• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • “کورونا نہیں ،بھوک اور ادارے زیادہ ماریں گے۔۔مدثر اقبال عمیر

“کورونا نہیں ،بھوک اور ادارے زیادہ ماریں گے۔۔مدثر اقبال عمیر

میں پرسوں گھر آیا ہوں۔ہم۔ایک دیہات میں رہتے ہیں ۔ نماز پڑھنے اور واک کرنے کے علاؤہ گھر سے نہیں نکلا ۔اب سوچ رہا ہوں نماز بھی گھر میں پڑھوں ۔

مجھ سےچھوٹے دو بھائی ہیں ۔ ایک گارمنٹس فیکٹری میں چھوٹا سا ٹھیکیدار ہے اور دوسرا پیپسی میں سیلز مین ۔یعنی مستقل روزی کا ذریعہ نہیں ۔دونوں صبح نکلتے ہیں اور شام کو گھر آتے ہیں ۔حلفیہ کہتا ہوں شوق سے نہیں نکل رہے ۔پیٹ نکال رہا ہے ۔گھر والوں کی ضروریات نکال رہی ہیں ۔دونوں فیس بک کے عامی استعمال کنندہ ہیں ۔یقین سےکہتا ہوں کہ انھیں بالکل خبر نہیں ہوگی کہ تین دن میں پاکستان میں کرونا مریضوں کی تعداد کئی سو گنا بڑھ چکی ہے ۔انھیں بالکل خبر نہیں کہ پاکستان میں ایشیا میں ایک دن میں سب سے زیادہ کیس رپورٹ ہوئے ہیں ۔
انھیں علم نہیں کہ حالات کس قدر خراب ہیں اور خدا نخواستہ کس قدر خراب ہوسکتے ہیں ۔

چلیں مان لیا کہ انھیں خبر بھی ہو تو کیا صبح فیکٹری اور کام پہ جاتے ہوئے قدم رک جائیں گے؟۔کیا کرونا کی تلخ سچائی گھر کی ضروریات پوری کر دے گی؟۔
تلخ سچ یہ ہے کہ نہیں ۔۔۔

تو صاحبان !
یہی وہ کڑوا گھونٹ ہے جو اس وقت میرے خیال میں ستر سے اسی فیصد عوام کو بازاروں میں مصروف رکھ رہاہے ۔یہی وہ اندرونی ضرورت ہے جو اتنے بڑے خطرے سے باخبر ہوتے ہوئے بھی کسی درجہ بے خبر رہنے کی اداکار ی کروا رہی ہے۔

اب یہاں ذمہ داری اس ملک کے اداروں کی آجاتی ہے کہ ان کے پاس کیا لائحہ عمل ہے ۔وہ ادارے جن کے ساتھ محکمہ فلاں،فلاں تو لگا ہوا ہے لیکن اپنے اپنے شعبوں میں ملک کے لئے خدمات ندارد۔

وہ ادارے جن کے بیشتر افسران اعلی امتحانات پاس کردہ،پورے ملک سے چنے ہوئے ،جن کی تربیت میں شاید اس طرح کے مسائل سے نبٹنے کے کئی کورسز ہوں لیکن عملی میدان میں کارکردگی صفر بلکہ منفی۔اور بدقسمتی یہی ہے کہ ان ادروں کی طرف سے کوئی واضح لائحہ عمل نظر آنے میں بہت دیر ہوگئی ۔

لائحہ عمل یہ ہے کہ اب تک فیصلہ نہیں ہوپارہا کہ لاک ڈاؤن کرنا چاہیے یا نہیں ۔

لائحہ عمل یہ ہے کہ سارا زور زائرین پہ ہے اور ایئرپورٹ پہ آنے والے چند ہزار دے کر چھوٹ کر اپنے بچوں تک کو بیمار کر رہے ہیں۔سعودی ،انگلینڈ سے آنے والے بھی اتنے ہی نقصان دہ ثابت ہورہے ہیں جتنے ایران سے آنے والے۔اور اب ائیرپورٹ بند یے جارہے ہیں ۔حالانکہ پڑوسی ملک ہندوستان نے یہ کام غالباً  اٹھارہ مارچ کو کردیا تھا۔

لائحہ عمل یہ ہے کہ جمعہ ایک قدرتی موقع تھا جس میں پورے پاکستان کو کرونا سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر دی جاسکتی تھیں لیکن اس سے بھی کما حقہ فائدہ نہیں اٹھایا جاسکا نہ ہی علماء کرام کو اس طرح ساتھ لیا گیا جیسے لینا چاہیے ۔

لائحہ عمل یہ ہے کہ اب چین سے ماسک ،حفاظتی آلات درآمد کیے جارہے ہیں۔جو بہت پہلے ہو جانے چاہئیں تھے ۔

لائحہ عمل یہ ہے کہ بھائی کہہ رہا تھا کہ ہم فیکٹری سے اپنی مزدوری مانگنے گئے تو کہا گیا کہ بنک بند ہیں ۔بنک بند رہے تو سمجھئے تنخواہ دار طبقہ بھی اللہ کے حوالے۔

تو حضرات!
اس میں کوئی شک نہیں سماجی فاصلہ ہی واحد حل ہے اور اجتماعی لاک ڈاؤن ہی میں بقا ہے لیکن ایک منظم لائحہ عمل بھی تو درکار ہے ان تمام لوگوں کےلئے جو بری طرح متاثر ہوں گے۔

جہاں کروڑوں خرچ کیے جارہے ہیں تو ایسے افراد کے لئے زیادہ نہیں تو کم سے کم مہینے بھر کا راشن ہی فراہم کر دیا جائے ۔

مخیر حضرات ہی آگے بڑھیں ،محلے والے آگے بڑھیں۔علما ئے کرام آگے بڑھیں ،سعودی علما ہی کی تقلید کریں ۔ جس قدر رب کی ذات سے مانگنے کی اب ضرورت ہے شاید ہی ہو ۔جس قدر دعا کے ساتھ دوا کی اب ضرورت ہے شاید ہی ہو ۔

تو صاحبو!

کچھ تو کرنا ہے ۔ڈرنا بھی ہے اور لڑنا بھی ہے۔لیکن جو بھی کرنا ہے فی الفور کرنا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ورنہ کرونا تو وار کرے گا لیکن اس کے وار کو کاری ہمارے ادارے بنائیں گے ۔اللہ ہی ہم سب کا حامی و ناصر ہو ۔آمین۔

Facebook Comments

Mudassir Iqbal Umair
بلوچستان کے ضلع جعفرآباد کے شہر اوستہ محمد میں بسلسلہ ملازمت مقیم ہوں۔تحریر اور صاحبان تحریر سے محبت ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply