کیایہ اتنا ہی سادہ معاملہ ہے کہ ایک ڈویژن کے کمشنر کا انتخابات کے انعقاد کے آٹھ، دس دن اچانک ضمیر جاگتا ہے کیونکہ اس سے انتخابات میں دھاندلی کروائی جاتی ہے، ضمیر اتنی شدت سے جاگتا ہے کہ وہ خود کشی کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اس کے بعد سوٹڈ بوٹڈ ہو کے میڈیا کے سامنے نہ صرف اعترافات کرتا ہے بلکہ کہتا ہے کہ اسے پنڈی کے کچہری چوک میں پھانسی پر لٹکا دیا جائے۔ یہ انڈیا کی کسی سستی فلم کا سکرپٹ لگتا ہے۔
غور کیجئے کہ ہماری بیوروکریسی کیسے کیسے لطیفوں اور ذہنی مریضوں سے بھری پڑی ہے۔ سوشل میڈیا نے کیسے کیسوں کی مت مار دی ہے۔ ہر شوخا ہیروگیری پر اتراہوا ہے۔ ویسے لیاقت چٹھے کے لئے یہ ہرگز گھاٹے کا سودا نہیں جس کی ریٹائرمنٹ چند ہفتوں بعد ہو، امریکا کا ویزا لگا ہو، بچے لندن سیٹل ہو رہے ہوں توملک چھوڑنے سے پہلے سوشل میڈیا پر فیم لینے اور اپنے رشتے داروں کے سامنے ہیرو بننے کے لئے انیل کپور بن جائے۔ اس نے جو کہنا تھا کہہ دیا اور جو کرنا تھا کر لیا۔ اب آپ دلائل دیتے رہیں کہ ایک کمشنر کا براہ راست الیکشن سے کوئی تعلق ہی نہیں۔
انتخابات کاانعقاد ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران اور ریٹرننگ افسران کی ذمے داری ہے۔ کمشنر کی ذمے داری تو امن و امان بھی نہیں ہے۔ آپ پوچھتے رہیں کہ کیا ایک ہفتے سے زیادہ تم اپنے ضمیر کے ساتھ سوتے رہے۔ کیا اس ایک ہفتے کے دوران جس میں پانچ، چھ ورکنگ ڈیز تھے، تم نے چیف الیکشن کمشنریا چیف سیکرٹری سمیت کسی بھی کو اس دباؤ کے بارے بتایا جو تم پر الیکشن کے نتائج تبدیل کرنے کے لئے ڈالا گیا تھا۔ حنیف عباسی کہتے ہیں کہ یہ شخص کل سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کی ایک میٹنگ میں ان کے ساتھ تھا اور وہاں اس نے انہیں مبارکباد دی اور ایسی کوئی بات نہیں کی۔
انتخابات میں دھاندلی کا معاملہ پہلے ہی گرم ہے۔ مولانا فضل الرحمان ہارنے کے بعد اپنے ہی گروہ پر حملہ آور ہو گئے ہیں۔ جی ڈی اے اپنی جگہ سڑکیں بند کرکے مظاہرے کر رہا ہے۔ پی ٹی آئی دنیا بھر کے میڈیا کے سامنے اپنے ملک کے چہرے پر کالک مل رہی ہے۔ ہم دھاندلی پر پہلے بات کر چکے کہ یہ دھاندلی وہاں کیوں نہیں ہوئی جہاں پی ٹی آئی جیتی ہے اور اب ضمیر جاگنے والی بات، یہ ضمیر جاگنے والی سہولت بھی صرف پنجاب میں ہی فراہم کی گئی ہے۔
حیرت کی بات ہے کہ خیبرپختونخوا، سندھ اور بلوچستان سے کسی بیوروکریٹ کا ضمیر نہیں جاگا۔ کمشنر پنڈی کے بیان کے بعد کل چیف جسٹس سپریم کورٹ قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ کی وہ سماعت اہم ہوگئی ہے جس میں آٹھ فروری کے الیکشن کالعدم قرار دے کر، عدلیہ کے زیر نگرانی تیس روزمیں نئے انتخابات کی درخواست کی گئی ہے۔
جسٹس علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی اس تین رکنی بنچ کا حصہ ہیں مگر دلچسپ امر یہ ہے کہ لیاقت چٹھے نامی شخص نے اس میں چیف جسٹس اور چیف الیکشن کمشنر کو بھی گھسیٹ لیا ہے۔ اس کے مطابق اس کے ماتحت روتے رہے کہ ان سے یہ کیا کام کروایا جا رہا ہے اور یہ کہ جو ستر، ستر ہزار سے ہار رہے تھے، اس کمشنر کے ذریعے انہیں پچاس، پچاس ہزار سے جتوایا گیا۔ اب دلچسپ امر یہ ہے کہ پنڈی ڈویژن میں پچاس پچاس ہزار سے جیتنے والے امیدوار ہی نہیں ہیں۔
سوال بہت سارے ہیں کہ اگر تم اگر اپنے ضمیر پر بوجھ کے ساتھ ایسا کوئی غلط کام کررہے تھے تو کیا اس کی کوئی ویڈیو وغیرہ بھی بنائی اور اس سے بھی پہلے جس نے تمہیں اس غلط کام کا حکم دیا اس کی کوئی ریکارڈنگ موجود ہے تاکہ کوئی ثبوت ہوتا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ پی ٹی آئی جن فارم پینتالیس کے ساتھ دھاندلی کے الزامات لگا رہی ہے ان کی اکثریت بھی جعلی ہے۔ بیشتر پر دستخط، انگوٹھے یا شناختی کارڈ نمبر ہی موجود نہیں ہیں گویا جو کچھ کیا جا رہا ہے وہ پوری منصوبہ بندی کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔ اس پورے منظرنامے کو دیکھا جائے تو واضح ہوجاتا ہے کہ ہر وہ گروہ جو حکومت میں آنے کی پوزیشن میں نہیں آسکاوہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کے حکومت بننے کی راہ روک رہا ہے۔
آئیں دُعا کریں کہ اللہ پاکستان کی حفاظت کرے۔ اقتصادی بدحالی اور معاشی تباہی کو بریک لگائے۔ آج بچوں کو رز ق ملے اور کل یہ جوان ہوں تو روزگار مگر اس کے لئے پر امن، مضبوط اور آئینی پاکستان درکار ہے جس کی بنیاد آج رکھی جا سکتی ہے۔ کچھ عناصر اس بنیاد میں ڈائنامیٹ لگا رہے ہیں۔ وہ پاکستان کے مستقبل کی بنیادوں کو دھماکوں سے اڑا رہے ہیں۔ وہ امیدا ور اعتماد ختم کر رہے ہیں۔
پی ٹی آئی کے ایک وکیل رہنما کا پیغام موصول ہوا کہ صورتحال تیزی کے ساتھ مارشل لا کی طرف بڑھ رہی ہے۔ میں اس حد تک تو اتفاق کرتا ہوں کہ جہاں معاملہ سپریم کورٹ میں جانے کے بعد اہمیت اختیار کر سکتا ہے وہاں پارلیمان میں مسلم لیگ نون کی طرف سے وفاقی حکومت بنانے سے انکار کے بعد ایک ڈیڈ لاک پیدا ہو سکتا ہے۔ اس صورتحال کو سپریم کورٹ میں موجود معاملے کے ساتھ ملا کے دیکھیں تو نئی حکومت نہ بننے کی وجہ سے نگران حکومت کی مدت میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے اور کوئی ایمرجنسی ٹائپ مارشل لا بھی آسکتا ہے کیونکہ ریاست ایک بندگلی میں پہنچ رہی ہے۔
میں نے پی ٹی آئی کے رہنما کو جواب دیا کہ اس صورتحال پر خوش نہ ہوں۔ ابھی پی ٹی آئی نمبر گیم کے ساتھ حکومت حکومت بھی کھیل رہی ہے اورنومئی کے واقعے پر فوجی عدالتوں کو بھی متنازع بنا رہی ہے۔ ابھی وہ آئین اور جمہوریت کا نام لے کر اپنے آپ کو بچا رہی ہے لیکن اگر یہی آئین اور جمہوریت نہ رہے تو پھر اس کے پلے بھی کچھ نہیں رہے گا۔ پی ٹی آئی کو لگتاہے کہ اس کا مفاد اسی میں ہے کہ وہ اپنے بانی چیئرمین کی رہائی کے لئے زیادہ سے زیادہ انتشار پیدا کرے تاکہ ریاست دباو میں آ سکے مگر حیرت انگیز طو ر امریکا اور اس کے ہم نوا بھی وہی کچھ کہہ رہے ہیں جو پی ٹی آئی کہہ رہی ہے۔
سوال ہے کہ وہ پی ٹی آئی کے اتنے ہمدرد کیوں ہو گئے، ان پر تو حکومت گرانے کا الزام لگایا گیا تھا تو اس کے جواب سے پہلے حکیم سعید، ڈاکٹر اسرار اور عبدالستار ایدھی کی باتوں کو یاد کریں۔ اس وقت امریکا پاکستان میں ایسی کوئی بھی حکومت برداشت نہیں کر سکتا جو چین کے ساتھ چلی جائے۔ جو قرض پر سرمایہ کاری کو ترجیح دے۔ جو سی پیک کا احیا کرے۔ جو اپنے معاملات کو اپنے ہمسائیوں افغانستان، ایران اور ہندوستان کے ساتھ طے کر لے۔ جس کے بارے یقین ہو کہ وہ مدت پوری کرے گی اور اسے ریاستی اداروں کی حمایت رہے گی۔
ایسی ہی حکومت روکنے، انتشار جاری رکھنے اور پاکستان کو تباہ حال رکھنے کی گریٹ گیم ہو رہی ہے اور کمشنر پنڈی جیسے سارے تماشے میرے وطن کے خلاف ہونے والی اسی ڈرٹی گریٹ گیم کا ایک چھوٹا سا حصہ ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں