قلم کے آنسو/حبیب شیخ

سیاہی، روشنائی، دوات

آج یہ لکھنے کے لئے میرے قلم کی مدد نہیں کر سکتے
اور اسے ان کی ضرورت بھی نہیں ہے

مجھے کوئی سمجھائے کہ

معصوم بچوں کی چیخوں کو کیسے قلمبند کروں
ملبے میں دبی ہوئی آہ و بکا کو کیسے تحریر کروں
خون میں نہائے ہوئے جوانوں کا عکس کیسے کاغذ پہ سمیٹوں
بھوکے پیاسے لوگوں کی پنا گاہ ڈھونڈنے کی جستجو کو کیسے بیان کروں

ہر طرف بموں کے خوفناک دھماکوں کو کون سے الفاظ سے لکھوں

لاشوں کے درمیان روتے ہوئے زخمی بچوں کی پکار

تباہی، بربادی، خون سے لت پت انسانوں کے انبار
کانپتی ہوئی دھرتی، فضا کو چیرتے ہوئے موت کے آلات
ایمبولینسوں کے سائرن، سہمے ہوئے لوگ، گمشدہ یتیم
کوئی جگہ نہیں ہے بچا ؤکی
کون کہتا ہے قیامت نہیں آئی
طاقتور نے مظلوموں کے لئے صور پھونک دیا ہے
ظلمت اور موت کا بھیانک رقص پورے زوروں پہ ہے

کسی نے انکشاف کیا کہ  یہ فلسطینی تو محض جانور ہیں
اربوں بے حس انسان اسکرین پہ یہ سب کچھ دیکھ رہے ہیں
اور وہ جو طاقت کے نشے میں جھومتے ہوئے مست ہاتھی
اور ان کے ہر قول کو دہرانے والے چھوٹے انسان
اور ان کے ہر عمل کی تعریف کرنے والے ضمیر فروش
یہ انسانیت کے نعرے لگانے والے انسانیت کے قاتل

Advertisements
julia rana solicitors london

ہاں اس قلم کو سیاہی، روشنائی، دوات کی ضرورت نہیں ہے
یہ قلم اپنے ہی آنسوؤں سے سب کچھ لکھ رہا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply