• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کرونا ڈائریز:کراچی،کرفیو سے لاک ڈاؤن تک(پندرھواں دن)۔۔گوتم حیات

کرونا ڈائریز:کراچی،کرفیو سے لاک ڈاؤن تک(پندرھواں دن)۔۔گوتم حیات

شہر میں علمی و ادبی اور ثقافتی تقریبات کو منعقد کرنے والے لاک ڈاؤن ختم ہونے کے انتظار میں اپنے گھروں میں مقید ہیں۔ اسی طرح ان اہم تقریبات میں شرکت کرنے والے “مُجھ” جیسے لوگ بھی اس آس میں ہیں کہ جلد از جلد یہ سرگرمیاں بحال ہوں۔ ان دنوں ہم سب کا رابطہ صرف فون کالز تک محدود ہے۔ فون کالز آرہی ہیں، فون کالز جا رہی ہیں۔۔ کاش ہم بھی ان فون کالز کی مانند ایک دوسرے کے پاس پہنچ سکتے۔
چھ اپریل کا دہکتا ہوا، آگ برسات سورج غروب ہو چکا۔ اس وقت رات کے آٹھ بج رہے ہیں، گرمی کی شدت میں بھی اب کچھ کمی ہوئی ہے۔ آج دن بھر میں نے محض یہ سوچنے میں گزار دیا کہ کیا لکھوں۔۔۔؟؟؟
دن کے وقت میرے دوست طارق نے مجھے شہر جھول سے کال کی۔ یہ ضلع سانگھڑ سے 10 کلو میٹر کے فاصلے پہ واقع ایک چھوٹا سا شہر ہے۔ سندھی زبان میں جھول نشیبی جگہ کو کہتے ہیں۔ فون پر اُس نے مجھے بتایا کہ اس کے گاؤں میں ان دنوں بھی حالات معمول کے مطابق ہیں۔ لاک ڈاؤن نے صرف بڑے شہروں کے معمولات پر فرق ڈالا ہے۔ ہم چھوٹے شہروں اور گاؤں، دیہات میں رہنے والوں کی زندگی تو اُسی دھیمی رفتار سے چل رہی ہے جیسے لاک ڈاؤن سے پہلے ہوا کرتی تھی۔ یہاں گندم کی کٹائی شروع ہو چکی ہے، سارا سارا دن لوگ کھیتوں میں کام کر کے اور اپنے مال مویشیوں کی دیکھ بھال کرنے میں صَرف کر دیتے ہیں۔ فارغ اوقات میں ان لوگوں کا ایک دوسرے سے ملنا جلنا بھی برقرار ہے۔ میں نے اس سے پوچھا کہ کیا ان لوگوں کو ڈر نہیں لگتا اس وبائی بیماری سے جس کا ابھی تک کوئی علاج بھی دریافت نہیں ہو سکا۔ دنیا بھر سے دل دہلا دینے والی خبریں آرہی ہیں۔ اٹلی اور  سپین میں کرونا نے ہزاروں زندگیوں کو موت کی تاریک وادیوں میں دھکیل دیا ہے۔ چین، امریکہ  غرض دنیا کا کوئی بھی ایسا مُلک نہیں جو کرونا سے متاثر نہ ہوا ہو۔ خود ہمارے اپنے ملک میں کرونا کے مریضوں کی تعداد تین ہزار سے تجاوز کر چکی ہے اور پچاس کے قریب لوگ جاں بحق ہو چکے ہیں۔ میری ان سب باتوں پر اس کا کہنا تھا کہ یہاں وہ مواقع دستیاب نہیں جن کو بروئے کار لا کر لوگ سکون سے گھروں میں بیٹھ کر، سماجی دوری اختیار کر کے، اس خطرناک وبا کا مقابلہ کر سکیں۔ صوبائی حکومت نے مساجد پر جمعے کے اجتماعات اور نمازوں پر پابندی لگا کر ایک اہم قدم اُٹھایا ہے لیکن لوگوں کا تعلق مساجد و امام بارگاہ کے علاوہ دوسری چیزوں سے بھی تو ہے جہاں پر ان کے سماجی فاصلے کو کم کرنے کے لیے ابھی تک حکومت نے کسی اہم پالیسی کا اعلان نہیں کیا۔ یہی بنیادی سبب ہے کہ لوگ لاک ڈاؤن کے باوجود اپنے “پیٹ” کو زندہ رکھنے کے لیے وبا کے دنوں میں بھی کھیتوں پر کام کرنے جا رہے ہیں۔ اگر یہ کھیتوں پر کام کرنے نہ جائیں تو گھروں میں پڑے ان کے فاقہ زدہ بدن کو کون سہارا دے گا؟۔ اسی لیے ان لوگوں کے روزمرہ کے
میل جول میں کوئی فرق نہیں آیا۔ زیادہ تر لوگ ناخواندہ اور سماجی شعور سے بھی نابلد ہیں۔ ہمارے لوگوں میں آجکل ایک فقرہ بہت فراونی سے بولا جا رہا ہے کہ۔۔
“یہاں تو ابھی تک کرونا کا کوئی مریض نہیں ہے اس لیے کرونا کی وبا بھی اس علاقے میں نہیں آسکتی”۔
فون پر اپنے دوست کی یہ سب باتیں سُن کر مجھے انتہائی دکھ ہوا۔ وہ خود بھی پریشان تھا۔ ہم دونوں کے پاس کوئی ایسا آپشن نہیں ہے جس کی بدولت ہم ان لوگوں کی زندگیوں کو محفوظ بنا سکیں۔ چہروں پر حفاظتی ماسک اور وقفے وقفے سے صابن یا سینیٹائزر سے ہاتھ دھونے کے جھنجٹ سے آزاد یہ لوگ بغیر احتیاطی تدابیر کے اپنے کام کیے جا رہے ہیں۔
کرونا کے بارے میں “ڈبلیو ایچ او” کے آگاہی پیغامات ہم ان دنوں ہر روز اپنے موبائل فونز پر وصول کر رہے ہیں۔ کاش کہ ان نام نہاد “آگاہی پیغامات” کی گونج سے کروڑوں محروم لوگوں کی زندگیاں بدل سکتیں۔
مجھے تو لگتا ہے کہ آئے روز ٹی وی اور ریڈیو پر چلنے والے کرونا سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر بھی صرف مخصوص لوگوں کو ہی محفوظ بنانے کے لیے دی جا رہی ہیں۔
پاکستان کے بیشتر علاقوں کی صورتحال سندھ کے شہر “جھول” ہی کی مانند ہے۔ حکمرانوں کی طرف سے مسلط کردہ غربت اور پس ماندگی کی وباؤں کے گہرے بادلوں کے سائے میں پرورش پاتے یہ لوگ کیا کرونا جیسی وبا کا بھی مقابلہ کر سکیں گے۔؟؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply