نکاح پاکیزہ نسل کے قیام کا حصول/بنتِ شفیع

بیٹا کچھ زیادہ پڑھ لکھ کر اچھی جاب کر رہا ہو تو ،ایسے بیٹوں کی مائیں جب بہو کی تلاش میں ہوتی ہیں تو ان کا انداز بہت مغرورو متکبرانا سا ہوتا ہے۔گویا بیٹے کی ماں  نہیں ماؤنٹ ایورسٹ کی فاتح ہوں، مگر یہی خواتین جب اپنی عام سی شکل و صورت والی بیٹی کے رشتہ کے لیے پریشان ہوتی ہیں تو ان کا انداز یکسر بدل جاتا ہے۔لہجے سے شیرینی اتنی ٹپکتی ہے اگر ارد گرد دیگر خواتین کی بجائے مکھیاں بیٹھی ہوں تو چمٹ ہی جائیں۔ شہدآ میز لہجے کے علاوہ عاجزی و انکساری کا پیکر بن جاتی ہیں۔ملاحظہ فرمائیں ذرا،اپنی پھوہڑ بدتمیز بیٹی کی خوبیاں گنواتے ہوئے،بہت صابر و شاکر دیندار ہے ہماری بچی۔جیسے اس بچی نے سسرال میں قدم رکھتے ہی مصلے پر بیٹھ کے ساس کی درازی عمر کی دعا کرنی ہو۔ ہر قسم کے ہنر میں طاق ہے ہماری دختر نیک اختر ،سلیقہ مند سگھڑ سلیقہ شعار کوکنگ کٹنگ میں ماسٹر ۔گویا ٹیلرز کی کمائی  پر لات مارنے کا پلان لا رہی ہو ساتھ ،اب یہ الگ بات ہے کہ بعد میں یہی ہر فن میں طاق بی بی سسرال میں قدم رکھتے ہی سب سلیقہ کوکنگ کٹنگ ادب اداب بھول کر اپنا صرف ایک ہی ہنر ازماتی ہیں کہ کیسے میاں کی عقل کو سلب کرنا ہے۔ تاکہ جیسا چاہے میاں کو تگنی کا ناچ نچا سکے۔

مائیں اگر اپنی سوچ بدل لیں ،جیسی بیٹی ہے ویسی ہی بہو تلاش کریں اور وہی انداز اختیار کریں ،غرورو تکبر کو چھوڑ کر ۔۔تو کافی حد تک گھروں میں ساس بہو کے درمیان ہونے والے انتشار کو کم کیا جا سکتا ہے۔اور یہی  بہترین اصول ہے زندگی کے ہر شعبے میں کہ جو اپنے لیے پسند کرتے ہو ،وہی دوسروں کے لیے پسند کرو گے تو   سُکھ پاؤ گے۔

لیکن ہمارے ہاں سب سے بڑا معاشرتی المیہ یہ ہے کہ بیٹیوں کا رشتہ ڈھونڈتے وقت رشتہ طے کرتے وقت معیار کچھ اور ہوتا ہے۔اور بیٹوں کے لیے کچھ اور قسم کی ماؤں کی ڈیمانڈز ہوتی ہیں، وہ ایک تکلیف دہ حقیقت ہے۔رشتہ جب بیٹے کا چاہیےہوتا ہے تو انداز یکسر بدل جاتا ہے۔اکثر خواتین کی خواہش ہوتی ہے کہ نور چشم بے شک کالا پیلا موٹا بھدا ہو،حسنِ اخلاق سے عاری ہو، جانوروں جیسی خصوصیت کا حامل ہو  بے شک۔۔ پر اس کے لیے بھی حسین و جمیل لڑکی چاہیے ہوتی ہے، چندے آفتاب ماہتاب ہو۔مسکراہٹ مونا لیزا جیسی،شخصیت کا سحر لیڈی ڈیانا جیسا۔احمد فراز کی غزل جیسا مکمل شہکار ہو،گاڑی بنگلہ نٹ کیش،اور سونے پر سہاگہ کم عمراعلیٰ   تعلیم یافتہ بھی ہو ،اور جب یہی چاند چہرہ ستارہ آنکھوں والی کی آنکھوں کے سحر میں ڈوب کر جب 6 فٹ کا عاقل وبالغ بیٹا تمام رشتوں کو فراموش کر کے عقل سے عاری ہو جاتا ہے تو یہی حسن کا شاہکار بہو، ماؤں کو ناگن ڈائن چڑیل جیسی لگنے لگ جاتی ہے۔

جہیز ایک ہندو انہ رسم ہے، منہ پھاڑ کے جہیز کی ڈیمانڈ کرنا سخت نا پسندیدہ فعل ہے۔اسلام میں بیٹی کا جائیداد میں حصّہ ہے ۔اسے اس کا حصّہ جو جائیداد میں بنتا ہے دے دیا جائے تو بیٹی کا حق ادا کرنے پر اللہ تعالیٰ  کی خوشنودی بھی حاصل ہوتی ہے۔اہل ہنود چونکہ بیٹی کو جائیداد میں حصہ نہیں دیتے ،اس لیے تھوڑا  بہت جہیز کے نام پر دے کر ہاتھ جھاڑ لیتے ہیں۔شادی اگر سادگی سے کی جائے تو بہت سے والدین اپنے بچوں کے نکاح کے اس فریضہ کو احسن رنگ میں ادا کر کے سرخ رُو ہو سکتے ہیں، بصورت دیگر شادی پر فضول ہندوانہ رسم رواج کے نام پر پیسہ لٹانے کے لیے والدین کے پاس رقم نہ ہونے کی وجہ سے بیٹیاں گھروں میں بیٹھی بوڑھی ہوجاتی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نکاح ایک مقدس بندھن ہے جس کا مقصد ایک پاکیزہ نسل اور پاکیزہ معاشرہ کا قیام ہے۔اس لیے اس مقدس فریضہ کی ادائیگی کواحسن رنگ میں ادا کرنے کے لیےہر قسم کے کمر توڑ پیسوں اور وقت کا ضیاع کرنے والے رسم ورواج کو یکسر نظر انداز کرنا ہوگا۔اگر حسن وجمال کی بجائے حسنِ  اخلاق تقویٰ   کو مد نظر رکھا جائےتو ایک بہترین معاشرہ کی تشکیل کے ساتھ  نکاح  کرنا پاکیزہ نسل کے حصول کا باعث بن جائے ۔اور دین اسلام کے لائحہ عمل کے مطابق ایسے گھر ہی امن و عافیت سلامتی کا گہوارہ ہوتے ہیں جہاں سب ایک دوسرے کے حقوق ادا کر نے والے ہوتے ہیں ۔جہاں کسی رشتہ کی حق تلفی نہیں ہوتی۔والدین کا اپنا مقام ومرتبہ ہوتا ہے اور بیوی بچوں کا اپنا اور دیگر رشتہ داروں کا اپنا مقام مرتبہ ہوتا ہے ۔اور اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جس کا لائحہ عمل ایک بہترین ضابطہ حیات ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”نکاح پاکیزہ نسل کے قیام کا حصول/بنتِ شفیع

  1. Good binate shafee you emphasized the importance of thorough consideration before finalizing a relationship/marriage to help build a strong and lasting connection.

Leave a Reply