ہر وقت آئیڈیل ہوتا ہے۔۔صاحبزادہ محمد امانت سول

کہتے ہیں کسی ملک میں جب ولی عہد بادشاہ بنا تو اس نے کہا مجھے دانائی و علم حاصل کرنا ہے۔ وزراء نے چند اہل علم بادشاہ کے دربار میں پہنچا دیے۔ بادشاہ نے انہیں ایک لاکھ دینار دیے کہ میرے لیے علم و دانائی لاؤ۔ دس سال بعد وہ دس ہزار کتابوں کے ساتھ بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اس وقت بادشاہ اپنی بیوی،بچوں کے ساتھ مصروف تھا۔ اس نے کہا میرے پاس اتنا وقت کہاں کہ میں یہ سب کچھ پڑھ سکوں۔ اس نے دوبارہ انہیں کہا کہ یہ بہت بڑی تعداد ہے، اسے کم کرو۔ انہیں دوبارہ ایک لاکھ دینار دیے گئے۔ اسی طرح طویل عرصے کے بعد وہ دوبارہ آئے۔ اس وقت بادشاہ کے بچے جوان تھے اور وہ ان کے معاملات میں مصروف تھا۔ سلطنت کے امور و احوال بھی ساتھ تھے۔ اب اُن کے پاس ہزار کتب تھیں۔ بادشاہ نے دوبارہ اپنی مصروفیات کی وجہ سے ان ہزار کتابوں کو پڑھنا ناممکن قرار دیا۔ وہ دوبارہ گئے اور پھر جب واپس آئے تو سو کتابیں تھی۔ اس وقت بادشاہ کی سلطنت کے مسائل منتشر اور بگڑ چکے تھے۔ بیرونی قوتوں کی مداخلت شروع ہوچکی تھی اور جنگ کا ماحول تھا۔ بادشاہ کے لیے ناممکن تھا کہ وہ اِن کا مطالعہ کرتا۔ آخر کار وہ 10 سال بعد دوبارہ آئے تو ان کے پاس ایک کتاب تھی۔ اُس وقت بادشاہ نہایت نحیف و کمزور اور بستر مرگ پر تھا۔ اب اس کے پاس کتاب پڑھنے کا وقت تھا اور نہ طاقت۔ یہ بادشاہ کی ایک تمثیلی کہانی ہے۔ لیکن ہم سب کی کہانی ہے۔

ہم ایک آئیڈیل وقت کی تلاش میں ہوتے ہیں جو فی الوقت میسر ہوتا ہے اسے ہم اپنے لئے بوجھ خیال کرتے ہیں۔ خیال کرتے ہیں کہ ابھی کچھ کرنے کا وقت نہیں آیا۔ تمام زندگی ہم فرصت و عافیت کی تلاش میں رہتے ہیں۔ بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں لیکن مناسب وقت کے انتظار میں موخّر کیے جاتے ہیں۔ مجھے ایسے لوگوں سے بھی ملنے کا اتفاق ہوا جو بڑھاپے میں بھی انتظار میں ہیں کہ ابھی وہ وقت نہیں آیا جس وقت ہمیں کچھ کرنا ہے۔ مناسب وقت کے انتظار میں لمحہ موجود کو ضائع کرنا بے وقوفی کی علامت ہے۔

زندگی میں کچھ نہ کچھ کرنا اہم ہوتا ہے جو مستقبل میں بہت کچھ بن جاتا ہے۔ بامِ عروج پر پہنچنے والے لوگ اپنی کامیابی کا سفر کسی لمحے سے ہی کرتے ہیں۔ سو تک گنتی ایک سے شروع ہوتی ہے بلکہ صفر سے شروع ہوتی ہے۔ کامیابی نہ اوپر سے آتی ہے نہ زمین کے نیچے سے، یہ انسان کے عزم و ارادہ، انسان کے ہاتھ اور پاؤں سے پھوٹتی ہے۔ صرف سوچتے رہنے والے لوگ بزدل ہوتے ہیں یا احمقوں کی جنت کے باسی۔ عمل و منصوبہ سے پہلے سوچنا ضروری ہے لیکن صرف سوچنے سے تمام مقاصد پورے نہیں ہوتے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سوچ و فکر کو عمل میں ڈھالنا اور اسے تعبیر دینا بھی ضروری ہے۔ ہر وقت آئیڈیل ہوتا ہے اور آئیڈیل لوگ ہی وقت کو آئیڈیل بناتے ہیں۔ ورنہ دن ہفتے مہینے اور سال ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔ زندگی گزارنے کا سلیقہ اور انداز ہی وقت کو مفید اور غیر مفید بنا دیتا ہے۔ زندگی انسان کو کامیابی اور خوشی پلیٹ میں رکھ کر نہیں دیتی۔ کامیابی اور خوشی کے لئے مسلسل اور اٙن تھک محنت ضروری ہوتی ہے۔

Facebook Comments

صاحبزادہ امانت رسول
مصنف،کالم نگار، مدیراعلیٰ ماہنامہ روحِ بلند ، سربراہ ادارہ فکرِ جدید

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply