عمران خان کے وکیل/نجم ولی خان

میں عمران خان کے ان وکیلوں کی بات کر رہا ہوں جو بائی پروفیشن وکیل ہیں اور سوال کر رہا ہوں کہ وہ انہیں اورا ن کی پارٹی کو ’ڈیڈ اینڈ‘ پرکیوں لے جانا چاہتے ہیں۔ بہت سارے دیگر عناصر کے ساتھ ساتھ اپنے وکیلوں کی وجہ سے پھانسی کے پھندے پر پہنچنے والے ذوالفقار علی بھٹو کو ایک جرات مند اور درویش قاضی القضاہ کی وجہ سے انصاف ملنے لگا ہے تو کیا یہ قوم آدھی صدی کے بعد ایک مرتبہ پھر آج ہونے والے کسی فیصلے پر انصاف کے لئے چشم براہ ہوگی۔ اس بارے پی ٹی آئی کے ان لوگوں کو سوچنا چاہئے جو اس کے ہمدرد ہیں، اس کی بقا چاہتے ہیں۔

میں خان کو بھٹو کے ساتھ نہیں رکھ سکتا۔ ہمارے مخصوص سیاسی اور سماجی منظرنامے میں بھٹو کی بیٹی نے اپنے باپ کا پرچم اٹھا لیا۔ اسے ایسا زندہ رکھا کہ آج تک نعرہ لگتا ہے اور پورے جوش و خروش سے لگتا ہے کہ زندہ ہے بھٹو زندہ ہے۔ بے چارے عمران خان کی بیٹی تو کیا بیٹے تک باپ کے ساتھ نہیں ہیں۔ کیا عمران خان اپنی سیاسی بقا مونس الٰہی کے ذریعے دیکھ رہے ہیں جو خود اپنے والد کو مشکل میں چھوڑ کے سپین بیٹھے جلتی پر تیل پھینک رہے ہیں۔ میرے لئے چوہدری پرویز الٰہی اہم ہیں۔ انہوں نے ہم صحافیوں کو سر چھپانے کے لئے کالونی دی۔ انہوں نے ریسکیو سروس دی اور میٹرک تک تعلیم مفت کی۔سو میرا فرض ہے کہ میں انہیں بتائوں کہ وہ مسلسل غلط فیصلے کر رہے ہیں جو نہ ان کی روایات کے مطابق ہیں اور نہ ہی سیاسی عقل وشعور پر پورے اترتے ہیں۔

میں بات وکیلوں کی کر رہا ہوں کہ اس وقت پارٹی انہی کے حوالے ہے۔ پی ٹی آئی کے دوستوں سے بات کی جائے تو وہ اسے جواز دیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ جب سب پر مقدمے ہو رہے ہیں تو ایسے میں وکیل ہی میدان میں کھڑے رہ سکتے ہیں۔ وہ عدالتوں کابہتر طور پر سامنا ہی نہیں کر سکتے بلکہ انہیں ’باروں‘ جیسی مضبوط باڈیز کی بھی حمایت حاصل ہے۔ جب مشکل پڑے تو ان کے لئے جج حضرات بھی بات کرتے ہیں اور کسی نہ کسی بار کے صدر کی دھمکی بھی کام کر جاتی ہے مگر سوال یہ ہے کہ عمران خان کے وکیل ان کے سامنے زمینی اور حقیقی صورتحال کیوں نہیں رکھ رہے۔ وہ انہیں کیوں نہیں بتا رہے کہ وہ دلدل میں اتر چکے ہیں او رجوں جوں آگے بڑھیں گے دھنستے چلے جائیں گے، ایک برس میں دلدل ان کی کمر تک پہنچ چکی ہے اور سر تک پہنچنے میں کتنا وقت لگے گا اس بارے اندازہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں۔ عمران خان اور ان کے ساتھی سمجھ رہے ہیں کہ بیرون ملک ہائر کی ہوئی ان کی لابنگ فرمیں انہیں بچا لیں گی یا ان کا سوشل میڈیا۔ مجھے پورے یقین کے ساتھ انہیں بتانا ہے کہ جب تک وہ خود نہیں بدلیں گے تب تک کچھ نہیں بدلے گا۔ سوشل میڈیا نہ ان کی حکومت بچا سکا نہ ان کی گرفتاری اور نااہلی۔ عقلمند کو اشارہ ہی کافی ہے۔

میں لیول پلئینگ فیلڈ سمیت دیگر مقدمات کی طرف بھی جاتا ہوں مگر ایک وکیل صاحب ہیں جو نجانے کن مقاصد کے لئے دعویٰ کر رہے ہیں کہ عمران خان پندرہ جنوری کی شام سات بجے جیل سے باہر ہوں گے۔ میں حیران ہوں کہ وکیل اپنی فیس اور شہرت کے لئے اس حد تک بھی ظالم ہوسکتے ہیں۔ جب وہ یہ مختلف ٹی وی سکرینوں پر دعوے کر رہے تھے اور اس کے ذریعے اپنا یوٹیوب چینل چمکا رہے تھے تو اسی دوران عمران خان کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کے لئے قانونی بنیادوں پر کام ہو رہا تھا۔ نگران حکومت، وزارت داخلہ کو معاونت کے لئے پابند کرتے ہوئے، ایک کابینہ کمیٹی بنا رہی تھی جس کا کام ہی یہ ہے کہ وہ نومئی کے ماسٹر مائنڈ اور منصوبہ ساز تک پہنچے۔ میں بہت آسانی کے ساتھ اندازہ لگا سکتا ہوں کہ وزارت داخلہ کے پاس جو ثبوت موجود ہیں وہ کس کی طرف لے کر جاتے ہیں۔ یہ امر واضح ہو چکا کہ گنڈاپور اور مراد سعید سمیت تین کا ٹولہ عمران خان کو یقین دلا رہا تھا کہ ان کی گرفتاری کی صورت میں ان کے جتھے جی ایچ کیو سے کور کمانڈر ہاؤسز تک پر قبضے کر لیں گے اور وہ اردوان کی طرح فاتح بن کے واپس لوٹیں گے۔ میں یہ اندازہ بھی لگا سکتا ہوں کہ اس سازش میں انہیں کچھ اندرونی عناصر کی بھی حمایت حاصل تھی ورنہ فوج خود احتسابی کرتے ہوئے کچھ لوگوں کوہرگز عہدوں سے نہ ہٹاتی۔ جو لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ نو مئی کے بلوائی ڈنڈے لہراتے ہوئے کور کمانڈر ہاؤس تک کیسے پہنچ گئے وہ اس کے سیاق و سباق پر غور کریں۔ اندرونی حمایت اور معاونت بھی فوج کے حق میں گئی اور بلوائیوں کو تیس، چالیس کی تعداد میں وہ لاشیں نہیں ملیں جو وہ لینے گئے تھے۔

میں نے پوچھا کہ وکیل اپنے مؤکل کو کیوں گمراہ کرتے ہیں تواس کا جواب تھا کہ وکیل تو پھانسی کے پھندے تک مؤکل کو سبز باغ دکھاتے رہتے ہیں کہ اب فلاں گنجائش موجود ہے اور فلاں طریقے سے تم جیل سے باہر آ جائو گے کیونکہ ان کا دھندا ہی یہی ہے۔ یہاں بھی یوں ہی ہوا کہ جب یہ دعوے کئے جا رہے تھے اور عمران خان وکلاء کی روایتی چالبازی اور اپنی فطری اکھڑبازی کی وجہ سے جال میں پھنس رہے تھے ۔ وہ الیکشن کمیشن کے ارکان کو آرٹیکل سکس لگانے کی احمقانہ دھمکیاں دے رہے تھے اور اسی کے فوری بعد وہ رہا ہونے کی بجائے نو مئی کے مقدمات میں گرفتار ہو رہے تھے جس کے بعد رہائی کب ہو گی کسی کو علم نہیں۔ اب آپ لیول پلئینگ فیلڈ کا مقدمہ ہی دیکھ لیجئے۔ میں نے بہت ساروں سے پوچھا کہ وکیل صاحب عمران خان اور اس کی پارٹی کو مروانا چاہ رہے ہیں یا واقعی نااہل اور نکمے ہیں۔ لائیو کوریج نے بہت بھانڈے پھوڑے ہیں کہ ایک سینئر اور مہنگا اور ترین وکیل سوشل میڈیا کی سی ڈی کے ذریعے سپریم کورٹ میں مقدمہ لڑنا چاہتا ہے، اس پر قہقہہ لگایا جا سکتا ہے یا رویا جا سکتا ہے۔ ویڈیو آئی ہے کہ وکیل ٹکٹوںپر بھی لڑ پڑے ہیں۔ پارٹی کے وکلاء ونگ کے صدر کی معطل شدہ چیئرمین کال تک نہیں سن رہے۔ اب اصل معاملہ ہی ٹکٹوں کا ہے کیونکہ فیسیں بچانے کے چکر میں ہی خانصاحب یہاں تک پہنچے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ایک ہندو پروہت موٹیویشنل سپیکر کا سنایا ایک واقعہ بہت اِن ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک چھوٹا پرندہ شدید سردی میں اپنے پر تک منجمد کروا چکا اور زمین پر گر گیا۔ اب وہ مرنے والا ہی تھا کہ اس پر کسی گائے نے گوبر کر دیا۔ گرما گرم گوبر نے اسے زندگی دی تو وہ خوشی سے چہچہانے لگا۔ اسے چہچہاتے سن کر قریب سے گزرتی بلی نے اسے دبوچا اور ہڑپ کر گئی۔ انہوں نے کہا ضروری نہیں کہ جو تم پر گوبر پھینکے وہ تمہارا دشمن ہی ہو اور جو تمہیں گوبر سے نکالے وہ تمہارا دوست۔ سب سے بڑھ کے یہ کہ جب تم گوبر میں پھنس جاؤ تو اپنی زبان کو بند رکھو۔ مشکل میں زبان بند رکھنے والی کہاوت کوئی خانصاحب کو سنا دے۔

Facebook Comments

نجم ولی خان
ڈائریکٹر جنرل پاکستان ریلوے،کالمسٹ،اینکر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply