنسی خوشی گزر رہے تھے کہ تقریبا دو ماہ کے بعد گیس کا بل موصول ہوا جو کہ پورے 8ہزار روپے پر مشتمل تھا۔ان دنوں کپتان کی تنخواہ تقریباً چار ہزار کے قریب ہوا کرتی تھی۔ یہ بل دیکھ کر تو ہم بلبلا اٹھے کیونکہ جتنی گیس ہم استعمال کر رہے تھے اس کے مطابق تو بل پچاس روپے سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔میٹر گھر سے باہر نصب تھا وہاں جا کر میٹر ریڈنگ چیک کی جو کہ درست تھی۔ میٹر سے کچن تک کا فاصلہ کوئی سو فٹ کے قریب تھا۔ پائپ لائن کو چیک کروانے پر معلوم ہوا کہ وہ درمیان میں ایک جگہ سے لیک تھی جس کی بنا یہ واقعہ ظہور پذیر ہوا تھا۔ہم نے پائپ لائن کی مرمت تو فورا کروالی۔ اب دوسرا مرحلہ بل ٹھیک کروانے کا تھا۔ یونٹ کے کوارٹر ماسٹر اور سی او سے بات کی۔ انہوں نے بریگیڈ اور بریگیڈ والوں نے ڈیو ہیڈکوارٹر کا راستہ دکھایا۔ پورا ہفتہ ایک آفس سے دوسرے آفس کے چکر لگاتے گزر گیا ۔ ہر طرف سے ایک ہی جواب ملتا کہ اس بل کا کچھ نہیں ہو سکتا،یہ تو آپ کو ادا کر نا ہی ہو گا ۔

قریب تھا کہ اس بل کی فکر میں ہمارا دل کام کرنا چھوڑ دیتا کہ انہی بزرگوار سے دوبارہ ملاقات ہو گئی۔ ہم نے اپنی پریشانی کا ذکر ان سے کیا تو انہوں نے ہمیں جتایا کہ وہ ان نقصانات سے ہمیں پہلے ہی خبردار کر چکے تھے۔ہم نے ان سے معافی طلب کی ، آئندہ کے لئے محتاط رہنے کا وعدہ کیا اور مدد کی درخواست کی۔ ان کے لئے دوبارہ چائے، سموسے اور مٹھائی منگوائی گئی۔ انہوں نے پورا کیس تفصیل سے سننے کے بعد ہمیں اپنے ساتھ گاڑی میں بٹھایا۔ وہاں سے ہم سیدھے صدر بازار گئے اور بیکری سے دو پونڈ کا کیک پیک کروایا۔ اب ہماری گاڑی کا رخ سوئی گیس کے ریجنل آفس کی طرف تھا۔ وہاں پہنچ کر ہم نے ریجنل مینیجر کے پی اے کے توسط سے ملاقات کی اجازت طلب کی جو فوراً مل گئی۔

ہم نے کیک ان کی خدمت میں پیش کرنے کے بعد اپنی بپتا تفصیل کے ساتھ بیان کی۔ انہوں نے فرمایا کہ اتنے معمولی کام کے لئے آپ کو خودچل کر آنے کی کیا ضرورت تھی۔ اس کے بعدانہوں نے بل پر 8ہزار کو کاٹ کر 80 روپے لکھا اور دستخط کر دیے ۔ ہم نے ان کا شکریہ ادا کیا اور شاداں و فرحاں واپس گھر پہنچ گئے۔ شام کے قریب بیل ہوئی ، باہر نکل کر دیکھا تو سوئی گیس کے محکمے کا لائن مین تھا، کہنے لگا کہ سر آپ کا بل تو کم ہو گیا ہے لیکن میٹر پر ریڈنگ ابھی بھی وہی ہے، صاحب کا حکم ہے کہ اسے بھی ایڈجسٹ کر دیا جائے۔ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے اس مرد مومن نے یہ کام بھی بخوبی سر انجام دے دیا۔ اس دن کے بعد سے ہم جب بھی سوئی گیس کے آفس کے باہر سے گزرتے ہیں تودونوں ہاتھوں سے سیلوٹ کرنا نہیں بھولتے۔

لاعلمی ہزار نعمت ہے!
بڑے بوڑھے کہتے آئے ہیں کہ فوج میں اچھی کمانڈ کے لئے باخبر رہنا انتہائی ضروری ہوتا ہے۔ کمانڈر ہر جگہ خود تو موجود نہیں ہوتا لیکن اسے ہر معاملے کی خبر ہونا لازم ہے۔ کسی بڑے واقعے کے پیش آنے سے پہلے کچھ اشارے مل جائیں تو مناسب حفاظتی اقدامات اٹھائے جا سکتے ہیں اور اگر کوئی غلط حرکت وقوع پذیر ہو جائے تو اس کے اصل ذمہ داروں تک پہنچا جا سکتا ہے۔ اب یہ کمانڈر پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ اس کے لئے کیا طریقہ کار اختیار کرتا ہے ۔

ہم نے جب یونٹ میں آنکھیں کھولیں اور اپنے سے سینیئر افسران کے بیچ اٹھنا بیٹھنا شروع کیا تو خود کو اس معاملے میں ہمیشہ ایک احساس کمتری کا شکار پایا۔ باقی افسر تو بڑی تفصیل کے ساتھ یونٹ میں پیش آنے والے واقعات کے ماہرانہ تجزئیے بیان کرتے پائے جاتے جبکہ ہمارا یہ حال کہ ہمیں تفصیل تو درکنار سرے سے ان واقعات کا علم ہی نہ ہوتا اور ہونقوں کی مانند بیٹھے ان کے منہ تکا کرتے۔ ہم دل ہی دل میں حیران بھی ہوتے کہ ان بزرگوں کو اتنی خبریں کہاں سے ملتی ہیں ۔ کئی مرتبہ یہ راز جاننے کی کوشش بھی کی لیکن بھلا کوئی اپنی کامیابی کا گر بھی دوسروں سے شیئر کرتا ہے لہٰذا یہ کوشش ہمیشہ بے سود ہی ثابت ہوئی۔

جب اس قسم کی بے کیف زندگی گزارنا مزید دوبھر ہوگیا تو ہم نے سوچا کہ اب کوئی نہ کوئی راہ نکالنی ہی پڑے گی۔ کافی غور و فکر کے بعد ہم نے اپنا ذاتی خفیہ نیٹ ورک تشکیل دینے کا مصمم ارادہ کر لیا۔ اس کام کے لئے ہم نے اپنی کمپنی کے دو سپاہیوں کو تیار کیا جن کا کام ہمیں اندر کی خبریں مہیا کرنا تھا۔ ان ہرکاروں کو تعینات کر کے ہمیں یک گونہ سکون حاصل ہوا کہ آج کے بعد ہمیں کسی کے سامنے شرمندہ نہیں ہونا پڑے گا بلکہ ہمیں بھی باخبر اور ہوشیار افسر وں میں گنا جائے گا۔ جیسا ہم نے سوچا تھا ویسا ہی ہوا ۔ہمارے موکل ہمیں وقتاً فوقتاً تمام خبریں مہیا کر دیا کرتے اور ہم اگلے روز افسروں کے درمیان بیٹھ کر ان خبروں کا تجزیہ کرکے داد وصول کرتے۔

کچھ دن اسی طرح گزرے لیکن پھر ہمیں احساس ہونا شروع ہو گیا کہ ہم نے خود اپنے ساتھ کتنی بڑی دشمنی مول لے لی ہے۔ ہمارے کارندے دن دیکھتے نہ رات ،خبریں لے کر پہنچ جاتے اور چھوٹی چھوٹی فضول باتوں پر ہمارا گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ ضائع کرتے۔ ان کی فراہم کی گئی خبروں میں شاذ و نادر ہی کوئی کام کی بات ہوا کرتی بلکہ یہ زیادہ تر دوسرے لوگوں کی شکایتوں پر ہی مشتمل ہوا کرتی تھیں۔ ہوتے ہوتے ایک وقت ایسا آگیا کہ ہمیں اپنی یونٹ کے جوانوں میں خرابیوں کے پہاڑ دکھائی دینے لگے۔ ایسا اس لئے ہوا کہ ہم نے انہیں اپنی آنکھوں سے نہیں بلکہ اپنے جاسوسوں کی پہنائی ہوئی عینک سے دیکھنا شروع کر دیا تھا۔ نتیجتاًہم کسی جوان کو کوئی ذمہ داری سونپنے لگتے تو فوراً اس کی منفی خصوصیات نظروں کے سامنے گھیرا ڈال لیتیں۔

ہزار سوچ بچار کے بعد اگر کسی کو کوئی کام دے بھی دیتے تو ہر لمحہ یہی خیال رہتا کہ شاید اس شخص کو کام دے کر کہ ہم سے کوئی بھاری غلطی سرزد ہوگئی ہے۔ اسی کش مکش میں کچھ عرصہ گزارنے کے بعد بالآخر ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ زیادہ معلومات کا حصول فائدہ کے بجائے اُلٹا نقصان کا باعث ہوتا ہے ۔ شاید اسی لئے کسی بڑے بوڑھے نے یہ بھی کہہ رکھا ہے کہ بے علمی بھی خوش نصیبی ہےاسی بڑے بوڑھے کی بات پر عمل کرتے ہوئے ہم نے اپنے مخبروں کو فی الفور برخواست کردیا اور دوبارہ کبھی اس چکر میں پڑنے کی کوشش نہیں کی۔ اس کے بعد زندگی میں جو سکون میسر آیا وہ آج تک جاری و ساری ہے۔

پتیلے اور کڑاہیاں!
یو این مشن پرپوسٹ ہونے سے پہلے ہمارا خیال تھا کہ کانگو پہنچ کر دن رات راوی کے ساتھ مل کر چین لکھا کریں گے۔ لیکن وہاں پہنچ کر تو گویا چین وین سب اجڑ کر رہ گیا۔ چیف آپریشنزآفیسر کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد ہم تھے اور دن رات کی دفتری مشقت۔ نئے بریگیڈ کمانڈر پوسٹ ہو کر آئے تو ہمیں ان کے لئے بریفنگ تیار کرنا تھی۔ پرانی بریفنگ نکال کر دیکھی تو اس میں کانگو کی تاریخ کا آغاز 1960 سے کیا گیا تھا۔ ہم نے اپنی ایفیشنسی دکھانے کے لئے سوچا کہ تاریخ ذرا جامع قسم کی ہونی چاہئے لہذا تاریخ کا تذکرہ 1908 سے شروع کیا گیا۔ سلائیڈیں تیار کر کے بریفنگ دینے بیٹھے ، کمانڈر کو کانگو کی تاریخ 1908سے بتانا شروع کی اور چلتے چلتے 2015 تک پہنچے۔ یہ سن کر کمانڈر بولے کہ وہ سب تو ٹھیک ہے لیکن یہ بتا کہ 1908 سے پہلے یہاں کیا تھا؟ ہمارے فرشتوں کو بھی اس کا جواب معلوم نہیں تھا۔ کمانڈر نے سخت جھاڑ پلائی جو ہم نے اچھے جونئیرز کے طورپر وصول کی اور کہا کہ سر آپ کو چیک کر کے بتائیں گے۔

گوگل سے رجوع کیا تو پتہ چلاکہ یہ تو عین وہی جگہ ہے جہاں پر ڈارون کی تھیوری کے مطابق ہزاروں برس پہلے بندروں نے انسانی شکل اختیار کی تھی۔ اگلے روزہم نے تاریخ کو بیس ہزار قبل مسیح سے شروع کر کے سن 2015 تک پہنچایا تو کمانڈر کہنے لگے کہ یار یہ تو کچھ زیادہ نہیں ہو گیا۔ میرے خیال میں 1960 تک ہی ٹھیک ہے۔ ہم نے وہ سلائیڈیں ڈیلیٹ کرنے کے بجائے ہائیڈ کر دیں تاکہ ہمارے بعد آنے والے افسروں کو کانگو کی ہسٹری تلاش کرنے اورنئے آنے والے کمانڈروں کو مطمئن کرنے میں کوئی مشکل درپیش نہ آئے۔نئے کمانڈر کے آتے ہی زور و شور سے کام کا آغاز ہوا۔ تمام پرانے سامان کی لسٹیں ترتیب دی گئیں تاکہ اس کی جگہ پاکستان سے نیا سامان منگوا یا جا سکے۔تمام لسٹیں تیار ہو کر آرڈیننس افسر کی وساطت سے پاکستان بھجوا دی گئیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

چند دنوں کے بعد جی ایچ کیو سے ایک خط موصول ہوا جس میں ہماری لسٹوں کو اعتراض لگا کر واپس کیا گیا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ جلدی میں ہم سے انجینئرنگ کے سامان کی لسٹ میں پتیلوں اور کڑاہیوں کا اندراج ہو گیا تھا۔
جاری ہے ۔۔۔

Facebook Comments

کرنل ضیا شہزاد
کہ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply