بارے کچھ مثبت سوچ کی تعریف کے/ڈاکٹر اظہر وحید

آزاد کشمیر سے سیّد غلام رسول لکھتے ہیں: ”سر! کیا مسائل سے نظریں چرا لینا، کسی حسین اتفاق کا منتظر رہنا، تلخ حقائق سے چشم پوشی کر کے خود کو تسلّی دینا، کیا یہ سب مثبت سوچ کے پہلو ہیں؟؟ اگر نہیں تو مثبت سوچ کی تعریف کیا ہوگی؟؟“

ہر وہ سوچ جو منفی نہیں، مثبت ہے۔ نفی کی نفی کر دیں تو مثبت حاصل ہوتا ہے۔ شک نکال دیں تو یقین حاصل ہوتا ہے۔ کفر کا انکار کر دیں تو ایمان ملتا ہے۔۔۔ قرآن کریم کی آیت کی رو سے، طاغوت کا کفر کریں تو ایمان حاصل ہوتا ہے، اور وہ بھی ایسا کہ عروۃ الوثقیٰ سے تمسک رکھنے والا، کبھی نہ منقطع ہونے والا ایمان۔ جھوٹے معبودوں کا انکار، سچے اللہ کا اقرار ہے۔ توحید کی لذّت ایک حرفِ لا میں پوشیدہ ہے۔ معروف اختیار کرنے سے پہلے منکرات کا انکار لازم ہے۔ ہم نجاست سے دور ہو کر پاک ہو جاتے ہیں۔ دُوئی کا انکار کرتے ہیں اور یکتائی کے راستے میں یکسو ہو جاتے ہیں۔ دُوئی پسند باطل کو ترک کرنے سے لا شریک حق دل میں جاگزیں ہو جاتا ہے۔ حدیثِ پاک میں ہے کہ مبارک ہے وہ شخص جس کے دل کو حق بات کا امین بنایا گیا ہے۔ امانت کا پاسدار خیانت کے کسی بھی امکان کو ردّ کرتا ہے۔

مشکل یہ ہے کہ ہم اپنی مثبت بات کی ابتدا کو بھی مثبت ترین مانتے ہیں اور دوسروں کے مثبت پذیر موقف کو یکدم منفی قرار دے دیتے ہیں۔ اگر کسی شخص کے خیال کا رخ مثبت سمت میں ہے تو اسے مثبت ہی جانو، ممکن ہے وہ ابھی اثبات کی روشنی میں مکمل نہایا نہ ہو۔ سچ کی طلب رکھنے والا بھی سچّا ہی ہوتا ہے، اگرچہ وہ خام ہو، راستے میں ہو، نامکمل ہو۔ جب تک زندگی مکمل نہیں ہو جاتی، کسی کو منفی ڈیکلیر نہ کرنا چاہیے۔ آج کا منفی کل مثبت ہو سکتا ہے اور آج بظاہر مثبت نظر آنے والا کل کلاں منفی راستوں میں الجھ سکتا ہے۔ بس! سب کچھ ابھی راستے میں ہے، مسافر کو چاہیے کہ اپنا سفر مکمل کرے، اپنی کتاب کی تلاوت باوضو نیت کے ساتھ جاری رکھے، اپنا سوت کاتنے کی طرف دھیان کرے۔

آپ کے سوال کے پہلے تین حصے، کچھ کچھ منفیت کا شکار نظر آتے ہیں۔ کیفیتوں کو ہمیشہ اچھا نام دیتے ہیں، تاکہ کمیتوں کے بوجھ سے نجات حاصل ہو۔ انسان احسن الخالقین کی احسن تخلیق ہے۔ اس کے افعال و کیفیات کے لیے خوبصورت ترین الفاظ تجویز کرتے ہیں۔ جسے ہم ”مسائل سے نظریں چرانا“ کہہ رہے ہیں، ممکن ہے اس کی اصل حیثیت کچھ اور ہو۔ عین ممکن ہے، ایک شخص اپنے مسائل پر غور و خوض میں مصروف ہو، ہم اسے بے عمل کہہ کر آگے بڑھ گئے ہوں۔ کسی مسئلے کا سب سے پہلا حل انسانی ذہن میں ہوتا ہے۔ جب تک فکری نقشہ تیار نہ ہو، عملی میدان میں کود پڑنا ایک افراتفری کا سماں ہے۔ جب کوئی شخص اپنے مسائل پر غور کرتا ہے تو ساتھ ہی ساتھ اس مسئلے سے عہدہ برآ ہونے کے لیے کچھ راستے بھی متعین کرتا ہے اور پھر ان راستوں پر چلنے کا ایک ٹائم ٹیبل طے کرتا ہے۔ ممکن ہے ”مسائل سے نظریں چرانے والا شخص“ حال سے دور کوئی مثبت منظر دیکھ چکا ہو اور اس منظر کی طرف قدم بھی بڑھا چکا ہو، لیکن راستے میں وسائل اور مسائل کی ٹریفک اسے راستہ نہ دے رہی ہو۔ مثلاً پرانی گاڑی پر سفر کرنے والے کو کئی قسم کے مسائل درپیش ہوتے ہیں لیکن وہ ان تمام مسئلوں کے ساتھ گاڑی چلا رہا ہوتا ہے۔ وہ مسائل سے نظریں نہیں چرا رہا، بلکہ فی
الوقت نئی گاڑی خریدنا اس کی قوتِ خرید سے باہر ہے، اس لیے وہ پرانی گاڑی کے ساتھ گزر بسر کر رہا ہے۔ سیانے کہتے ہیں کہ کسی کی سواری اور مکان پر تبصرہ کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ اس سیانی کہاوت میں اتنا اضافہ کیے دیتے ہیں کہ کسی کی بیوی اور بچوں پر بھی اپنے ماہرانہ تبصرے کی لٹھ نہیں مارنی چاہیے۔ مکان، سواری، خاندان، بیوی اور بچے ایک انسان کی عزتِ نفس کا حصہ ہوتے ہیں، ان پر بغیر کسی دعوت کے تبصرہ گوئی دلوں کو ٹھیس پہنچاتی ہے۔ کسی گہرے دوست کو بھی یوں ہی بیٹھے بٹھائے مشورے نہیں دینے چاہیئں: ”تمہیں چاہیے تم مکان تبدیل کر لو، تم گاڑی نئی لے لو، تم اپنے بچوں کی تریبت کی طرف توجہ کیا کرو، تم ایسی بیوی کے ساتھ کیسے گزارہ کر لیتے ہو؟“ ایسے غیر محتاط تبصرے تعلقات میں دراڑ کا باعث بن جاتے ہیں۔ دوست دل جوئی کے لیے ہوتے ہیں، دل شکنی کے لیے نہیں!

جس کے سر پر کوئی مسئلہ آن ٹپکتا ہے، اُسے ہی اُس سے نپٹنے کی فکر سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ اگر اُسے کوئی فکر نہیں تو وہ اُس کا مسئلہ ہے ہی نہیں۔ وہ صرف دیکھنے والے کی ایک الجھن ہے۔ لوگوں کو اُن کے مسائل کی طرف متوجہ کرنے کے بجائے، اُن کے مسائل حل کرنے میں معاون ہونا چاہیے۔ تبصروں سے اصلاح نہیں ہوتی۔ اصلاح کے لیے محبت کی نگاہ درکار ہوتی ہے۔۔۔ اور محبت ایک سرتاپا مثبت فکر ہے۔ جس کے دل میں منفی سوچیں براجمان ہوں، وہاں محبت کا سلطان دربار نہیں لگاتا۔ محبت کی خوبی یہ ہے کہ محبت صرف خوبی دیکھتی ہے۔ نفرت کی خامی یہ ہے کہ نفرت خامیاں گنواتی ہے۔

لوگوں کا جج نہ بنیں، اُن کا وکیل بنیں۔۔۔ اور وہ بھی وکیلِ صفائی! لوگوں پر الزم نہ دھریں۔۔۔ لوگ ملزم ہو جاتے ہیں۔ اپنے ”ملزم“ کو صفائی پیش کرنے کا بھرپور موقع دیں، مہلت دیں۔ لوگوں کو مہلت دیں گے، تو خود بھی مہلت لیں گے۔ فیصلہ کریں گے تو آپ کے متعلق فیصلہ بھی محفوظ ہوا پڑا ہے۔۔۔جو وقت سے پہلے بھی سنایا جا سکتا ہے۔ فیصلوں کا ایک دن معین ہے، مالکِ کائنات نے وہ دن مقرر کر رکھا ہے۔ اس سے پہلے فیصلہ نہ سنائیں۔ گو قیامت قریب ہے لیکن قیامت جلد برپا کرنے کی کوشش نہ کریں۔

”حسین اتفاق کا منتظر رہنا“۔۔۔ اس جملے کو ہم ذرا سے مثبت انداز میں۔۔۔ ذرا کم تلخ انداز میں۔۔۔ ایک ایسے انداز میں جس میں طنز کا پہلو نہ نکلتا ہو۔۔۔ بیان کر سکتے ہیں۔ ہم اس بات کو یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ فلاں شخص ہر حال میں پُر اُمید رہتا ہے۔۔۔ وہ اپنے رب کی طرف سے کسی مہربانی کا منتظر رہتا ہے۔ یہی لطیف اور مثبت بات منفی سوچوں کی یلغار میں یوں بیان ہو گی: ”فلاں احمقوں کی جنت میں رہتا ہے، Fool’s Paradise … اللہ کے بندو! سیانے سیانے بندو! تم سے بہتر تو وہ بیوقوف ہی رہا، کہ جب تک رہا کسی جنت میں رہا۔ تم اپنی عقل کے گھوڑے دوڑاتے رہے، زیادہ سے زیادہ بحرِ ظلمات میں دوڑا لیے ہوں گے۔“

آپ کی تیسری بات: ”تلخ حقائق سے چشم پوشی کر کے خود کو تسلی دینا۔۔۔“ یہ بات دراصل آپ کی پہلی بات ہی کا ایک نیا انداز ہے۔ درحقیقت حقائق ہوتے ہی تلخ ہیں، پیدائش سے لے کر موت تک انسانی زندگی کے سب حقائق انتہائی تلخ ہیں۔ یہ انسانی جذبات، کیفیات اور ان کیفیات کا پیرایہِ اظہار ہے جو اِس تلخابۂ زیست کو شیریں بنا دیتا ہے۔ انسانی بچے کی پیدائش کا عمل ہی لیں، یہ دیکھنے کے قابل ہرگز نہیں ہوتا، لیکن ہماری خوبصورت کیفیات کے رنگا رنگ پیراہن اس لیس دار بدبودار سے نکلنے والے بچے کو ہماری گود میں ایک خوشگوار جھونکے کی صورت میں لا بٹھاتے ہیں۔ زندگی برقرار رکھنے کے لیے جسم میں کھانا پینا داخل کرنا اور پھر اسے خارج کرنا دونوں ہی بدبودار مراحل ہیں، ہم اپنے عزیزوں کو کھانے کی دعوت دیتے ہیں، دسترخوان پر مل بیٹھتے ہیں اور اپنی خوشگوار گفتگو سے اس مرحلے کو خوشبودار بنا دیتے ہیں۔ یہی حال شادی بیاہ کے معاملات میں ہے۔

لوگوں کی زندگی اور زندگی کے معاملات کو تنقید کی نظر سے نہ دیکھیں، تعریف اور توصیف کی نگاہ سے دیکھیں۔ یقین مانیے! اللہ کی مخلوق قابلِ تعریف ہوتی ہے۔ جس کا مزاج ہمارے مزاج سے ہم آہنگ نہ ہو، جس کی فکر ہماری فکر سے میل نہ کھائے، اس سے ہم خار کھاتے ہیں، وہ ہمیں خار نظر آتا ہے۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ کا ایک شعر ہے:
وہ بھی ہو گا کسی کا نورِ نظر
کھٹکتا ہے جو خار آنکھوں میں

Advertisements
julia rana solicitors london

ہم زندگی کا منظر دیکھنے میں کچھ کج نظر واقع ہوئے ہیں۔ ہمیں پھول سے پہلے کانٹے نظر آنے لگتے ہیں۔ زندگی کے گلشن میں پھول چنیں، پھول۔۔۔ کانٹے پھول کی حفاظت کے لیے ہوتے ہیں۔ جب کسی سے ملاقات کے لیے جاتے ہیں تو اس کے چوکیدار سے نہیں الجھتے۔ کانٹوں کو اگر خامیاں کہہ لیا جائے اور پھول کو خوبیِ حسن و کمال۔۔۔ تو خامیاں ہماری خوبی کی حفاظت کرنے پر مامور ہیں۔ جسے یہ بات سمجھ میں آ جاتی ہے، اسے کوئی خامی تنگ نہیں کرتی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply